تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     07-12-2023

پابہ زنجیر پولیس

گزشتہ ہفتے ایک نوجوان افسر کے دائرۂ اختیار میں تین مجرم پکڑے گئے جن کے خلاف ٹھوس الزامات تھے۔تاہم سیاسی دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ حکام بالا کی طرف سے انہیں چھوڑ نے کا حکم ملا اور وہ چھوڑ دیے گئے!!
یہ ہے اصل حقیقت ہمارے بڑے بڑے دعووں کی! قیمتی کوٹ اور پتلون کے نیچے ہم نے چیتھڑے پہنے ہوئے ہیں اور دھجیاں لپیٹی ہو ئی ہیں!غلام عباس نے اپنا مشہور افسانہ '' اوور کوٹ‘‘ شاید ہماری اصلیت کے بارے میں ہی لکھا تھا۔ جھنڈا اپنا ہم نے وائٹ ہاؤس پر بھی لہرانا ہے اور لال قلعے پر بھی! آزادی ہم نے کشمیر کے علاوہ فلسطین اور چیچنیا کو بھی دلوانی ہے! جنگجو ہم نے ساری دنیا سے سمیٹ کر اپنے گھر میں ڈال لیے! کہلواتے ہم اسلام کا قلعہ ہیں! مگر اصلیت ہماری اتنی مکروہ ہے کہ کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی! پولیس زنجیروں سے بندھی ہے۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحتوں کی تعیناتیوں اور تبادلوں کے معاملات میں بے بس ہیں! جو مدافعت کرتا ہے اسے منظر ہی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ کیا پورے ملک میں ایک کچہری بھی ایسی ہے جہاں دہانوں میں ہڈیاں ڈالے بغیر کام ہو سکے؟ کل ہی ایک دوست بتا رہے تھے کہ ان کی زرعی زمین کی گرداوری کے لیے چار لاکھ کا نذرانہ مانگا گیا ہے! پٹواری‘ نائب تحصیلدار‘ تحصیلدار‘ اے سی‘ ڈی سی‘ سب کی دیہاڑیاں لگی ہیں! گاؤں میں زمین کی نشاندہی کرانی ہو تو تحصیل سے اہلکار آتے ہیں اور ان اہلکاروں کو منگوانا آسمان سے چاند اتارنے سے کم نہیں! قیامت یہ ہے کہ شہر کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ گاؤں کے لوگ کس طرح تحصیلوں میں ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں۔ پِس رہے ہیں۔ مسجدوں میں نمازیوں کے ہجوم دیکھیں تو لگتا ہے اس ملک کا ہر باشندہ ولی ہے۔ یوٹیوب پر مذہب کا قبضہ ہے! لاکھوں پاکستانی ہر سال عمروں اور حج سے سرفراز ہوتے ہیں! رمضان کے آخری عشرے میں آدھا ملک حجاز منتقل ہو جا تا ہے! گھروں سے جائے نمازیں اور تسبیحیں اکٹھی کی جائیں تو ڈھیر آسمان تک جا پہنچے گا! مگر مجال ہے کہ مذہب اس سے آگے جا سکے! مذہب پر شدید پابندی ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ سے باہر نہ نکلے! دفتر‘ بازار‘ کارخانے‘ کھیت‘ وزارت‘ تھانے اور کچہری میں مذہب کا داخلہ ممنوع ہے۔ مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔ رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا! اسلام گلے سے اوپر اوپر ہے۔ دل غلاظت کی آماجگاہ ہیں!! بھارت کے دورافتادہ مقامات میں اسلام قبول کرنے کے لیے گائے کا گوشت کھانا کافی ہے۔بالکل اسی طرح ہمارے لیے مسلمانی کی شان اتنی ہی ہے کہ گھروں میں غیر مسلموں کے لیے کھانے کے برتن الگ کر لیں! ہاں جب یورپ اور امریکہ جائیں تو انہی غیر مسلموں کے ہاتھوں کا پکا ہوا‘ انہی کے ہاتھوں سے ٹیبل پر لایا اور لگایا ہوا‘ کھانا‘ مہنگا زرِ مبادلہ خرچ کر کے فخر کے ساتھ تناول فرمائیں!
اگر پولیس کے کام میں سیاستدانوں نے مداخلت کرنی ہی کرنی ہے اور اگر اس مداخلت کا خاتمہ دور دور تک نہیں نظر آتا‘ تو پھر پولیس فورس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ مجرم کو اندر رکھنے یا چھو ڑنے کا فیصلہ وزیر یا میئر ہی نے کرنا ہے اور اگر تھانیدار یا ایس پی بے بس اور مجبور ہے تو سیاستدان پولیس کا کام خود کیوں نہیں سنبھال لیتے! عوام کے خون سے نچوڑے ہوئے کروڑوں اربوں روپے پولیس پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تھانوں میں مقامی کھڑ پینچوں کو بٹھائیں! ہر ضلع کے بااثر ترین سیاستدان کو ایس پی مقرر کریں۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ کسی خوش اخلاق‘ سوشل اور ہنس مکھ وزیر کو آئی جی کے منصب پر بٹھائے جو سفارشیں مانے۔ ستے خیراں ہوں گی! درمیان سے پولیس کا ٹنٹا ہی ختم ہو جائے گا۔ ضرورت کیا ہے لمبا راستہ چلنے کی؟ پہلے مقامی سیاستدان وزیر یا وزیر اعلیٰ سے بات کرے۔ وزیر اعلیٰ آئی جی سے بات کرے۔ آئی جی ایس پی کو حکم دے کہ مجرم کو رہا کردو کیونکہ اوپر سے حکم آیا ہے! اس پیچ در پیچ طریق کار کے بجائے درمیان سے ایس پی اور آئی جی ہی کو Deleteکر دیجیے! ہاں ایک کام ہے جس کے لیے پولیس کا باقی رکھا جانا ضروری ہو گا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے محلات پر پہرا دینے کے لیے!!
ایک بار ایک پولیس افسر نے میرے سامنے اس حسرت کا اظہار کیا (اور اس میں کوئی افسانہ نگاری نہیں! سو فیصد سچ ہے ) کہ کاش وہ اس ملک میں افسر ہونے کے بجائے ایک ایسے ملک میں پولیس کا معمولی سپاہی ہوتا جہاں سپاہی کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ جہاں کوئی وزیر‘ کوئی چیف منسٹر‘ کوئی وزیر اعظم‘ کوئی سپیکر‘ کوئی چیئرمین‘ پولیس کو غلط کام کہنے کی جرأت نہیں کرتا! یہ حسرت‘ یہ خواہش‘ ہم سب کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ میں نے اسے کہا کہ ہر شخص میرٹ کا متلاشی ہے مگر کون کون یہاں سے جائے گا ؟ پچیس کروڑ تو نہیں جا سکتے۔ اس نے جواب دیا کہ جو جا سکتے ہیں‘ وہ تو جائیں! اور یہی ہو رہا ہے! برین ڈرین (Brain drain) بد ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جبکہ بھارت میں لوگ بیرون ملک سے واپس آرہے ہیں!
انفرا سٹرکچر پر بہت بات ہوتی ہے کہ انفراسٹرکچر ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔شاہراہیں‘ پُل‘ ہوائی اڈے‘ ذرائع رسل رسائل‘ ذرائع آمدورفت!! مگر جس معاشرے میں مجرم چھوٹ جائیں‘ پولیس پا بہ زنجیر ہو‘ رشوت سرنگیں بنا چکی ہو‘ سیاستدان سفارش کو اپنا پیدائشی حق گردانیں‘ اس ملک میں انفرا سٹرکچر بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اندھے کو بھی معلوم ہے کہ رشوت‘کِک بیک‘ اور '' کمیشن‘‘ جہاں ہو گا وہاں پُل خطرناک‘ شاہراہیں ناقص اور ہوائی اڈے عیب دار ہوں گے! اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ دیکھ لیجیے۔ دس سال میں سسک سسک کر‘ رینگ رینگ کر‘ بنا‘ وہ بھی کتنے ہی مسائل کے ساتھ! سنگا پور‘ کوالا لمپور‘ بنکاک‘ دبئی‘ ابو ظہبی کے ایئر پورٹوں کے مقابلے میں بسوں کا اڈہ لگتا ہے!! اس لیے کہ ایسے تمام منصوبوں میں شفافیت نہیں ہوتی! خدا کے بندو! اصل انفرا سٹرکچر قانون کی حکمرانی ہے! اصل انفرا سٹرکچر پولیس کی خوداعتمادی ہے۔اصل انفرا سٹرکچر وہ سلوک ہے جو چین میں کِک بیک لینے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے!ورنہ ہر چیز ناقص ہو گی۔ پُل گر جائیں گے! شاہراہیں ہمیشہ مرمت ہوتی رہیں گی۔ یہی یہاں ہو رہا ہے! پچاس سال سے جی ٹی روڈ ایک مثالی شاہراہ نہیں بن سکی! کچھ عرصہ پہلے پنڈی بھٹیاں سے چنیوٹ جانا ہوا۔ گاڑی کا اور اپنا بھی انجر پنجر ہِل گیا۔ فتح جنگ سے کھوڑ یا پنڈی گھیب جائیں تو رونا آتا ہے۔ رشوت دیمک ہے۔ سفارش کینسر ہے! بیورو کریسی کے کام میں سیاسی مداخلت ناسور ہے۔ کون سی عمارت ہے جو دیمک کے ساتھ سلامت رہ سکتی ہے! کون بہادر ہے جو کینسر اور ناسور کے ساتھ زندہ رہ جائے؟ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ملک کو نیچے‘ نیچے‘ اور نیچے جاتا دیکھ رہے ہیں اور فکر ہے نہ تشویش!! ہزار الیکشن کراتے رہیے! سول سپری میسی کے نعرے لگاتے رہیے! جب تک تھانوں اور کچہریوں میں رشوت‘ سفارش اور سیاسی دباؤ موجود ہے‘ ملک ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے گا!!
بیورو کریسی کے اوپر جو سیاستدان بیٹھے ہیں اور حکمرانی کرتے ہیں ان کا مائنڈ سیٹ کیا ہے ؟ ان میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ کتنے ہیں؟ جو ہر نئی ششماہی پر پارٹیاں بدل لیں‘ ان کا Visionکیا ہو گا ؟ ان کے نزدیک تو بیورو کریسی کا ایک ہی استعمال ہے کہ جو سفارشی چِٹ وہ جیب سے نکال کر بیوروکریٹ کو دیں‘ وہ اس پرعمل کرے یا کروائے! اس چٹ پر مجرم کا نام ہوتا ہے جسے رہا کرنا چاہیے یا کسی نالائق کا نام ہوتا ہے جسے دوسروں کا حق مار کر ملازمت دی جائے! اس سے آگے یہ لوگ سوچ ہی نہیں سکتے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved