حالیہ ریاستی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی پر بھارت کے کچھ حلقوں میں جشن منایا جا رہا ہے۔ ہندی بیلٹ کی تین ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی اور کانگرس کی شکست اُن رحجانات کی عکاسی کرتی ہے جو 2024ء کے مرکزی پارلیمانی انتخابات کے تنائج کا تعین کر سکتے ہیں۔ اگرچہ سیاست میں حالات بدلتے رہتے ہیں اور آگے چل کر صورتحال بالکل ہی بدل سکتی ہے اور کسی بھی جمہوریت میں اس طرح کے امکانات کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔ موجودہ رحجانات لیکن یہی بتاتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آئندہ الیکشن میں اس سے زیادہ طاقت اور قوت لے کر واپس آسکتے ہیں۔ ان حالات میں ایک عام سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے خطے کی سیاست اور پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ایک خاص نقطے پر منجمد ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں میں بڑے بڑے واقعات بھی رونما ہوئے لیکن دونوں کے تعلقات میں جو خاص قسم کا جمود ہے‘ اس کو نہیں توڑا جا سکا۔ ان میں ایک بڑا واقعہ پانچ اگست 2019ء کا تھا جب نریندر مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی و قانون حیثیت بدل کر اس کو Union territory کا درجہ دیا تھا۔ عام حالات میں اس طرح کے بڑے واقعہ پر پاکستان کی طرف سے کسی بڑے ردِ عمل کی توقع ایک عام سی بات تھی لیکن پاک بھارت تعلقات کی تاریخ میں شاید یہ پہلا اس سطح کا کوئی واقعہ تھا جس پر پاکستان کی طرف سے کوئی بڑا ردِعمل نہیں سامنے آیا۔ حالانکہ اس عمل سے مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت‘ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں اور معاہدۂ شملہ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان نے اس عمل کے خلاف اقوامِ متحدہ میں ایک تقریر اور کچھ عرصے تک جمعہ کے روز چند منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا۔ بلکہ انہوں نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں اپنی تقریر میں کشمیریوں پر زور دیا کہ وہ اس واقعے کے ردِعمل میں سرحدوں کی طرف مارچ یا احتجاج سے اجتناب کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے ردِ عمل سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے پر کچھ کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت مانگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ چھ ماہ میں بھارتی اقدامات کے خلاف ردِ عمل کی حکمت عملی سامنے لائیں گے مگر کسی خاص ردِ عمل کے بجائے آگے چل کر پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا اعلان کر دیا جو تھوڑی بہت خلاف ورزیوں کے ساتھ اب تک جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی اس خاص نوعیت میں کسی قسم کی بڑی تبدیلی کو تجزیہ کار دونوں ملکوں میں آئندہ انتخابات سے مشروط کرتے رہے اور یہ امید ظاہر کرتے رہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد سامنے آنے والی حکومتیں ہی پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی۔
حالیہ برسوں پاکستان میں اقتدار کی کشمکش اور اس کے نتیجے میں حکومتوں میں پے درپے تبدیلیوں کے پیش نظر یہ سمجھا جاتا رہا کہ آئندہ انتخابات تک پاک بھارت تعلقات میں کسی قسم کی تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں اور شاید آئندہ انتخابات میں نئی اور مستحکم حکومت سامنے آئے جو اس طرح کے حساس معاملات پر بات چیت کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ اس وقت دونوں ملکوں میں جس طرح کی سیاسی صورتحال پیدا ہوئی ہے‘ اس کی روشنی میں یہ سیاسی پیشگوئی کرنا آسان ہو گیا ہے کہ دونوں ملکوں میں اگلی حکومت کون بنا رہا ہے۔ بھارتی انتخابات سے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہاں نریندر مودی پہلے سے بھی مضبوط وزیراعظم کے طور پر براجمان ہوں گے۔ بظاہر بھارت میں کانگرس کی قیادت میں بننے والا نیشنل الائنس وہ نتائج نہ لا سکا جن کی اس سے توقع کی جارہی تھی۔ 28پارٹیوں کا یہ اتحاد سخت قسم کے نظریاتی اختلافات اور گہرے تضادات کا شکار رہا ہے اور ریاستی انتخابات میں جو مثبت نتائج سامنے آئے بھی ہیں‘ وہ نیشنل الائنس کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف کانگرس کی وجہ سے ہیں۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان کی اس نئی طاقت اور مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کی پالیسیاں ہیں۔ یہ پالیسیاں قوم پرستی اور معاشی ترقی کے دو ستونوں پر کھڑی ہیں۔ ان کی کئی پالیسیاں متنازع ہیں اور ان سے سخت اختلاف بھی کیا جا رہا ہے لیکن ان کے ووٹ بینک اور مقبولیت میں اضافہ بھی انہی پالیسیوں کا مرہونِ منت ہے‘ لہٰذا وہ یہ پالیسیاں جاری رکھنا چاہیں گے جو ان کی مقبولیت کی ضمانت ہیں۔ ان میں مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سخت گیر رویے پر مشتمل پالیسی بھی شامل ہے۔ ان انتخابی کامیابیوں کو سامنے رکھتے ہوئے نئی منتخب شدہ حکومت کی اس پالیسی میں تبدیلی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں جو صورتحال اس وقت اُبھر کر سامنے آئی ہے‘ اس کے تناظر میں آثار یہی بتاتے ہیں کہ آئندہ حکومت مسلم لیگ (ن) بنائے گی جس کے سربراہ میاں نواز شریف ہوں گے‘ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت ہو گی یا تقسیم شدہ مینڈیٹ کی وجہ سے ایک کمزور کولیشن کی شکل میں سامنے آئے گی۔
دوسری طرف میاں نواز شریف نے اب کی بار اپنی انتخابی مہم اور انتخابی منشور میں مسئلہ کشمیر کے حل یا پاک بھارت تعلقات پر زیادہ زور نہیں دیا‘ اس کے برعکس ماضی میں ان کا طرزِ عمل بالکل مختلف رہا۔ ان کی سابقہ انتخابی مہم کے ایجنڈے کا ایک اہم ترین نقطہ پاک بھارت تعلقات تھا۔ اس انتخابی مہم میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے عزم کا بار بار اعادہ کیا۔ انہوں نے اس خطے کی خوشحالی اور ترقی کے لیے پاکستان و بھارت کے درمیان تعلقات پر بھی بہت زیادہ زور دیا تھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ان کی خواہش صرف انتخابی مہم تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی اپنی اس خواہش اور ایجنڈے پر زور دیا۔ بھارت کے ساتھ تیزی سے تعلقات بہتر کرنے کی ان کی اس خواہش سے اختلاف کرتے ہوئے ملک کے کچھ طاقتور حلقوں نے ان کو بتایا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات ضرور بہتر ہوں گے مگر یہ کام آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار ہوگا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ خوشگوار ذاتی تعلقات اور باہمی اعتماد اور بھروسا پیدا کرنے کے تیز رفتار عمل کی وجہ سے ان کو کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید اور الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح نریندر مودی اور میاں نواز شریف کی ''کیمسٹری‘‘ ملنے کے عمل کو بھی گہری سازش اورخطرے کی گھنٹی قرار دیا گیا اور نریندر مودی کے لاہور آنے اور میاں نواز شریف کے گھر جانے کے عمل کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھا گیا۔ غالباً انہی تلخ تجربات کی روشنی میں میاں نواز شریف نے ایک محتاط اور مختلف طرزِ عمل اپنایا ہے اور اب کی بار ان کا پاک بھارت تعلقات اور باہمی تجارت پر رویہ ماضی کی نسبت کافی مختلف ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وہ پہلے کی طرح پُرجوش دکھائی نہیں دیتے اور نہ ہی خطے کی ترقی کو بھارت کے ساتھ تعلقات کی خوشگواری سے مشروط کرتے ہیں۔ ان حالات میں دیکھا جائے تو 2024ء کے انتخابات کے بعد دو ایسے وزرائے اعظم کی موجودگی میں بھی‘ جن کی آپس میں ''کیمسٹری‘‘ بھی ملتی ہے اور جو اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کا تعلق خطے میں امن کے قیام سے ہے‘ خطے میں امن کے قیام کے لیے کسی قسم کے تیز رفتار اقدامات کی توقع کم ہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved