میرے ایک دوست پوچھنے لگے کہ دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی مقام پر جنگ چل رہی ہوتی ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ اب جنگیں بھی ایک صنعت بن چکی ہیں‘ اگر دنیا میں مکمل امن ہو گیا تو کئی ممالک کی معیشتیں بیٹھ جائیں گی۔ میرے اس جواب پر قدرے تعجب سے انہوں نے پوچھا کہ ان جنگوں سے سب سے زیادہ معاشی فائدہ کسے ہوتا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ دنیا کی اسلحہ اور گولہ بارود فروخت کرنے والی 100 بڑی کمپنیوں میں سے 42 امریکہ میں قائم ہیں۔ اب آپ خود حساب لگا لیں کہ جنگوں کا سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوتا ہے۔اسلحہ اور گولہ بارود بنانے والی دنیا بھر کی کمپنیوں کے آرڈرز میں فروری 2022ء میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے خاصا اضافہ ہوا ہے۔ البتہ ان کمپنیوں کی ریونیو میں زیادہ بڑا اضافہ نہیں دیکھا گیا کیونکہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد گولہ بارود اور اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کو کام کیلئے ہنرمند افراد، تیاری کے دوران لاگت میں اضافے اور درکار خام مال کی بروقت فراہمی نہ ہونے سے کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا بھر کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے 2022ء میں 597 ارب ڈالر کا اسلحہ اور ایمونیشن فروخت کیا جو 2021ء کے مقابلے میں 3.5 فیصد کم ہے۔ کئی کمپنیوں کو اس جنگی صورتحال میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
امریکہ کی 42 اسلحہ ساز کمپنیوں نے دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا 51 فیصد ریونیو اپنے نام کیا؛ تاہم ان کمپنیوں کے ریونیو میں بھی 7.9 فیصد کمی آئی۔ امریکہ کی کمپنیوں نے مجموعی طور پر 302 ارب ڈالرز کا اسلحہ دنیا بھر میں فروخت کیا۔ ان کمپنیوں میں سے 32 کے ریونیو میں ہر سال متواتر کمی آ رہی ہے جس کی وجہ سپلائی چین کے مسائل اور ہنر مند افراد کی کمی ہے جو کورونا کی عالمی وبا کے بعد سے امریکہ سمیت دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔یوکرین جنگ کے حوالے سے اب نئے آرڈر بھی دیے جا رہے ہیں مگر اس وقت سابقہ آرڈرز کے تعطل اور پیداوار بڑھانے میں مشکلات کی وجہ سے نئے آرڈرز کے ریونیو سے متعلق کمپنیوں کی رپورٹس دو‘ تین برس بعد سامنے آئیں گی۔ البتہ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی کمپنیوں کے ریونیو میں 2022ء میں کافی اضافہ دیکھا گیا۔ان کمپنیوں نے ثابت کیا کہ وہ کم دورانیے میں بھی زیادہ پیداوار کی صلاحیت کی حامل ہیں۔ معروف تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب 2018-2022 میں دنیا بھر میں ہتھیاروں کا دوسرا سب سے بڑا خریدار رہا۔2022ء میں سعودی عرب نے اسلحہ بنیادی طور پر تین ممالک امریکہ (78 فیصد)، فرانس (6.4 فیصد) اور سپین (4.9 فیصد) سے خریدا۔ قطر پچھلے پانچ سال میں ہتھیاروں کے عالمی سطح پر تیسرے سب سے بڑے خریدار کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ 2022ء میں قطر نے امریکہ (42 فیصد)، فرانس (29 فیصد) اور اٹلی (14 فیصد) سے جنگی ساز و سامان درآمد کیا۔ مصر اسلحہ درآمد کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ اس سے قبل یہ تیسرے نمبر پر تھا؛ تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں اس کی مجموعی درآمدات میں 5.3 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2018-2022ء کے دوران مصر کو روس سے اسلحے کی برآمدات میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے یہ روسی دفاعی سامان کا تیسرا سب سے بڑا خریدار بن گیا۔ مصر کے بڑے درآمدی ممالک میں روس (34 فیصد)، اٹلی (19 فیصد) اور فرانس (19 فیصد) شامل ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہتھیاروں کے 10 بڑے خریدار سعودی عرب، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، کویت، الجزائر، مراکش، اردن، بحرین اور عراق ہیں۔
اگر ملکی حالات کی بات کریں تو توانائی کی بڑھتی قیمتیں عوام کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ 3 روپے سے زائد کا اضافہ کردیا ہے۔ یہ اضافہ اکتوبر کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں کیا گیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کا اطلاق وفاقی حکومت کی جانب سے منظوری کے بعد ہو گا۔واضح رہے کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈیسکوز) کیلئے فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3 روپے 55 پیسے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ دسمبر میں صارفین سے مزید 33 ارب روپے وصول کیے جاسکیں حالانکہ اس وقت 76 فیصد بجلی سستے مقامی ایندھن سے پیدا کی جارہی ہے۔اس اضافے کیلئے جواز یہ پیش کیا گیا کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے ماضی کی کچھ ایڈجسٹمنٹس کیلئے 28 ارب روپے سے زیادہ کا دعویٰ کیا تھا جس کے نتیجے میں اکتوبر میں پیداواری لاگت میں 59 پیسے کے بجائے 2.95 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا۔ نیپرا نے یہ درخواست منظور کرتے ہوئے عوامی سماعت مقرر کر دی جبکہ حال ہی میں ہونے والی اس سماعت کے بعد اب قیمت میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیاہے۔ اس اضافے کا مطلب یہ ہے کہ صارفین کو دسمبر میں بجلی کی کم کھپت کے باوجود زیادہ فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اکتوبر میں نسبتاً زیادہ استعمال ہونے والے یونٹس پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں ان سے بھاری رقم وصول کر لی جائے گی۔
واضح رہے کہ یہ اضافہ ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب بجلی کی فراہمی میں اوور بلنگ کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ تمام ڈیسکوز پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ صارفین کو لوٹ رہی ہیں اور ان سے زیادہ رقم وصول کرتی ہیں۔بجلی کی فراہمی میں زائد بلنگ اور بدعنوانی کی ایک بدترین صورتحال یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کار کمپنیوں پر صارفین سے 100 فیصد تک اضافی چارجز وصول کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ نیپرا کو ایک جامع انکوائری میں پتا چلا ہے کہ ملک بھر کی تقسیم کار کمپنیاں صارفین کو زائد بل بھیج رہی ہیں۔کوئی ایک کمپنی بھی ایسی نہیں جو 100 فیصد درست بلنگ کر رہی ہو۔ جولائی اور اگست میں ملک بھر کے صارفین کی جانب سے اضافی، زائد اور غلط بلوں کی شکایت پر یہ انکوائری شروع کی گئی تھی۔ اس انکوائری میں انکشاف ہوا کہ صارفین سے چارج کی گئی رقم بل پر موجود میٹر ریڈنگ کی تصویر سے مختلف ہے، کچھ کیسز میں تصویر یا تو غیر واضح تھی‘ یا غلط تصویر بھیجی گئی۔ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو)، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) نے غلط تصویروں کیساتھ سب سے زیادہ بل بھیجے۔ صارفین کو حد مدت (30 دن) سے زائد کا بل بھیجا گیا، سب سے زیادہ ''پروٹیکٹڈ‘‘ صارفین کو زیادہ سلیب کی شرح سے بل بھیجے گئے۔ واضح رہے کہ پروٹیکٹڈ صارفین وہ ہیں جو کم از کم 6 ماہ تک مسلسل 200 یونٹ سے کم ماہانہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔قانون کے تحت میٹر ریڈنگ لازمی طور پر زیادہ سے زیادہ 30 دن تک ہونی چاہیے، لیکن ایک کروڑ 37 لاکھ سے زائد گھریلو صارفین کو مذکورہ دو مہینوں میں بل 30 دن سے زائد مدت کی ریڈنگ کی بنیاد پر بھیجے گئے اور بل کا زائد دورانیہ ہونے کے نتیجے میں 32 لاکھ صارفین سے بلند سلیب کے مطابق چارجز وصول کیے گئے۔
اس اقدام کے نتیجے میں 8 لاکھ 40 ہزار صارفین پروٹیکٹڈ کیٹیگری سے نکل گئے جبکہ 52 ہزار 800 صارفین نان لائف لائن کیٹیگری میں منتقل ہو گئے۔ وہ صارفین جو 100یونٹ تک بجلی ماہانہ استعمال کرتے ہیں‘ انہیں ''لائف لائن‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ محض میپکو نے 79 لاکھ 90 ہزار صارفین کو جولائی اور اگست میں زائد بل بھیجے۔ تمام تقسیم کار کمپنیوں اور کے الیکٹرک کے بلوں میں لاتعداد تضادات سامنے آئے۔ ڈیسکوز نے ''غلط اور فضول‘‘ بنیادوں پر صارفین کو ڈٹیکشن بل بھیجے جس کے سبب وصولیاں کم ہوئیں۔ یہ بل اس وقت بھیجے جاتے ہیں جب میٹر میں چھیڑ چھاڑکی گئی ہو‘ بجلی چوری کی جائے یا پھر بجلی کا غلط استعمال کیا جائے۔حیسکو اور سیپکو کی ڈٹیکشن بلوں کی وصولی کی شرح بالترتیب 5 فیصد اور 6 فیصد رہی۔نیپرا نے بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیوں بشمول کے الیکٹرک کے خلاف قانونی کارروائیوں کی تجویز دی ہے۔ ڈیسکوز کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام بلوں کو درست کریں اور صارفین کو نظر ثانی شدہ بل بھیجیں اور اس آرڈر کی تکمیلی رپورٹ 30 دن کے اندر جمع کرائیں۔ امید ہے کہ سرکار عوام کے اس نقصان کا نہ صرف ازالہ ممکن بنائے گی بلکہ مستقبل میں اس کے تدارک کے حوالے سے بھی ٹھوس اقدامات کرے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved