کسی بھی انسان کی بنیادی ضرورتیں کیا ہیں؟ روٹی، کپڑا اور مکان! یقینا یہ ترتیب بالکل درست ہے۔ انسان کو پیٹ بھی باقاعدگی سے بھرنا ہوتا ہے، تن پر لباس بھی تواتر سے درکار ہوتا ہے اور ڈھنگ سے رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ بھی ہونا ہی چاہیے۔ انسان کسی بھی مالی حیثیت کا مالک ہو اور چاہے کسی بھی معاشرے سے تعلق رکھتا ہو، اُس کی یہ تین بنیادی ضرورتیں نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہوتیں بلکہ بدلتی بھی نہیں۔ ترتیب بھی یہی رہتی ہے۔ ہر انسان اصلاً اِن تین ضرورتوں کا غلام یا اسیر ہے۔ یہ چونکہ مرتے دم تک کا معاملہ ہے اِس لیے انسان عمر کے کسی بھی موڑ پر اِن تین میں سے کسی ایک بھی ضرورت کا بندھن توڑنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ کامیاب معاشرے وہ ہیں جو بنیادی ضرورتیں کماحقہٗ پورا کرتے ہیں اور ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے کسی بھی انسان کو متفکر ہونے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ اُسے اس حوالے سے تمام خدشات اور تحفظات سے محفوظ رکھتا ہے۔ کوئی بھی انسان جب اپنی بنیادیں ضرورتیں پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تب ہی زندگی کا معیار بلند کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرے میں کسی بھی انسان کے لیے بلند تر معیار کی زندگی یقینی بنانا اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ بنیادی ضرورتوں کے بارے میں سوچنے کی فکر سے مکمل آزاد ہوتا ہے۔ پسماندہ معاشروں کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ کرپشن اور لاقانونیت کے باعث لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں ہی کی تکمیل میں کھپ جاتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے کچھ بننے اور کچھ زیادہ کر دکھانے کی گنجائش پیدا ہی نہیں ہو پاتی کیونکہ وہ دن رات پیٹ بھرنے، تن ڈھانپنے اور سَر پر چھت کا اہتمام کرنے کی فکر میں غلطاں رہتا ہے۔ اِس مرحلے سے گزرے تو کچھ بات بنے، زندگی کا معیار بلند کرنے کی سُوجھے۔
انسانوں اور خواہشوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ انسان ہی کیا جس کی خواہشات کا دائرہ تواتر سے وسعت اختیار نہ کرتا رہے۔ انسان مرتے دم تک ''یہ دل مانگے اور‘‘ کی عملی تصویر بنا رہتا ہے۔ انسان کی جبلت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ چاہے جتنا بھی مل جائے، کم ہی محسوس ہوتا ہے۔ خواہشات کی محض تعداد نہیں بڑھتی بلکہ شدت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی خواہشات سیلابی ریلے کی طرح بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ انسان کے وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں اور مسائل لامحدود۔ تمام مسائل حل کرنا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ اُسے ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اہم ترین مسائل حل کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ کسی بھی انسان کے لیے حقیقی مشکلات صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب وہ سوچے سمجھے بغیر بہت سی آسائشوں کو بنیادی ضرورتوں کے زُمرے میں شامل کرتا جاتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسی بہت سی اشیا و خدمات ہوتی ہیں جو انتہائی بنیادی ضرورت کے زُمرے میں نہیں ہوتیں۔ یہ آسائشیں ہوتی ہیں اور اِن کی مدد سے زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ بنیادی ضرورتوں کی سطح سے بلند ہوکر کچھ ایسا کرے جو زندگی کا معیار بلند کرنے میں معاون ثابت ہو۔ یہ خواہش کسی بھی اعتبار سے بُری نہیں کیونکہ ہر انسان کو بالآخر زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں سوچنا ہی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بنیادی ضرورتوں اور آسائشوں کا فرق بھول جاتے ہیں۔ کوئی بھی آسائش اصلاً اس لیے ہوتی ہے کہ ہم عمومی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرسکیں۔ آسائش اگر تواتر سے بروئے کار لائی جائے یا اُس سے مستفید ہوا جائے تو انسان کی فکری ساخت اُسے بنیادی ضرورت سمجھنے لگتی ہے۔ یہ مشکل پیدا کرنے والا معاملہ ہے۔ پیٹ بھرنا، تن ڈھانپنا اور رہنے کے لیے ٹھکانے کا اہتمام کرنا ہر انسان پر لازم ہے؛ تاہم اِن مراحل سے گزرتے وقت اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی آسائش کسی طور بنیادی ضرورت نہ بنے۔ ایسی صورت میں انسان پر مختلف حوالوں سے دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔
طبقات سے کوئی بھی معاشرہ پاک نہیں۔ انتہائی ترقی یافتہ معاشروں میں بھی غریب اور امیر کا فرق وہی ہوتا ہے جو کسی پسماندہ معاشرے میں ہوتا ہے۔ ہاں‘ ترقی یافتہ معاشروں کے غربا پریشان اس لیے نہیں ہوتے کہ اُن کی بنیادی ضرورتیں احسن طریقے سے پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ وہ اگر زیادہ صاحبِ حیثیت ہونے کی خواہش اور کوشش نہ بھی کریں تو اچھی زندگی بہرحال گزارتے رہتے ہیں۔ پسماندہ معاشرے کے عام آدمی کے مقابلے میں ترقی یافتہ معاشرے کا عام آدمی خاصے بلند معیار کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اِس کے باوجود یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ طبقاتی فرق ہوتا ہے اور یہ فرق انسان کو پریشان بھی کرتا رہتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے کا عام آدمی کسی پسماندہ معاشرے کے عام آدمی سے کئی گنا بہتر زندگی بسر کرنے پر بھی ادھورا پن محسوس کرتا ہے اور اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ اُسے بھی زیادہ سے زیادہ کمانے کا موقع ملے، وہ بھی ایک شاہانہ بنگلے میں رہے اور دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں گھومے پھرے۔ ہمارے معاشرے کا عام آدمی بھی بنیادی ضرورتوں کی سطح سے بلند ہوکر بہت کچھ کرنا چاہتا ہے اور یہ خواہش اور کوشش قابلِ تحسین ہے۔ انسان کو اپنا معیارِ زندگی بلند سے بلند تر کرتے رہنا چاہیے۔ مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہونے پر بھی مطمئن نہ ہو اور آسائشوں کو بھی بنیادی ضرورتوں کے زُمرے میں داخل کر دے۔ ہمارے ہاں بیشتر کا یہی حال ہے کہ سوچے سمجھے بغیر یعنی اپنی مالی حیثیت کو ذہن نشین نہ رکھتے ہوئے ایسی بہت سی اشیا و خدمات کو بنیادی ضرورتوں کا درجہ دیتے رہتے ہیں جو دراصل آسائشات ہوتی ہیں۔ اگر بنیادی ضرورت اور آسائش کا فرق ذہن نشین نہ رکھا جائے تو انسان رفتہ رفتہ تعیشات کو بھی پہلے آسائش اور پھر بنیادی ضرورت کا درجہ دیتا رہتا ہے۔ آپ کے مشاہدے میں یہ بات ضرور آئی ہوگی کہ بہت سے لوگ کسی جواز کے بغیر ایسی اشیا و خدمات کو اپنے معمولات اور زندگی کا حصہ بنا بیٹھتے ہیں جو اُن کی مالی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ایسی حالت میں بہت کچھ اُلٹ پلٹ جاتا ہے۔ زندگی کو متوازن رکھنے کے لیے اِس امر کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی خریدیں یا استعمال کریں وہ ہماری مالی حیثیت سے مکمل مطابقت رکھتا ہو۔ کسی جواز کے بغیر کسی مہنگی چیز یا خدمت کو زندگی کا حصہ بنانا دانشمندی نہیں۔ ناگزیر کیفیت میں مہنگی اشیا و خدمات کا حصول ایسا معاملہ ہے جس پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا لیکن عمومی حالت میں کہ جب کوئی فوری ضرورت نہ ہو‘ اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا حماقت ہی کہلائے گا۔ کسی غریب بستی میں رہنے والا معمولی تنخواہ والا شخص اگر معمولی بخار میں مبتلا ہونے پر محض اہلِ محلہ یا اہلِ علاقہ کو متاثر کرنے کی غرض سے کسی مہنگے ہسپتال کا رُخ کرے تو اِسے محض سادہ لوحی نہیں بلکہ واضح حماقت سے تعبیر کیا جائے گا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ بہت سے لوگ کمزور مالی حیثیت کے حامل ہونے کے باوجود بعض تعیشات کو پہلے آسائشات اور پھر بنیادی ضرورتوں میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ یہ سب تحت الشعور کی سطح پر ہوتا ہے۔ لوگ محض دیکھا دیکھی بہت کچھ اپناتے چلے جاتے ہیں۔ بعض عادتیں چھوٹے چھوٹے بلا جواز اخراجات کو بجٹ کا حصہ بنا ڈالتی ہیں۔ دن میں تین چار مرتبہ چائے بنائی جائے تو گھر کا بجٹ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ کم آمدنی پر بھی روزانہ باہر سے کچھ لاکر کھانے کی صورت گھر کا بجٹ تلپٹ ہو جاتا ہے۔ یہ عمل چونکہ سست رفتار ہوتا ہے اِس لیے اِس کی سنگینی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
پُرسکون زندگی اُسی وقت ممکن ہے جب انسان بنیادی ضرورتوں کا دائرہ منطقی سطح پر محدود رکھے اور آسائشات و تعیّشات کو بنیادی ضرورتوں کا حصہ بنانے سے گریز کرے۔ یہ سب کچھ غور و فکر اور مشق سے ہوتا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان بالآخر غیر ضروری اشیا و خدمات کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ بنیادی ضرورتوں، آسائشات اور تعیشات کے درمیان حدِ فاصل کا خیال رکھنا ہر اُس انسان کے لیے ناگزیر ہے جو ڈھنگ سے جینے کا خواہش مند ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved