میڈیا میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے شروع ہونے والی بحث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ریاستی مقتدرہ نئے صوبوں کے قیام کی خاطر مختلف تجاویز بارے عوامی رائے جانچنے کی سکیم پر عمل پیرا ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ البتہ مجوزہ صوبوں کی سیاسی ساخت‘ جغرافیائی ہیئت اور ثقافتی و لسانی شناخت بارے تنازعات اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں کھڑے ہیں۔ ان تنازعات کو کم کرنے کیلئے جس قسم کے صبر‘ استدلال اور تحمل پہ مبنی غیر معمولی مشق کی ضرورت تھی‘ وہ عنقا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید سٹیٹ کرافٹ کے مطابق تمام بڑے ممالک کو مربوط حکمرانی کے مقاصد کیلئے چھوٹی اکائیوں میں منقسم کرکے زیادہ مضبوط و فعال بنایا گیا تاکہ مملکت کی اکائیوں پہ مشتمل صوبوں‘ ریاستوں یا منطقوں کو حسبِ ضرورت انتظامی‘ آئینی‘ قانون سازی اور مالیاتی اختیارات تفویض کرکے فیصلہ سازی کے عمل میں مقامی لوگوں کی شرکت یقینی بنانے‘ مشترکہ وسائل کی تقسیم اور اختیارات کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ شہریوں کی تلویث کے اسباب مہیا ہو سکیں۔ ہمارے پڑوس میں ہندوستان جیسی لسانی‘مذہبی اور سیاسی طور پہ متنوع ریاست کو منظم و متوازن رکھنے کی خاطر 28ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام آٹھ علاقوں پہ مشتمل متنوع یونٹس بنائے گئے۔آزادی کے وقت ہندوستانی ریاستوں کی تعداد صرف نو تھی‘تاہم ریاستوں کی تنظیمِ نو کی اساس سیاسی و تاریخی تحفظات کی بنیاد پر رکھی گئی۔ ابتدا میں ریاستوں کی یہ تنظیم ِنو عارضی بنیادوں پر کی گئی۔ 1953ء میں تشکیل پانے والے ریاستی تنظیمِ نو کمیشن نے دو سالوں کی مساعی کے بعد مملکت کو 16ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام تین علاقوں میں ری آرگنائز کرنے کیلئے 1955ء میں پہلی رپورٹ دی۔حکومت نے نومبر 1956ء میں تنظیم نو ایکٹ منظور کرکے ملک کو 14 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام چھ علاقوں میں تقسیم کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔موجودہ سیاق و سباق میں 24کروڑ آبادی کی حامل پاکستانی مملکت کو متوازن انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے میں تاخیر ناانصافی ہو گی‘ جس کا نہ صرف وقت آن پہنچا ہے بلکہ وقت گزر چکا ہے‘ لیکن یہ کہ ہمارے قومی اتحاد کے مفاد میں مسئلہ زیر بحث لانے کیلئے متوازن اپروچ ضروری ہے۔
ہندوستان میں پہلے مرحلہ میں انگریز دور کی 555 شاہی ریاستوں کو بھارتی وفاق میں ضم کرنے کی خاطر انتظامی یونٹس کی چار قسمیں پیدا کی گئیں اور ماضی قریب (1947ء) میں پنجاب کی تقسیم کے ردِعمل میں بھڑکنے والے سکھ‘ مسلم فسادات کے پیشِ نظر 1953ء میں عوام کی لسانی و ثقافتی شناخت کے فطری تقاضوں کے پیشِ نظر مشرقی پنجاب کو لسانی رنگوں کے مطابق تقسیم کرنے کی ٹھانی گئی‘بالآخر ریاستی تنظیم نو کمیشن کی سفارشات کی بڑے پیمانے پر قبولیت کے بعد ہندوستان کی مرکزی حکومت نے 1956ء میں پہلے پنجاب سے ہریانہ اور چندی گڑھ کو الگ کرکے اسے تین صوبوں میں تقسیم کیا‘ بعد ازاں 1966ء میں ہماچل پردیش کو پنجاب سے جدا کر کے اسے متوازن بنا لیا۔ اس سے قبل ریاست آندھرا پردیش کی تشکیل بھی لسانی خطوط پر ہوئی تھی۔ اس کے بعد 1970ء کی دہائی میں وہاں زبان اور نسل کی مخلوط بنیادوں پر میزورم‘ تریپورہ‘ میگھالیہ‘ ناگالینڈ‘ اروناچل پردیش‘ منی پور‘ سکم اور گوا جیسی نہایت چھوٹی ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے استوار ہوتے نظر آئے۔ اروناچل پردیش کے سوا متذکرہ بالا تمام یونٹس کا کل رقبہ 90ہزار مربع کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ 2000ء کی دہائی میں اترا کھنڈ‘ چھتیس گڑھ اور جھاڑکھنڈ کو ایک ہی زبان والی تین بڑی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا‘ ریاست تلنگانہ 2013ء میں بنی۔ اس وقت بھارت میں اتنی چھوٹی ریاستیں بھی ہیں جہاں سے صرف ایک ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتا ہے اور یو پی جیسی میگا سٹیٹ بھی موجود ہے جہاں سے 80اراکینِ پارلیمنٹ اور مہاراشٹرا سے 48اراکینِ پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں۔تنظیم نو کے پورے عمل نے اُتر پردیش (UP)کو نظرانداز کر دیا‘ لیکن اب سیاسی مفکرین مستقبل کے تناظر میں خصوصاً یوپی کی تنظیمِ نو کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ یوپی نہ صرف ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کی سب سے بڑی ذیلی قومی اکائی ہے۔ یو پی کا رقبہ 2,40,928 مربع کلومیٹر ہے جو 2000ء میں نئی ریاست اتراکھنڈ کے بننے سے پہلے 2,95,000 مربع کلومیٹر تھا۔ یہ ریاست 24کروڑ سے زیادہ آبادی کیساتھ بھارت کی آبادی کا تقریباً 17فیصد ہے اور اسکا رقبہ بھارت کے مجموعی رقبے کا 7.3فیصد ہے۔ سیاسی طور پر اسکے لوک سبھا میں 80 اور ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) میں 31نمائندگان ہیں۔ اسی کارن یو پی اقتصادی اور صنعتی طور پر پسماندہ ریاست ہے۔بھارتی ریاستی تنظیمِ نو کمیشن کی رپورٹ سے قطع نظر ہمارے مسائل لسانی‘ نسلی اور ثقافتی اعتبار سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ معاشی خوشحالی اور مجموعی ترقی‘ ثقافتی‘ لسانی‘ سماجی شناخت‘ جوابدہ انتظامی ڈھانچہ‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم‘ لوگوں کی مرضی کی حکمرانی کے علاوہ خطے کے لوگوں کی نمائندگی آج سائنسی تنظیمِ نو کی متقاضی ہے۔ ہمارے ہاں صوبہ پنجاب کی تنظیم نو کا معاملہ ہمیشہ محلِ نظر رہا‘ تاہم اکثر قومی سلامتی اور بسا اوقات دفاعی تقاضوں کو جواز بنا کر اس اہم مسئلہ کو التوا میں رکھا گیا‘ لیکن امرِ واقعہ یہی تھا کہ پچھلی پون صدی کے دوران ہماری مملکت بارے بنیادی فیصلے لینے کی راہ میں امریکی اور برطانوی مفادات حائل رہے لیکن 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جنوبی ایشیا پہ عالمی قوتوں کی گرفت کمزور ہونے سے ہمیں اپنی بقا کے تقاضوں کے مطابق قومی پالیسی بنانے کا موقع مل گیا؛ چنانچہ عین ممکن ہے کہ اب ریاست کی تنظیمِ نو کا عمل کسی نہ کسی صورت ظہور پذیر ہو جائے۔
شنید ہے کہ مقتدرہ تاریخی پس منظر کے حامل ان پرانے انتظامی یونٹس میں تھوڑی بہت کمی بیشی کیساتھ سائنسی بنیادوں پہ تنظیم نو کا سوچ رہی ہے‘ جن میں ریاست بہاولپور‘ نئی شناخت کا حامل صوبہ ملتان‘ وسطی پنجاب‘ شمال مغربی پنجاب کے ضلع جھنگ‘سرگودھا‘ میانوالی بھکر‘ لیہ اور ڈیرہ اسماعیل خان پہ مشتمل صوبہ اور خطہ ٔپوٹھوہار کو ہزارہ ڈویژن سے جوڑ کے نیا پوٹھوہار صوبہ بنانے کی تجویز زیر غور ہے۔اسی طرح خیبر پختونخوا کی تاریخی اہمیت کی حامل ریاست چترال‘ہنزہ ‘ناگرہ‘دیر ‘ سوات‘ پھولارا اور امب شریف کی نئی جغرافیائی تشکیل کے علاوہ ہشت نگر یعنی وادیٔ پشاور‘جس میں شامل چارسدہ‘ مردان‘ صوابی‘نوشہرہ اور اس سے ملحقہ قبائلی اضلاع پہ مشتمل وسطی صوبہ۔ اسی طرح کوہاٹ سے لیکر بنوں‘ لکی مروت اور ملحقہ قبائلی اضلاع پہ مشتمل جنوبی صوبہ بنانے کا سوچا جا رہا ہے۔رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کے دو الگ ثقافتی منطقے ہیں جن میں ایک طرف بلوچ اور دوسری جانب ایسے پشتون قبائل آباد ہیں جو قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا کے علاوہ جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے ساتھ متحد ہونے کی جدوجہد میں سرگرداں ہیں۔ اس نسلی‘ لسانی اور جغرافیائی تنوع کے باوجود سیاسی مفکرین بلوچستان کے شہریوں کی سیاسی آزادیوں اور سماجی ترقی کو چھوٹے انتظامی یونٹس کی تشکیل پہ منحصر دیکھتے ہیں‘ یعنی ایسے چھوٹے انتظامی یونٹس جہاں اچھی حکمرانی‘ معیاری ترسیل کا نظام اور مجموعی ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مقامی آبادی کی شمولیت ممکن ہو سکے۔ تقسیم سے قبل بلوچستان‘شاہی ریاست قلات‘ خاران‘ مکران اور لسبیلہ پہ مشتمل تھا‘ تھوڑی سی ردو بدل کے ساتھ ان پرانے انتظامی ‘ثقافتی اور لسانی یونٹس کی بحالی وسیع رقبہ پہ محیط علاقوں پہ انتظامی کنٹرول کو مؤثر اور بلوچستان میں ترقی کے عمل کو مہمیز دے سکتی ہے‘بلوچوں کو سراوان اور جھلاوان کی تاریخی شناخت بھی مل سکتی ہے۔اسی طرح سندھ کی پرانی ریاست خیر پور کی سائنسی بنیادوں پہ تشکیل ِنو کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد پہ مشتمل ایک الگ انتظامی یونٹس کا قیام وقت کا تقاضا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved