تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-12-2023

روشنی کب آتی ہے

ایک درویش نے اپنے سامنے بیٹھے شاگردوں سے اچانک سوال کیا کہ تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ روشنی کب آتی ہے؟ ایک شاگرد نے ادب سے جواب دیا: جب سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق دکھائی دینے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ روشنی ہے‘ جس نے یہ فرق سمجھایا۔ اس جواب پر درویش کے چہرے اور تاثرات سے سب نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ وہ اس جواب سے متفق نہیں ہوئے۔ ایک اور شاگرد اپنی نشست سے اٹھا اور مؤدب انداز میں بولا: روشنی اس وقت آتی ہے جب دور کے درختوں کی طرف دیکھنے کے بعد فوری معلوم ہو جائے کہ ان میں سے بیری کا درخت کون سا ہے ا ور شیشم کا درخت کون سا، کیونکہ درختوں کے جھنڈ میں الگ الگ درختوں کی پہچان صرف روشنی کی وجہ سے ممکن ہوئی کہ جو اس قدر دور سے بھی درختوں کی پہچان میں مدد کر رہی ہے۔ درویش نے اپنے اس شاگرد کا جواب سننے کے بعد اپنے شاگردوں پر ایک دفعہ پھر سے نظریں ڈالتے ہوئے پوچھا کہ کوئی اور اس کا جواب دینا چاہے گا؟ اس پر سب خاموش رہے۔ درویش نے کچھ توقف کیا اور پھر ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ''جب تم کسی ضرورت مند کے چہرے کو دیکھ کر اس کی ضرورت جان لینے کی قدرت رکھنے لگو تو سمجھ لینا کہ روشنی آ چکی ہے‘‘۔
ایک گزشتہ کالم میں ایک انتہائی ضرورت مند اور آٹھ یتیم بچوں پر مشتمل ایک خاندان کی نشاندہی کی تھی‘ کسی قاری نے اس کے حوالے سے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ تک اگر کسی کے متعلق کوئی خبر یا اطلاع پہنچتی ہے تو اسے نظر انداز کر دیا کریں کیونکہ ہر کوئی ایک جیسی سوچ یا دردِ دل نہیں رکھتا، دوسرا یہ بھی ہے کہ لوگ مختلف تجربات اور واقعات کی وجہ سے ویسے ہی شکوک و شبہات اور بے اعتباری کا شکار رہتے ہیں۔ اس کا کچھ اندازہ مجھے خود بھی ہے۔ اس لیے جب بھی کسی نے مجھ سے متعلقہ افراد کا ایڈریس اور رابطہ نمبر مانگا تو انہیں ساتھ یہ بھی کہا کہ میں اپنی تسلی کر چکا مگر آپ خود بھی ضرور تحقیق کریں۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان افراد کو دیکھنے اور اردگرد سے تحقیقات کرنے کے بعد میری بتائی گئی باتوں سے بھی زیادہ بے کسی اور بے بسی جاننے کا موقع ملا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کسی کو کسی مجبور اور بے کس بیوہ کا بتایا تو وہ صاحب اس بیوہ سے کچھ زیادہ ہی فری ہونے کی کوشش کرنے لگے‘ جس پر اس عزت دار خاتون نے مناسب طریقے سے انہیں بھگانے کا طریقہ استعمال کیا۔ دنیا میں نیکی اور بدی‘ انسان اور شیطان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خوش قسمت وہ ہوتا ہے وہ اللہ کی بتائی راہ پہ چلتا ہے اور جو شیطان کو اپنا دوست بناتا ہے‘ وہ گمراہی کے اندھیروں کا مسافر بن جاتا ہے۔
حساس اور صاف دل لوگوں کی ایک بڑی خرابی ہوتی ہے‘ کہ کسی کو روتا اور تڑپتا ہوا دیکھ کر وہ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس کا اندازہ سب کو ہو گا کہ سڑک پر حادثے کی صورت میں گرے ہوئے‘ خون میں لت پت شخص کو دیکھ کر اکثریت پاس سے گزر جاتی ہے لیکن کچھ لوگ رک کر اس کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے پولیس اور ایمبولینس کو فون کرتے ہیں، زخمی کو ہسپتال لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے وقت اور پیسے کا ضیاع ہو رہا ہے حالانکہ وہ اس شخص کو جانتے تک نہیں۔
جنوبی سوڈان کے صحرا میں بھوک اور نقاہت سے ہڈیوں کے ڈھانچے جیسا ایک بچہ گرم تپتی ریت پر بڑی مشکل سے ایک ایک انچ رینگ رہا تھا۔ وہ آدھ میل دور اقوام متحدہ کے امدادی کیمپ کی جانب جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی وقت سفاک آنکھوں‘ تیز چونچ اور خونخوار پنجوں والا ایک گدھ اس سے کچھ دورآن بیٹھا اور انتظار کرنے لگا کہ کب اس بچے کی جان نکلے تو وہ اس کو بھنبھور کر اپنی بھوک مٹائے۔ وہاں موجود جنوبی افریقہ کے ایک فوٹو گرافر کیون کارٹر (Kevin Carter) نے یہ سارا منظر اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ 26 مارچ 1993ء کی صبح نیویارک ٹائمز جیسے دنیا کے ایک بڑے اخبار میں یہ تصویر ''The Vulture and the Little Girl‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تو اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ نیویارک ٹائمز کے بعد دنیا بھر کے لگ بھگ سبھی اخبارات اور رسائل نے اسے شائع کیا۔ یہ تصویر اس زمانے میں اس قدر وائرل ہوئی کہ اس نے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔ اس تصویر نے ہر طرف دھوم مچا دی اور کیون کارٹر کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اگلے سال‘ اپریل 1994ء میں اس تصویر کو متفقہ طور پر دنیا کی بہترین تصویر قرار دیتے ہوئے ''پلٹزر پرائز‘‘ (Pulitzer Prize) کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس تصویر سے ملنے والی شہرت نے کچھ عرصہ تو کیون کارٹر کو یہ خبر ہی نہ ہونے دی کہ دن اور رات کیسے گزر رہے ہیں لیکن یکدم اس کے تصور اور لاشعور میں اس افریقی بچے کا آخری سانسیں لیتا ہوا کانپتا ڈھانچہ ناچنے لگتا۔ وہ حیران تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کیونکہ یہ کوئی پہلی تصویر نہیں تھی‘ جو اس کی عالمی پہچان کا سبب بنی تھی۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کی نسل کشی کے دوران گلے میں پٹرول سے بھرے ٹائر ڈال کر انہیں آگ لگانے جیسے Necklacing کے دلدوز منا ظر بھی اس نے کیمرے میں قید کر رکھے تھے اور یہ تصویریں بھی دنیا بھرکے اخبارات میں شائع ہو چکی تھیں لیکن سوڈان کے صحرا میں گدھ اور اس بچے کی تصویر کی دنیا بھر میں اشاعت اور اس پر آنے والے ردعمل نے اسے جذباتی طور پر تباہ کر کے رکھ دیا۔
رفتہ رفتہ یہ ردِعمل اس حد تک بڑھ گیا کہ اس نے اخبار کے ایڈیٹوریل اور مینجمنٹ بورڈز کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ انہیں ہزاروں کی تعداد میں خطوط اور فون کالز موصول ہوئیں جن میں یہی سوال پوچھا گیا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا بنا؟ کیا وہ اقوام متحدہ کے فوڈ کیمپ تک پہنچ پایا یا نہیں؟ فوٹو گرافر کیون کارٹر پر الزامات لگائے جانے لگے کہ اس نے ناقابلِ بیان اذیت میں مبتلا اس بچے کی مدد کرنے کے بجائے اس کی تصویر کھینچنے کو کیوں ضروری سمجھا؟ کیون کارٹر سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ اسے فوری طور پر فلائٹ پکڑنا تھی‘ لہٰذا وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ تاہم یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ بچہ بچ نہیں سکا تھا اور گدھ نے اسے کھا لیا۔ اپنے اعزاز میں دی جانے والی ایک پارٹی میں دوستوں اور ساتھی فوٹو گرافرز نے کیون سے پوچھا کہ وہ گدھ کتنا بڑا تھا‘ کیونکہ تصویر میں تو وہ بہت بڑا نظر آ رہا ہے؟ اس پر کیون نے اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ بالکل میرے جیسا تھا بلکہ میری طرح ہی تھا۔ اس نے سب کے سامنے اعتراف کیا کہ اس بچے کا اصل قاتل وہ ہے اور اس بچے کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے بجائے اس نے گدھ کو موقع فراہم کیا کہ وہ بچے کو نوچ اور کھسوٹ سکے۔
بعد ازاں نیویارک ٹائمز نے اپنے صفحۂ اول پر یہ سٹوری شائع کی کہ اس بچے کو اقوام متحدہ کے خوراک کیمپ میں لے جایا گیا تھا اور کیمپ کے لوگوں نے اس کی تصدیق کی لیکن یہ وضاحت کسی کام نہ آ سکی اور اس بچے کی مدد نہ کرنے کی کسک اور دکھ نے اس شاہکار فوٹو گرافر کو اس قدر مجبور کر دیا کہ پلٹزر پرائز ملنے کے صرف چار ماہ بعد‘ جولائی 1993ء میں 33 برس کی عمر میں کیون نے زہر کھا کر خود کشی کر لی۔ 2011ء میں ایک افریقی خاندان نے یہ اعتراف کیا کہ نیویارک ٹائمز نے گدھ والی تصویر میں جسے بچے کو ''لڑکی‘‘ کہا تھا‘ وہ دراصل ایک لڑکا تھا اور 1993ء کے قحط میں وہ بچنے میں کامیاب ہو گیا تھا؛ البتہ چار سال قبل‘ 2007ء میں بخار کے سبب اس کا انتقال ہوا۔ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور شاید مجھے بھی خدا نے نرم اور حساس دل دے رکھا ہے۔ جو دوسروں کے دکھ درد کو ساتھی بناتے ہیں وہی اس روشنی سے فیضیاب ہوتے ہیں جو انگ انگ کو منور کر دیتی ہے۔ اس لیے کسی کو دکھ ا ور تکلیف میں دیکھ کر دنیا کے تبصروں اور باتوں سے ڈرنے کے بجائے نقارہ بجانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved