خود غرضی کیسا وصف ہے؟ اچھا؟ یا بُرا؟ یا دونوں؟ تیسرا آپشن بہترین ہے۔ خود غرضی معقول حد تک ہو تو اچھا وصف ہے۔ دنیا کا ہر انسان فطری طور پر ایک خاص حد تک خود غرض ہوتا ہے ۔ ہونا بھی چاہیے! کسی بھی انسان کو سب سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی مقصدیت سے محروم ہوجائے۔ کسی بھی انسان کے لیے اپنی زندگی کا معیار بلند کرنا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب وہ اپنے مفاد یا مفادات کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ زندگی کا ہر موڑ ہم سے ایسی دانش کا تقاضا کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے معاملات بہتر ہوں، ہمارے مفادات کو تقویت ملے اور ہم زیادہ سُکون سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ جو لوگ اپنے لیے چند نمایاں اہداف متعین کرتے ہیں اُنہیں چند ایک معاملات میں نمایاں حد تک خود غرض ہونا ہی پڑتا ہے۔ خود غرضی کو پروان چڑھائے بغیر ہم اپنے اہداف کے حوالے سے کماحقہٗ سنجیدہ نہیں ہوسکتے۔ اپنی غرض کا بندہ ہونا ہی تو انسان کو دوسروں سے الگ کرتا ہے اور کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ جو لوگ اپنے معاملات کو ہر شے پر ترجیح دیتے ہیں وہ دوسروں سے بہت الگ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اہداف کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں فضول معاملات کے لیے زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اپنا وقت بھی ضائع نہیں کرتے۔
خود غرضی ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو طے شدہ راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ خود غرضی یعنی اپنے کام سے کام اور دوسروں کے معاملات سے دوری۔ اگر کوئی اپنے معاملات میں آپ کو مُخِل ہونے کی دعوت نہ دے تو آپ کا اُس کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لینا بنتا ہی نہیں۔ ہر انسان اپنے مسائل کو اپنے طور پر حل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اگر وسائل کی کمی درپیش ہو تو وہ کسی سے مدد مانگ سکتا ہے مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی اپنے مسائل حل کرنے کے لیے دستیاب وسائل آپ کے حوالے کردے اور خود محض تماشا دیکھے۔ خود غرضی کو ایک مثبت وصف کے طور پر اپنانے کی تحریک دینے والے دانشوروں اور مصنفین نے اِس حوالے سے متعارف کرائے جانے والے فلسفے کو حقیقت پسندی یا معروضیت (objectivism) کا نام دیا ہے۔ معروضیت یہ ہے کہ انسان اپنے کام سے کام رکھے اور جتنی کوشش کرنی چاہیے اُتنی ہی کرے۔ نہ زیادہ نہ کم! جو لوگ معروضیت کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں وہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے پر ذرا بھی یقین نہیں رکھتے۔ وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتے ہیں تاکہ وقت، توانائی اور وسائل ضائع نہ ہوں۔ ایسے لوگ اپنے مقاصد یا اہداف کو ہر وقت نظر میں رکھتے ہیں۔ اِنہیں اِس بات سے بظاہر کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ کسی اور نے اپنے لیے اہداف مقرر کیے ہیں یا نہیں اور یہ کہ وہ زندگی میں کچھ بننا چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ اپنے کام سے کام رکھنا اور اپنے اہداف و مقاصد پر نظر رکھنا ہر اعتبار سے ایک اچھی بات ہے اور اِس سلسلے میں غیر ضروری لچک دکھانے کی بھی ضرورت نہیں۔ پھر بھی ایک بات تو ایسی ہے جس سے بچنا لازم ہے۔ وہ ہے بے حسی! مقصدیت یا معروضیت کا بندہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دوسروں کے معاملے میں یکسر لاتعلق اور بے حس ہوکر رہ جائے۔ بے حسی ایک خاص حد تک تو اچھی بات ہوسکتی ہے مگر جب اِسے زندگی کے ایک بنیادی وصف کے طور پر اپنایا جائے بلکہ اپنے آپ پر طاری کرلیا جائے تو بہت کچھ الجھ جاتا ہے۔
زندگی کو مقصدیت کے حوالے کرنے والوں کی اکثریت بعض معاملات میں یکسر بے حس ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ بھرپور کامیابی کے لیے بے حسی کوئی ناگزیر وصف ہے۔ کوئی اگر کامیابی کی راہ پر بڑھتا جاتا ہے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ اُسے روکے یا پریشان کرے۔ ہاں! دو‘ ایک افراد ایسے ہوسکتے ہیں جو کسی خاص رنجش یا کسی اور وجہ سے تھوڑی بہت الجھن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اُن سے بھی معقول انداز سے نپٹا جاسکتا ہے۔ جس شخص سے آپ کا براہِ راست کوئی تعلق نہ ہو وہ آپ کے بارے میں بدگمان کیوں ہو اور آپ کی راہ میں روڑے کیوں اٹکائے؟ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ بھرپور یا مثالی نوعیت کی کامیابی یقینی بنانا چاہتے ہیں وہ قدم قدم پر اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ لوگ اُن کا بُرا چاہتے ہیں یا اُن کی کامیابی سے جلتے ہیں۔ یہ سوچ یکسر بے بنیاد ہے مگر اپنے اہداف و مقاصد کی غلامی اختیار کرنے والوں کی اکثریت کسی جواز کے بغیر اس سوچ کی عادی ہوتی جاتی ہے اور اِس کے نتیجے میں بے حسی کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔
بہت سوں کے ذہن میں یہ گمان بھی توانا ہوتا جاتا ہے کہ اگر وہ بے حسی کا مظاہرہ نہیں کریں گے، دوسروں کو نظر انداز نہیں کریں گے تو اپنے اہداف و مقاصد پر متوجہ نہیں ہوسکیں گے اور کام کے لیے مطلوب سنجیدگی پیدا نہ ہوسکے گی۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کامیابی سے ہم کنار دکھائی دیں گے اور اُنہیں بھرپور زندگی بسر کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ کامیابی یقینی بنانے کے لیے اپنے ماحول میں موجود لوگوں سے یکسر لاتعلق ہوکر جینا کسی بھی درجے میں لازم نہیں۔ بعض انتہائی کامیاب افراد کی زندگی خاصی روکھی اور پھیکی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے شعبے میں کامیاب ہونے یعنی مالی اعتبار سے مضبوط ہوجانے پر علاقہ بدل لیتے ہیں اور ایسے علاقوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں جن میں اُنہی جیسے آدم بیزار لوگ رہتے ہیں۔ دور سے دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ بھرپور کامیابی کے لیے یا بھرپور کامیابی مل جانے پر اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی متمول علاقے میں رہائش اختیار کرنا لازم ہے اور یہ کہ ایسا نہ کرنے سے کامیابی کا حق ادا کرنا ممکن نہ ہوگا!
ایسا نہیں ہے کہ بے حسی صرف اہلِ ثروت میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک بنیادی انسانی وصف ہے اور کسی بھی انسان میں کسی بھی حد تک ہوسکتا ہے۔ جو ماحول ہمیں بے حسی سے نفرت سکھاتا ہے وہی ماحول ہمیں بے حس ہونے پر بھی اُکسا رہا ہوتا ہے۔ معاشرہ تو بے حسی سکھاتا ہی ہے، انسان کو گھر کا ماحول بھی بے حسی اپنانے کی راہ پر لے جاسکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے حسی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ تیس چالیس سال پہلے جن علاقوں میں لوگ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کو زندگی کا بنیادی فریضہ گردانتے تھے اُنہی علاقوں میں وہی لوگ اب ایک دوسرے سے رسمی نوعیت کی دعا سلام سے بھی کترانے لگے ہیں۔ کیوں؟ کسی جواز کے بغیر پیدا ہونے والی بے حسی کے نتیجے میں۔ عمومی فکری ساخت میں یہ تصور کیل کی طرح ٹُھنک گیا ہے کہ جب تک بے حسی نہیں اپنائی جائے گی تب تک اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنا معاشرہ بے حسی کے سمندر میں غرق دکھائی دے رہا ہے۔ ذہنوں میں یہ بات سماگئی ہے کہ کسی سے زیادہ میل جول نہ رکھا جائے، اپنے کام پر توجہ دی جائے اور اپنی کامیابی کے ثمرات میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اپنے کام پر توجہ دینا اچھی بات ہے۔
اپنی کامیابی کے ثمرات سے دوسروں کو مستفید نہ کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں مگر میل جول ترک کرنا یا کم کرنا‘ یہ تو حماقت ہے۔ آپ کی محنت کا نتیجہ آپ کے لیے ہے۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ سے آپ کی محنت کے ثمرات چھینے یا اُن میں حصہ مانگے؟ مفروضوں کی بنیاد پر حکمتِ عملی ترتیب دینا کسی بھی اعتبار سے دانش کا مظہر نہیں۔ ہر انسان کو اپنے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے معقول طریقے سے ہر وہ کوشش کرنی چاہیے جو کامیابی یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہو مگر اِس کے لیے لوگوں سے قطعِ تعلق ناگزیر نہیں۔ انسان کو ملنے ملانے کا سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہیے اور ضرورت محسوس ہونے پر کسی سے اُس کا حال بھی پوچھنا چاہیے اور دلاسا بھی دینا چاہیے۔ بے حسی اور لاتعلقی کو زندگی کے بنیادی شعار کے طور پر اپنانے سے پہلے اِس نکتے پرغور لازم ہے کہ ہمیں مل جل کر رہنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک نہ ہونے سے بیزاری اور بے حسی ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔ بے حسی اپنانے کی صورت میں آپ اُنہیں بھی کھو بیٹھیں گے جو آپ کی کامیابی سے خوش ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved