حضرت خواجہ ابو محمد شرف الدین مصلح بن عبداللہ سعدی شیرازی ساتویں صدی ہجری کے عظیم قادر الکلام شاعر و ادیب گزرے ہیں۔ ''دائرۂ معارفِ اسلامیہ‘‘ میں ان کا نام ''مشرف الدین بن مصلح الدین‘‘ لکھا ہے۔ کریما‘ بوستان (سعدی نامہ) اور گلستان آپ کی شہرہ آفاق تصانیف میں سے ہیں، جنہیں فارسی ادب کی شاہکار اور اثر انگیز کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فصاحت و سلاست، صوتی آہنگ، سجع بندی اور سحر انگیز تاثرات کے حسین امتزاج کے سبب قدرت نے ان کے کلام کو اثر آفرینی کی نعمت سے نوازا ہے، حتیٰ کہ ہر مصرع ذہن میں آتے ہی دل کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے، مثلاً: ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: ''بادشاہ نے تھیلی لے کر دریچے سے سر باہر نکالا اور درویش سے کہا: ''دامن بدار‘‘ (دامن پھیلائو)، اس نے کہا: ''دامن ازکُجا آرم کہ جامہ ندارم‘‘ (دامن کہاں سے لائوں کہ تَن پر جامہ ہی نہیں)۔
دراصل یہ کتاب حکمت آموز اور سبق آموز تعلیمات پر مشتمل ہے۔ حضرت سعدی شیرازی نے چھوٹی چھوٹی سبق آموز حکایات اور واقعات درج کر کے حکیمانہ انداز میں دانش و حکمت کی باتوں کو لوگوں کے ذہنوں میں اتارا ہے اور یہ فارسی کے کلاسیکل لٹریچر کا حصہ ہیں۔ عالمی سطح پر متعدد زبانوں انگلش، فرنچ، جرمن، ڈچ، لاطینی اور ترکی وغیرہ میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں اور یورپ کی لائبریریوں میں دستیاب ہیں۔ گویا شیخ سعدی کو عالمی سطح پر معلمِ اخلاق، حکیم اور مُصلح کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
''بوستان‘‘ مکمل منظوم صورت میں ہے، اس میں اخلاقیات، تعلیم، سیاست اور معاشرت وغیرہ عنوانات کے تحت تقریباً چار ہزار اشعار ذکر کیے گئے ہیں، جبکہ ''گلستان‘‘ نظم اور نثر‘ دونوں پر مشتمل ہے، اس میں آٹھ ابواب ہیں، ان میں بادشاہوں کا کردار، درویشوں کے اخلاق، قناعت کی خوبی، خاموشی کے فوائد، محبت اور جوانی، کمزوری اور بڑھاپا وغیرہ موضوعات کی بابت شیخ سعدی نے اپنے عظیم اور اثر انگیز پیغامات کو نظم و نثر اور حکایات کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ''گلستانِ سعدی‘‘ سے چند دلچسپ حکایات و نصائح پیش خدمت ہیں:
(1) مشہور ایرانی بادشاہ نوشیرواں کی انصاف پسندی اور عدل پروری کی حکمت عملی کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''ایک شکار گاہ میں سپاہی نوشیرواں کے لیے کباب بنا رہے تھے، نمک نہ تھا، اُنہوں نے نمک لانے کے لیے غلام کو گائوں کی طرف بھیجا، نوشیرواں نے کہا: قیمت ادا کر کے نمک لانا تاکہ بدنظمی پیدا نہ ہو، کسی نے کہا: چٹکی بھر نمک سے کیا خرابی ہو سکتی ہے،کہا:
اگر ز باغِ رعیت، مَلِک خورد، سیبے
بر اورند غلامانِ اُو، درخت از بیخ
بہ نیم کہ سلطان ستم روا دارد
زنند لشکر یانش، ہزار مرغ بہ سیخ
ترجمہ: ''اگر بادشاہ رعیت کے باغ سے ایک سیب توڑ لے تو اُس کے ملازم درخت کو جڑ سے نکال لیں گے اور اگر وہ آدھا انڈا مفت کھا لے تو اس کے سپاہی ہزار مرغیوں کوذبح کر کے سیخ پر چڑھا کر کباب بنادیں گے‘‘۔ یعنی حکمران طبقہ اپنی رعایا کے لیے رول ماڈل، آئیڈیل اور عملی مثال ہوتا ہے، پس اگر وہی دیانت و امانت کا خون کرے تو ا س کی بددیانتی اور خیانت صرف اُسی تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اُس کے تمام عُمّال اور کارندوں کی سرشت میں داخل ہو کر رائج الوقت قانون کا درجہ حاصل کر لیتی ہے، پھر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار قسم کے کارندے بے ایمانی اور اخلاق بافتگی کے وہ کرتوت دکھاتے ہیں اور چھینا جھپٹی کی ایسی داستانیں رقم کرتے ہیں جو خود شاہ کی داستانوں کو بھی مات دے جاتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ برائی اوپر سے نیچے کی طرف سرایت کرتی ہے اور جب بادشاہ یا حاکم اپنے ماتحت عُمّال کو کسی ظلم و زیادتی کے لیے استعمال کرتا ہے، تو پھر اُن کے لیے بھی لوٹ مار کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ کہاجاتا ہے: مچھلی سر سے گلنے سڑنے لگتی ہے اور بادشاہ یا حاکم کی حیثیت سَماج میں سر کی سی ہے۔ پس سبق یہ ہے کہ کسی برائی کو غیر اہم اور معمولی نہیں سمجھنا چاہیے، یہی چھوٹی برائیاں بڑی برائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں اور بڑے بگاڑ‘ جو معاشرے کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، چھوٹے بگاڑ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ''گناہوں کو معمولی سمجھنے سے بچو، گناہوں کو حقیر سمجھنے والوں کی مثال ان لوگوں کی ہے، جو کسی وادی کے دامن میں اُترے، ہر شخص نے ایک ایک لکڑی جمع کی حتیٰ کہ اتنی لکڑیاں اکٹھی ہو گئیں جن سے اُنہوں نے اپنی روٹیاں پکائیں اور گناہوں کو حقیر سمجھنے والی باتیں کبھی اپنے کرنے والے ہی کو پکڑ لیتی ہیں اور اسے ہلاک کر دیتی ہیں‘‘ (مسند احمد: 22808)۔
(2) شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''حاکموں کے لیے عدل و انصاف قائم کرنے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہے، جبکہ ظالم کے لیے سوئے رہنا بہترین عبادت ہے، چنانچہ کسی ظالم بادشاہ نے ایک صاحبِ نظر سے پوچھا: کون سی عبادت سب سے اچھی ہے، اُس نے کہا: تمہارے لیے دوپہر کو سونا افضل ہے تا کہ خلقِ خدا تمہاری اذیت و آزار سے کچھ دیر کے لیے تو محفوظ رہے:
ظالمے را خفتہ دیدم، نیم روز
گفتم ایں فتنہ است، خوابش بردہ بہ
وآنکہ خوابش بہتر از بیداری است
آں چناں بد زندگانی مردہ بہ
ترجمہ: ''ایک ظالم کو میں نے دوپہر کے وقت سویا دیکھا اور کہا: یہ فتنہ ہے، سویا رہے تو بہتر ہے، جس شخص کی نیند بیداری سے اچھی ہو، ایسا بدگو مر جائے تو بہتر ہے‘‘۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو آپﷺ نے فرمایا: یہ مُسْتَرِیْح یا مُسْتَرَاحْ ہے، یعنی اسے آرام مل گیا ہے، یا اس سے (لوگوں کو) آرام مل گیا ہے، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اس کا کیا مطلب ہے، فرمایا: مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے آرام پاتا ہے، لہٰذاوہ مُسْتَرِیْح ہے اور فاجر کے مرنے سے اللہ کے بندے، شہر، درخت اور حیوانات آرام پاتے ہیں، پس وہ مُسْتَرَاحْ ہیں‘‘ (صحیح بخاری: 6512)۔
(3) کسب و عمل اور توکل کی حقیقت کی بابت لکھتے ہیں: ''ایک درویش نے جنگل میں ایک اپاہج لومڑی دیکھی جو بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنی ایک جھاڑی کے پاس پڑی تھی، درویش سوچنے لگا کہ یہ بیچاری اپنا پیٹ کس طرح بھرتی ہو گی، اِسی اثنا میں وہاں ایک شیر گیدڑ کو منہ میں دبائے آ گیا، شیر گیدڑ کو کھا کر چلا گیا اور باقی ماندہ سے لومڑی نے پیٹ بھر لیا، درویش نے اِسے اتفاق سمجھا لیکن جب اگلے روز بھی یہی ماجرا پیش آیا تو اُسے یقین ہو گیا کہ اس معذور لومڑی کو رزق پہنچانے کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یہ منظر دیکھ کر اُس نے کسبِ رزق کا دھندا چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور گوشہ مسجد میں جا بیٹھا، ایک دو روز بعد جب اُسے بھوک ستانے لگی اور گھبراہٹ پیدا ہوئی تو محراب سے یہ آواز اس کے کانوں میں آئی: ''اے کم ہمت درویش! تو یہاں لنجی لومڑی بنا اس آسرے بیٹھا ہے کہ خَلقت تیری امداد کو آئے، تجھے توشیرِ نَر بننا چاہیے کہ خود محنت کرکے اپنی خوراک کا بھی انتظام کرے اور بے سہاروں کا بھی آسرا بنے، جا! شیرِ نَر کی طرح شکار کر:
بہ چنگ آر و با دیگران نوش کن
نہ بر فُضلۂ دیگران گوش کن
ترجمہ: ''شکار مار کر خود بھی کھائو اوردوسروں کو بھی کھلائو، دوسروں کے پس خوردہ پر نظر مت رکھو‘‘، یعنی اگرچہ رزق کا ذمہ رزاقِ حقیقی نے لے رکھا ہے اور بعض اوقات اعضا و جوارح کی حرکت اور کسی کسب و عمل کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ رزق پہنچاتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان توکل کے نام پر حصولِ معاش کے لیے معقول اور مناسب طریقے پر جِدوجُہد اور حرکت و عمل کو ترک کر دے اور اپاہج بن کر پڑا رہے، اعضا کی سلامتی اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے اور ان سے کام نہ لینا سخت ناشکری ہے، پس جو حصولِ رزق کی استعداد اور وسائل سے محروم نہ ہو، اُسے خود کوشش کرنی چاہیے، اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ کفرانِ نعمت ہے۔
(4) شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''حاجیوں کا ایک قافلہ دشتِ حجاز میں جا رہا تھا کہ کسی بات پر باہم اُلجھ پڑے اور ایک دوسرے کے سر و بازو توڑ ڈالے، ایک شتر سوار یہ منظر دیکھ رہا تھا، کہنے لگا: ''یَا لَلْعَجَب! پیادہ عاج عرصہ شطرنج را بسر ببرد فرزین می شود یعنی بہ ازاں میشود کہ بود و پیادگان حاج بادیہ را بسر بردند وبترشدند‘‘، یعنی عجیب بات ہے! ہاتھی دانت کا پیادہ جب شطرنج کی بساط کو طے کر لیتا ہے تو وزیر بن جاتا ہے، یعنی اس کی حالت پہلے سے بہتر ہو جاتی ہے اور پیدل حج کرنے والوں نے جنگل کا راستہ طے کیا اور پہلے سے بدتر ہو گئے۔
پس فریضہ حج مکارم اخلاق کی تربیت، تزکیہ باطن اور نفسانی خواہشات کو لگام دینے کی مشق ہے۔ قرآنِ کریم میں خصوصیت کے ساتھ حجاج کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ حج میں نہ شہوانی کام کرنے ہیں، نہ گناہ کے کام اور لڑائی جھگڑے کرنے ہیں، اگر صرف مشقت اور تکلیف برداشت کرکے بیت اللہ پہنچنے کا نام حج ہے تو حاجی کا اُونٹ حاجی کہلانے کا زیادہ حق دار ہے کہ وہ بیچارہ کانٹے کھا کر بھی دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور مشقت برداشت کرتا ہے۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں:
از من بگوی حاجیے مردم گزائے را
کوپوستینِ خلق بآزار می درد
حاجی تو نیستی شتر ست از برائے آنکہ
بیچارہ خار می خورد وبار می برد
ترجمہ: ''بد اخلاق اور لوگوں کو ستانے والے حاجی کو، جو لوگوں کے لباس تار تار کرتا ہے، کہہ دو: ''تُو حاجی نہیں، بلکہ تیرا اُونٹ حاجی ہے، کیونکہ وہ بیچارہ کانٹے کھاتا ہے اور بوجھ اُٹھاتا ہے ‘‘۔
(5) شیخ سعدی فرماتے ہیں: ''صبر و قناعت اختیار کرنے کے بجائے لوگوں کے سامنے اپنی مفلسی اور ضروریات کا رونا رونا اور دستِ سوال دراز کرنا، اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کرنا اور اپنی قدر و منزلت کو خاک میں ملانا ہے، چنانچہ ایک درویش عیال دار تھا اور آمدنی کم تھی، اُس نے اپنے ایک دولت مند معتقد سے اپنی مفلسی کا حال بیان کیا، تو اُس نے وظیفہ تو بڑھا دیا لیکن خود جانا چھوڑ دیا، سُنا ہے: اس کے بعد درویش عموماً کہا کرتا تھا:
نانم افزود و آبرویم کاست
بے نوائی بہ از مذلت خواست
ترجمہ: ''میری روزی تو بڑھ گئی ہے، لیکن آبرو گھٹ گئی ہے، بات یہ ہے کہ سوال کی ذلت سے بے نوائی اچھی ہے‘‘۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved