مانچسٹر میں پروفیسر راج سے ملنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک مینٹور(Mentor) کیا ہوتا ہے۔ کیسے وہ ہمیں اپنے آپ سے روشناس کراتا ہے اور کس طرح ہمارے دلوں میں نئے جہانوں کی تلاش کی اُمنگ جگاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے علاوہ یونیورسٹی آف مانچسٹر کے کتنے ہی طالب علم راج کے دلدادہ تھے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں راج میں ایسی کیا بات تھی کہ اس سے ایک بار ملنے والا اُسی کا ہو کر رہ جاتا تھا۔ شاید یہ اُس کا علم تھا جو دوسروں کو متاثر کرتا۔ ادب‘ معیشت‘ معاشرت‘ تاریخ‘ غرض ہر مضمون پر اُس کی دسترس قابلِ رشک تھی‘ یا شاید یہ اُس کی طبیعت کی عاجزی تھی جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتی تھی ‘یا اُس کی شخصیت کی دل آویزی تھی جو دوسروں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی‘ یا پھر اُس کے اخلاص کی سچائی تھی جو اُسے دوسروں سے ممتاز بناتی تھی۔ کچھ تو تھا کہ یونیورسٹی کے طلبہ اس کے دیوانے تھے۔ میں خود کو اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے راج کے ساتھ وقت گزارنے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ مانچسٹر کے ایک سال کے قیام کے دوران جب میں یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایم اے کر رہا تھا‘ اس عرصے میں کتنی ہی بار مجھے راج کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ کتنی ہی بار یونیورسٹی کے قریب واقع وِٹ ورتھ پارک میں راج کے ہمراہ واک کرتے ہوئے مختلف موضوعات پر میں نے راج کی گفتگو سنی تھی۔ اور اب مانچسٹر میں میرے قیام کا اختتام ہونے جا رہا تھا اور میں راج سے ملنے اس کے گھر جا رہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی راج نے مسکراتے ہوئے میرا استقبال کیا۔ کھانے کی میز پر ہمیشہ کی طرح دال چاول تھے۔ کھانے کے بعد کافی کا کپ لے کر راج اپنی مخصوص کرسی اور میں صوفے پر بیٹھ گیا۔
بلیک کافی کی اپنی ہی مہک ہوتی ہے جو دل و دماغ کو سرشار کر دیتی ہے۔ میں نے گرم کافی کا ایک گھونٹ لیا اور راج سے کہا: یہ زندگی کا سفر بھی کتنا عجیب ہے‘ کیسے اچانک ہماری ملاقات نئے لوگوں سے ہوتی ہے‘ کیسے ہم کچھ دور اُن کے ساتھ چلتے ہیں اور پھر کیسے ایک موڑ پر بچھڑ جاتے ہیں؟ راج غور سے میری بات سُن رہا تھا۔ یہی اس کی شخصیت کی خوبی تھی‘ وہ پوری توجہ سے دوسروں کی بات سنتا۔ یونیورسٹی کے طلبہ اس سے بلا جھجھک اپنے ذاتی مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ آج بھی راج نے پوری توجہ سے میری بات سنی۔ کافی کا گھونٹ لیا‘ سائیڈ ٹیبل پر رکھی پاروتی کی تصویر پر نگاہ ڈالی اور کہنے لگا: ہاں زندگی کا کچھ پتہ نہیں چلتا اور رہی جدائی کی بات تو انسان کا پہلا اور آخری دکھ جدائی کا ہے۔ پہلی جدائی کا تجربہ آدم کی جنت سے بے دخلی کا تھا اور پھر موت ہماری آخری جدائی ہے۔ پھر اچانک راج نے گفتگو کا رُخ موڑ دیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں پاکستان واپس جا کر کیا کروں گا؟ میں نے کہا: یہاں آنے سے پہلے میں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ واپس جا کر اپنی یونیورسٹی کو جوائن کروں گا۔ راج کہنے لگا کہ تم نے یہاں ایک سال گزارا‘ تمہیں پاکستان اور یہاں کے تعلیمی نظام میں کیا فرق لگا؟ میں اس سوال کے لیے تیار نہ تھا۔ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا: پاکستان کے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں تعلیم کا مقصد محض امتحان پاس کرنا ہے اور امتحان پاس کرنے کے لیے سوچ سمجھ کے بجائے اچھی یاداشت کا ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ کا پورا زور طلبہ کو امتحان میں پاس ہونے کی تیاری کرانے پر ہوتا ہے۔ میری بات سُن کر راج نے ہنستے ہوئے کہا:ہاں جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک میں یہی ہو رہا ہے۔
پھر راج کے چہرے پر سنجیدگی آگئی اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا: مجھے خوشی ہے کہ تم تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہو اور مجھے پورا یقین ہے کہ تم اپنے شاگردوں کے دلوں میں نئے جہانوں کی آرزوئیں جگاؤ گے۔ ایک استاد کا بنیادی کام اپنے شاگردوں کو Independent learners بنانا ہے۔ ایک اچھا استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں سے محبت کرتا ہے‘ ان کے خیالات کا احترام کرتا ہے‘ انہیں خود پر اعتماد کرنا سکھاتا ہے اور ان پر نئے امکانات کے دروازے کھولتا ہے۔ میں پوری توجہ سے راج کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا قول اور فعل ایک جیسا ہو۔ لیکن راج جو کہہ رہا تھا‘ ان سب باتوں پر خود بھی عمل کرتا تھا۔ اپنے شاگردوں سے محبت‘ ان کے خیالات کا احترام‘ ان کو خود پر اعتماد کا سبق اور ان کے دل میں نئے آسمانوں میں پرواز کی آرزو جگانا۔ بطور استاد یہ سب خصوصیات راج کی شخصیت کا حصہ تھیں۔
اچانک باہر آسمانی بجلی کی چکا چوند ہوئی اور پھر بادل گرجنے کی آواز آئی۔ راج اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگا۔ باہر اندھیرا تھا اور تیز بارش برسنے کی آواز آ رہی تھی۔ راج کھڑکی کا پردہ برابر کرکے واپس اپنی سیٹ پر آ بیٹھا۔ پھر اچانک جیسے اسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی ہو۔ وہ کہنے لگا: پاکستان اور ہندوستان میں تو مون سون کی بارشوں میں سیلاب آجاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے کچے گھر بارشوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پھر جیسے وہ تصور میں سائوتھ انڈیا میں واقع اپنے بچپن کے گھر پہنچ گیا اور خود کلامی کے انداز میں بولنے لگا: ہمارے گاؤں میں جب بارش آتی تھی تو عجیب سماں ہوتا۔ ہم بچے بارش میں خوب کھیلتے اور ننگے پائوں بھاگتے ہوئے اپنے گھروں سے دور چلے جاتے۔ میری ماں مجھے آوازیں دیتی رہتی ''راج اتنی دور تک مت جانا۔ کہیں گم ہو گئے تو واپسی کا راستہ نہیں ملے گا‘‘۔ پھر جیسے وہ تصور کی دنیا سے واپس آگیا اور کہنے لگا: شاید وہ سچ کہتی تھی‘ اب میں گھر سے اتنی دور آگیا ہوں کہ واپسی کا راستہ یاد نہیں رہا۔ ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ راستہ یاد بھی رہتا تو اب کس کے پاس جاؤں؟ کمرے کی فضا میں یک لخت اداسی چھا گئی۔ میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا: ہاں یاد آیا مجھے جمیلہ کا خط آیا تھا۔ راج نے کہا: ہاں مجھے بھی اس کا خط آیا تھا۔ جمیلہ کے خط کے ذکر سے مجھے اس کی آنکھوں سے جھانکتی اداسی کا خیال آ گیا۔ میں نے پوچھا :راج مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ بظاہر جمیلہ کے پاس دنیا کی ساری آسائشیں ہیں لیکن اس کی آنکھوں سے اداسی کیوں جھلکتی ہے؟ راج نے کافی کا ایک گھونٹ لیا‘ کچھ دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا: یہ زندگی بھی عجیب ہے۔ کہیں ادھوری‘ کہیں بے ترتیب سی۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جس چیزکو جہاں ہونا چاہیے وہاں نہیں ہوتی۔ میں سوچنے لگا کہ اس جملے کا جمیلہ کی اداسی سے کیا تعلق۔ راج نے اپنی بات جاری ر کھتے ہوے کہا: بہت سی زمینیں ایسی ہوتی ہیں جن کی تہوں میں قیمتی خزانے ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ تمام عمر اِن خزانوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ بہت سے خوبصورت منظر ایسے ہوتے ہیں جن کے رنگ کچھ لوگ اپنے دل میں نہیں اُتار سکتے کیونکہ ان کی زندگی کا مقصد صرف مادی فوائد کا حصول ہوتا ہے۔ بہت سی مدھر آوازیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دنیا کے شوروغُل میں گم لوگ اپنی روح تک محسوس نہیں کر سکتے۔ تم ان زمینوں‘ ان منظروں اور ان آوازوں کا دکھ جانتے ہو؟ اچانک جیسے کوئی حقیقت مجھ پر منکشف ہو گئی ہو۔ مجھے جمیلہ کی اداس آنکھوں کا خیال آیا اور مجھے یوں لگا جیسے مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔اب باہر برستی بارش کا شور تیز ہو گیا تھا اور کمرے میں گہری خاموشی کا راج تھا۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved