تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     09-12-2023

بات تو انتخابی نشان کی ہے

الیکشن کمیشن کو داد دینی چاہیے کہ اُسے صرف ایک پارٹی کا انٹرا پارٹی انتخاب نظر آیا‘ باقی پارٹیوں کے انٹرا پارٹی انتخابات عین جمہوری تقاضوں کے مطابق تھے۔ بہرحال پی ٹی آئی کو ایک نئی مشق میں ڈالا گیا اور مجبوراً اُسے بھی کاغذی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا چیئرمین منتخب کرنا پڑا۔ یہ والی مشق بھی الیکشن کمیشن میں چیلنج ہوئی اور اب تک الیکشن کمیشن کے سامنے اس سلسلے میں کارروائی جاری ہے اور اگلی تاریخ‘ دسمبر کی 12تاریخ ہے۔ دیکھتے ہیں فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ گو تب تک پی ٹی آئی وسوسوں کا شکار رہے گی۔ یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے جیسے نیم پڑھے لکھے ماحول میں انتخابی نشان بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اُسے ہی دیکھ کر بیشتر آبادی مہر لگاتی ہے۔ (ن) لیگ کا شیر نہ رہے‘ پیپلز پارٹی کا تیر نہ رہے‘ آدھے الیکشن کا زور تو چلا گیا۔ یہی دلیل پی ٹی آئی پر صادق ہوتی ہے‘ بلّا اُس کی پہچان ہے‘ بلّا نہیں رہتا تو ظاہر ہے فرق پڑے گا۔
ہر قومی اسمبلی کے حلقے میں تقریباً دو صوبائی نشستیں ہوتی ہیں۔ یعنی ہر حلقے میں ہر پارٹی جو انتخابی میدان میں قدم رکھتی ہے کا تین کا پینل بنتا ہے‘ اوپر ایک قومی امیدوار اور نیچے دو صوبائی امیدوار۔ شیر پر مہریں لگانی ہوں تو اوپر نیچے لگتی ہیں‘ تیر پر لگانی ہوں تو یہی کیفیت رہتی ہے۔ جب انتخابی نشان کو تتربتر کر دیا جائے تو کنفیوژن لازماً پیدا ہوتی ہے۔ ایک جماعت کو آپ انتخابی نشان سے محروم کر دیں تو اُس کے امیدوار انتخابی میدان میں اتریں بھی تو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ اور اگر نشان سے محروم جماعت ایک حلقے میں پینل بناتی بھی ہے تو اوپر والے امیدوار کا نشان کچھ ہوگا اور نیچے والوں کا کوئی اور۔ کنفیوژن تو پھر پیدا ہو گئی اور شاید مقصد بھی یہی ہے کہ جس جماعت کو محدود کرنا ہے‘ اُس کی سیٹیں محدود ہی رہیں۔
یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ انتخابات کے لیے میدان جو سج رہا ہے‘ اس میں ایک عدد فیورٹ جماعت ہے اور ایک جماعت ہے جس کے راستے مسدود کرنا مقصود ہے۔ جس جماعت کے لیے آسانیاں پید اکی جا رہی ہیں اُس کا انتخابی نشان شیر تو رہے گا‘ بلے کو کہیں گُم کر دیا گیا تو ظاہر ہے فائدہ شیر کا ہو گا۔ پر کیا کہیں‘ اگلے بیوقوف تو نہیں‘ اعلیٰ پائے کے منصوبہ ساز ہیں اور ایسی ہنر مندیوں کے ماہر۔ ہم جیسے جو بیوقوف ٹھہرے اب تک سمجھ رہے تھے کہ زیرِ عتاب جماعت کو بلے سے کیسے محروم کیا جائے گا۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن ہمارے ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی بھی ہنر مندی دکھائی جا سکتی ہے۔ بہرحال بہتر ہو گا کہ 12تاریخ کا انتظار کیا جائے۔ پھر دیکھتے ہیں کون سا بِگل بجتا ہے اور نئی صورتحال کیا پیدا ہوتی ہے۔ اتنا البتہ عیاں ہے کہ زیرِ عتاب پارٹی کے لیے کسی بھی قسم کی آسانیاں پیدا نہ کی جائیں گی‘ تمام آسانیاں تو اوروں کے لیے مختص ہیں۔ زیر عتاب جماعت کی بھی داد بنتی ہے کہ تمام مشکلات کے باوجود منظرعام سے غائب نہیں ہوئی‘ موجود ہے۔ موسمی پرندے اس کے ادھر اُدھر اُڑ گئے ہوں گے لیکن اس کا ووٹر اپنی جگہ قائم ہے اور یہی تو پرابلم ہے‘ نہیں تو اس جماعت کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہ کی جاتیں۔
ایسے کھیل اس ملک میں نئے نہیں‘ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں‘ لیکن ان سے حاصل کیا ہوا؟ جب اتنی تگ و دو کی جائے کہ کسی جماعت کو فیورٹ بنانا ہے اورکسی کو نیچے کرنا ہے تو کوئی یہ تو کہہ سکے کہ ایسی فنکاریوں سے قوم کا یہ فائدہ یا بھلا ہوا۔ لیکن حالت ہماری دیکھیں‘ اچھے بھلے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ نہ بنگالیوں کو برداشت کر سکے نہ جمہوریت ہمیں راس آئی۔ اب تو ہر تجربے کے ہم ماہر ہو چکے ہیں‘ تمام نسخے یہاں پر آزمائے گئے۔ ایوب خان کو اس قوم نے بھگتا پھر یحییٰ خان کو۔ ضیاالحق کی پارسائی کے مزے بھی قوم چکھ چکی ہے‘ مشرف کی روشن خیالی بھی۔ جو سیاسی لوگ آئے یا جن کو لایا گیا اُنہوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ دیکھ لیں سیاست میں آکر کیا کیا مزے انہوں نے لوٹے۔ جاتی عمرہ والے ایک اتفاق فاؤنڈری کے مالک تھے‘ اب ان کے اثاثے گننے بیٹھیں تو گنتی کرنے والا تھک جائے۔ سندھ کے حکمرانوں نے بھی کوئی کمی نہ کی‘ ٹھیکے پر ایک سینما چلاتے تھے‘ اب دولت کا پھیلاؤ اتنا ہو چکا ہے کہ کسی احاطے میں نہیں آتا۔ کل پرسوں ہی سندھ کے سابق چیف منسٹر لیاقت جتوئی فرما رہے تھے کہ جن کا ذکر ہو رہا ہے کچھ ہی زمین کے مالک تھے لیکن آج ہزاروں ایکڑ اور متعدد شوگر ملوں کے مالک ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کا خاندان بڑے زمیندار تھے۔ ہم سنا کرتے تھے کہ بھٹو صاحب کی ذاتی ملکیت پینتیس ہزار ایکڑ ہے‘ لیکن موازنہ کریں تو سابق سینما چلانے والوں کے ساتھ دولت کے لحاظ سے بھٹو صاحب کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ 1983ء میں جب شاہنواز بھٹو کی لاش لاڑکانہ لائی گئی مجھے بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ المرتضیٰ جو لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کا آبائی گھر ہے‘ اُس کے گیٹ کے اندر قدم رکھے۔ ایک طرف ایک روسی ٹریکٹر کھڑا تھا اور یہ بات یہ کہنے کے لیے کر رہا ہوں کہ المرتضیٰ کوئی محل نہیں تھا‘ ایک بڑے زمیندار کا گھر لگتا تھا۔ لیکن آج تو بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ بھٹو صاحب کا مقبرہ جو بنایا گیا ہے‘ اتنا بڑا احاطہ ہے‘ اتنی لمبی دیواریں کہ انسان یہ پوچھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس سب کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔ بھٹو صاحب کے پاس جو تھا وہ اُنہیں ورثے میں ملا تھا‘ 70اور 71کلفٹن کے بنگلے اور لاڑکانہ میں زمینیں سب ورثے کی ملکیتیں تھیں۔ بھٹو صاحب کا کوئی پلاٹ اسلام آباد یا لاہور میں نہیں تھا اور یہ کمال کی بات ہے کہ انسان ایوب خان کی کابینہ کا اہم وزیر ہو‘ اُس کی آنکھوں کے سامنے اسلام آباد کی بنیادیں رکھی جا رہی ہوں اور وہ ایک قطعہ زمین بھی نئے دارالحکومت میں حاصل نہ کرے۔ یہی تو وجہ ہے کہ اُن کا تختہ اُلٹا گیا اور ضیا حکومت نے لاکھ چھان بین کی کوشش کی لیکن کرپشن کی ایک نشانی بھی نہ ملی۔ ایک سے زائد وائٹ پیپر چھپے لیکن کرپشن کی کوئی داستان سامنے نہ آئی۔
لیکن جوکہنے کو سیاسی لیڈر بعد میں آئے اُن کے کرتب دیکھ کر اَش اَش کرنا پڑتا ہے‘ کیا اُن کی دوربین نظریں اور کیا مضبوط ہاتھ کہ ہر چیز سمیٹتے ہی گئے اور پھر بھی جی نہ بھرا اور یہی تمنا رہی کہ جو کچھ ہے کافی نہیں۔ اس سے بہت زیادہ ہمارے پاس ہونا چاہیے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کرم فرماؤں سے جان نہیں چھوٹ رہی۔ آج کے پاکستان کی بیشتر آبادی پیدا نہیں ہوئی تھی جب یہ دو خاندان‘ جن کی بات ہو رہی ہے‘اقتدار میں آنا شروع ہوئے۔ جو نہ پیدا ہوئے تھے‘ بالغ ہو گئے ہیں لیکن ان دو خاندانوں کی حاکمیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اور ہمارے ملک کو بھی دیکھیے‘ بائیس‘ چوبیس کروڑ کی آبادی ہو چکی ہے لیکن کوئی نئے چہرے سامنے نہیں آرہے۔ جنہوں نے سامنے آنے کی کوشش کی‘ قوم کی اُمنگیں آرزوئیں اُن کے گرد گھومنے تو لگیں لیکن اُن کا وجود بہتوں کو راس نہ آیا اور آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ ہمارے سامنے ہے۔ دیکھ ہی سکتے ہیں‘ اور کیا کر سکتے ہیں؟
تو پھر انتخابی نشانوں پر کیا رویا جائے؟ قسمت ہی ہماری کچھ ایسی لگتی ہے‘ اچھا بھلا ملک تھا اُس کے ساتھ کیا ہم نے کردیا۔ میری عمر کے لوگوں کو ضیاالحق سے پہلے کا پاکستان یاد ہے۔ وہی پاکستان رہتا اور نظرِبد اُس کو نہ لگتی‘ لیکن شاید ہمارے نصیب ہی ایسے تھے۔ اچھی بھلی صورت مسخ ہوتی گئی اور آج تو یہ صورتحال ہے کہ بس ایک ہی قدر رہ گئی ہے‘ مال بناؤ اور بناتے رہو۔ ملک بھاڑ میں جائے۔ بہرحال کچھ انتظار کرنا پڑے گا تاکہ آنے والے انتخابات کا پورا نقشہ تو سامنے آئے۔ پھر جی بھرکر رو لیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved