انسان کی نفسیات میں بہت سی چیزیں لازم و ملزوم ہیں جیسا کہ غصہ‘ پیار‘ نفرت‘ بھوک‘ دھوکا وغیرہ۔ دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ہو جسے غصہ نہ آتا ہو‘ جسے بھوک نہ لگتی ہو‘ جسے کسی سے الفت نہ ہوئی ہو‘ جو کسی کے دھوکے کا شکار نہ ہوا ہو۔ زندگی ہے تو یہ سب ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب انسان کسی ایک چیز کو لے کر تمام حدیں پار کر جاتا ہے اور یوں زندگی میں توازن کھونے کی وجہ سے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کو جو باتیں سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں‘ ان میں سرفہرست غصہ ہے۔ آپ کو دنیا کے کامیاب لوگوں میں غصہ کم ہی نظر آئے گا۔ غصہ انسان کو آسمان سے زمین پر لا سکتا ہے۔ ہم سب انسان ہیں اور انسان کو بہر غصہ حال آتا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ غصہ انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ غصہ آتا ہے تو انسان کے اعصاب اور حواس کھنچنے لگتے ہیں‘ اس کی نسیں پھیلنے لگتی ہیں اور اس کے خون کی رفتار بے قابو ہو جاتی ہے‘ غصے کا سب سے فوری اثر دماغ پر ہوتا ہے‘ یہ انسان کی قوتِ فیصلہ کو ضرب لگاتا ہے اور یہ خون میں ایک ایسا زہریلا مادہ پیدا کرتا ہے جس سے چہرے کی رونق ختم ہو جاتی ہے اور آنکھوں اور ہونٹوں سے تازگی غائب ہو جاتی ہے۔ غصہ انسان کے اعصابی نظام کو ریورس گیئر میں ڈال دیتا ہے یوں انسان کے کردار اور اخلاق میں منفی اور تخریبی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں اور انسان جذبات کی انتہائی سطح پر پہنچ جاتا ہے اور اس حالت میں یہ اپنی بڑی سے بڑی محبت کو بھی جوتے کی ٹھوکر سے اڑا دیتا ہے۔ یہ اپنی اولاد‘ اپنی دولت‘ اپنے کیریئر اور اپنی زندگی تک کو داؤ پر لگا دیتا ہے اور یہ غصے کی حالت میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کی شمع تک کو بجھا دیتا ہے اور یقین کیجئے دنیا کے 70 فیصد انسان صرف اسی لیے ناکام ہوتے ہیں کہ وہ غصے پر قابو نہیں رکھتے اور 30 فیصد اس لیے کامیاب ہوتے ہیں کہ وہ کول مائنڈڈ رہتے ہیں‘ وہ غصے میں بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے کا فن جانتے ہیں اور یہی زندگی کا سب سے بڑا فن ہوتا ہے۔
ہر انسان بہترین زندگی چاہتا ہے اور آج کے دور میں بہترین زندگی بغیر دولت کے حاصل کرنا کافی مشکل کام ہے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ درویش سے درویش انسان کو بھی مہینہ گزارنے کے لیے موٹی رقم درکار ہے کیونکہ وہ عیاشی نہ بھی کرے‘ بجلی‘ پانی‘ گیس اور خوراک کو پورا کرنے کے لیے بھی اسے اچھی خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اسی معاشرے میں آپ کو ایسا شخص بھی ملے گا جو دولت کو خوشی‘ اطمینان اور راحت کا منبع سمجھ کر اس کی پوجا کرتا ہو گا حتیٰ کہ دولت کی ہوس میں لوگ خونی رشتوں کا خون پینے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ جس خوشی اور سکون کی تلاش میں وہ دولت جمع کرتے ہیں‘ وہی دولت ان کی بے سکونی‘ بے چینی اور تباہی کی وجہ بن جاتی ہے۔ وہ سونے کے بستر پر لیٹتے ہیں لیکن خواب آور گولیاں کھائے بغیر سو نہیں پاتے۔ لاکھوں کے سوٹ پہنتے ہیں لیکن ان کا باطن گندگی سے اَٹا رہتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز اولاد کے قدموں میں لا کر رکھ دیتے ہیں لیکن یہی اولاد بڑھاپے میں ان کی عزت تک نہیں کرتی۔ اپنی خدمت کی خاطر وردی پوش ملازموں کی فوج جمع کر لیتے ہیں لیکن خودکو بے یارومددگار محسوس کرتے ہیں۔ سیروتفریح کی خاطر دنیا کا کونا کونا پھر لیتے ہیں لیکن بے چینی اور بے قراری کے تحفے لے کر وطن لوٹ آتے ہیں۔ جان کی حفاظت کیلئے محافظ اور بلٹ پروف گاڑیاں خرید لیتے ہیں لیکن موت کا فرشتہ پھر بھی ان کی روح قبض کر لیتا ہے اور دنیا کا مہنگا ترین علاج اختیار کرتے ہیں لیکن صحت کی آس لے کر موت کی وادی میں اُتر جاتے ہیں۔ دراصل خوشی حاصل کرنے کیلئے خوشیاں بانٹنا ضروری ہے۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلا کر‘ کسی بے کس کو اچھے کپڑے دے کر‘ کسی طالبعلم کی مالی امداد کر کے‘ کسی بے گھر کو چھت کا سایہ دے کر‘ کسی بیروزگار کو روزگار دے کر‘ کسی بیمار کا علاج کرا کے اور کسی ضرورتمند کی ضرورت پوری کر کے جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ دنیا جہاں کی آسائشیں اور ہیرے جواہرات اکٹھے کر کے بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ بات بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی اور جب تک وہ بلندی کے مینار کھڑے کرکے انہیں زمین بوس ہوتے نہ دیکھ لیں‘ ان پر زندگی کی حقیقت اور انسان کی پیدائش کا مقصد آشکار نہیں ہو سکتا۔
اسی معاشرے میں آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو انتہائی خوشحال ہوں گے جنہیں خدا نے بہت نوازا ہو گا لیکن وہ مخلوقِ خدا کو نظر انداز کرنے کو عار نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو بیسیوں حج کر لیں گے لیکن کسی بھوکے کو دو وقت کا کھانا یا کسی غریب طالب علم کی سکول کالج کی فیس ادا نہیں کریں گے۔ ہر وہ شخص جو نفلی حج یا عمرے پر جاتا ہے‘ وہ نفلی عبادت کی ادائیگی کا فریضہ انجام دے رہا ہوتا ہے۔ حج ایک مرتبہ فرض ہے لیکن اس کے علاوہ بھی دنیا میں انسان پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں جیسا کہ قریبی رشتہ داروں‘ قرابت داروں‘ ہمسایوں اور دوستوں کا خیال رکھنا‘ مصیبت اور بیماری میں ان کی مدد کرنے میں بھی بے حد ثواب ملتا ہے۔ کچھ لوگ مگر اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ نفلی عبادات کے یہی دس‘ بیس لاکھ غریب طالبعلموں کو ملیں تو وہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کر سکتے ہیں‘ کسی یتیم خانے کو دیے جائیں تو سینکڑوں یتیم بچے ایک سال تک اچھی خوراک اور اچھا لباس حاصل کر سکتے ہیں‘ یہ رقم کسی بیوہ کو دی جائے تو وہ دربدر ٹھوکریں کھانے کے بجائے یتیم بچوں کی کفالت کر سکتی ہے‘ اگر غریب کی بیٹی کو مل جائے تو وہ لوگوں کے طعنے سننے کے بجائے عزت کے ساتھ بیاہی جا سکتی ہے۔ یہی رقم مستحق مریضوں کے علاج پر خرچ کر دی جائے تو حسرتوں‘ محرومیوں اور تنگدستی کا شکار ہو کر مرنے کے بجائے زندگی کی چند بہاریں دیکھنے کا شرف ایسے لوگوں کے حصے میں بھی آ سکتا ہے۔ ہم آج تک اتنا بھی نہیں سمجھ سکے کہ جب اللہ نے کسی بندے کا امتحان لینا ہوتا ہے تو وہ اس کے قرب و جوار میں موجودبعض لوگوں کو کسی مشکل میں مبتلا کر دیتا ہے۔ خدا کرے ہم زندگی کو متوازن کرنا سیکھ لیں اور صرف حقوق اللہ پر ہی زور نہ دیں بلکہ حقوق العباد پر بھی توجہ دیں کیونکہ ان کے بارے میں بھی ہم سے بازپرس کی جائے گی۔
پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو دولت کے پیچھے لگ کر سب کچھ گنوا بیٹھ دیتے ہیں اور کئی مرتبہ تو اپنا دماغ استعمال کرنا تک بھول جاتے ہیں۔ یہ ملک ایسے شہزادوں سے بھرا پڑا ہے جو اپنی جمع پونجی فراڈیوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں جو انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دھوکے باز ڈنڈے یا بندوق کے زور پر تو ہمیں نہیں لوٹتے‘ بلکہ یہ ہمارا لالچ‘ ہماری ہوس‘ ہمارا مردہ ضمیر اور راتوں رات امیر ہونے کی ہماری خواہش ہے جو ہماری عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ ہمیں اللہ نے دو ہاتھ دیے ہیں‘ عقل دی ہے‘ صلاحیت دی ہے‘ ہمارے پاس کتنے ہی لوگوں سے بڑھ کر وسائل موجود ہیں لیکن ہم انہیں استعمال میں لانے اور اپنی قوتِ بازو پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ آج کل کے دور میں تو لوگ زیادہ تر شارٹ کٹ چاہتے ہیں‘ جلد سے جلد امیر ہونا چاہتے ہیں مگر بعض شارٹ کٹ ایسے ہوتے ہیں جو گہری دلدل اور خوفناک گڑھے پر جا کر ختم ہوتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کی راتوں رات امیر ہونے کی کہانیوں سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز کو بھی سنجیدہ مت لیں جن میں کسی کے محل جیسے گھر‘ درجنوں گاڑیوں‘ قیمتی فرنیچر اور دیگر قیمتی اشیا کو یوں دکھایا جا رہا ہو جیسے زندگی کا مقصد انہی چیزوں کا حصول ہو‘ چاہے اس کے لیے کوئی بھی غلط راستہ کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔ زندگی توازن کے بغیر کسی کام کی نہیں۔ غصہ‘ لالچ‘ حسد‘ دھوکا‘ خوف اور شارٹ کٹ سے جتنا پرہیز کر سکتے ہیں کریں‘ تبھی متوازن اور کامیاب زندگی کا خواب پورا ہو سکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved