تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     09-12-2023

معارفِ سعدی…(حصہ دوم)

(6) دنیاکی حرص و طمع کی بابت شیخ سعدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ''ایک مرتبہ ایک ایسے تاجر سے ملنے کا اتفاق ہوا، جس کے پاس خدمت کیلئے چالیس غلام اور بار برداری کیلئے ایک سو پچاس اُونٹ تھے، رات کو مجھے اپنے حجرے میں لے گیا اور دماغ چاٹنے لگا: میرا اتنا مال ترکستان میں ہے اور اتنا ہندوستان میں، فلاں فلاں جگہ سے آیا ہوں اور فلاں فلاں ملک میں ابھی جانا ہے، اب صرف ایک آخری سفر باقی ہے، اس کے بعد گھر میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کروں گا، میں نے پوچھا: کون سا کام ہے، کہا: ایران کی فلاں چیز لے کرچین جائوں گا، چین کے برتن روم بھیجوں گا، روم کا ریشم ہند میں بھیجوں گا، ہند کا فولاد حلب میں، حلب کا شیشہ یمن میں اور یمن کی چادریں فارس میں فروخت کرنے کے بعد آرام سے گھر بیٹھ جائوں گا۔ طویل بَک بَک کرنے کے بعد جب وہ تھک گیا تو کہنے لگا: سعدی تم بھی کچھ کہو، میں نے اُسے یہ قطعہ سُنایا:
آں شنیدستی کہ در صحرائے غور
بارِ سالارے بیفتاد از ستور
گفت چشمِ تنگ دنیا دار را
یا قناعت پُرکند یاخاکِ گور
ترجمہ: ''شاید تم نے سنا ہو: ایک دفعہ غور کے صحرا میں ایک تونگر خچر سے گر پڑا اور سخت پریشانی کی حالت میں کہنے لگا: دنیادار کی حریص آنکھ کو دو ہی چیزیں بھر سکتی ہیں: قناعت یا قبر کی مٹی ‘‘۔
رسول اللہﷺنے فرمایا: ''بندہ کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، اُس کے جمع کردہ مال میں اُس کا حصہ تو فقط تین چیزیں ہیں: (1) جو اُس نے کھا لیا اور فنا ہو گیا، (2) جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہو گیا، (3) یا وہ جو اُس نے اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا اور وہ اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیا اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے‘ وہ وارثوں کے لیے چھوڑ کر (خالی ہاتھ) آخرت کی منزل کی طرف چلا جائے گا‘‘ (صحیح مسلم: 2959)۔ نیز شیخ سعدی فرماتے ہیں: ''دَہ درویشے در گلیمے می خُسپَند ودو پادشاہ در اقلیمے نمی گُنجَند‘‘، یعنی ''دس درویش تو ایک کمبل میں سما سکتے ہیں، مگر دو بادشاہ ایک ملک میں نہیں سما سکتے‘‘۔ پس درویش سے پوچھیں تو کہے گا: یہ کمبل بہت بڑا ہے، دس اور بھی آ جائیں تو اس میں سما سکتے ہیں اور بادشاہ سے پوچھیں تو وہ کہے گا: یہ ملک تو بہت چھوٹا ہے، ایسی ہزاروں دنیا اور بھی پیدا ہو جائیں، میرے لیے وہ بھی کم ہیں، سو اصل شے ہوس اور قناعت ہے، جو ہوس کا مارا ہو تو پوری دنیا بھی اس کے لیے کم ہے اور جس میں قناعت ہو تو وہ خود کو پوری دنیا سے زیادہ مال دار سمجھے گا۔
(7) نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ''تم اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، کیونکہ ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے‘‘ (مسندِ احمد: 5)، عافیت کے معنی یہ ہیں کہ دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں، تمام آفات و مصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلائوں سے سلامتی و حفاظت، لہٰذا، عافیت،دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کو شامل ہے، جس نے اللہ تعالیٰ سے عافیت کو طلب کیا، اُس نے گویا دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں مانگ لیں۔ شیخ سعدی ایک حکایت سے اس کی وَضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ایک بادشاہ ایک غلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا، چونکہ غلام نے کبھی دریا کا سفر نہیں کیا تھا، رونا پیٹنا شروع کر دیا اور کسی طرح خاموش نہیں ہو رہا تھا، اس کشتی میں ایک فلسفی بھی تھا، بادشاہ سے کہنے لگا: اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا علاج کرتا کروں، کہا: میں اِسے خاص لطف و کرم سمجھوں گا، فلسفی اُٹھا اور چند مسافروں کی مدد سے اُسے دریا میں پھینک دیا، جب چار غوطے کھا چکا تو بالوں سے اُسے گھسیٹ کر دوبارہ کشتی میں بٹھا دیا، اب اس نے جان بچ جانے پر اللہ کا سو بار شکر ادا کیا اور آرام سے ایک گوشے میں جا کر بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے پوچھا: اے فلسفی! اس میں کیا راز تھا؟ فلسفی نے کہا: ''قدرِ عافیت کسے داند بہ مصیبتے گرفتار آید‘‘، یعنی امن و عافیت کی قیمت وہی جانتا ہے جو کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو:
حوران بہشتی را دوزخ بود اَعراف
از دوزخیاں پُرس، کہ اَعراف بہشت است
ترجمہ: ''حوروں کے لیے تو اَعراف بھی دوزخ ہے اور دوزخیوں کے لیے تو اَعراف بھی جنت ہے‘‘۔ واضح رہے: اَعراف جنّت اور جہنم کے درمیان ایک مقام کو کہتے ہیں۔
(8) شیخ سعدی احسان و بھلائی اور بدی کے جواب میں عفو و درگز کی اہمیت اور اس کے فوائد و اثرات کی بابت لکھتے ہیں: ''میں نے ایک جوان کو دیکھا کہ ایک بکری کوساتھ لیے جا رہا ہے، میں نے کہا: یہ سب رَسّی کی برکت ہے، ورنہ یہ بھاگ جاتی، اُس نے رسی چھوڑی اوربکری برابر اس کے پیچھے چلتی رہی، میں نے حیرت سے پوچھا: یہ کیا جادو ہے، تو جواب ملا:
نہ ایں ریسماں می بُرد با مَنَش
کہ احسان کمند است در گردَنَش
بداں را نوازش کن، اے نیک مرد
کہ سگ پاس دار دچونانِ تو خورد
ترجمہ: ''اِسے میرے پیچھے کھینچنے والی رسی نہیں، بلکہ احسان ہے، جس کا پھندا اِس کی گردن میں پڑا ہے، بُرے لوگوں کو احسان سے قابو کرو، کہ کتا بھی تمہاری روٹی کھا کر تمہارا بن جاتا ہے‘‘۔ یعنی نیکی و احسان کی تاثیر سے بے زبان جانور بھی تابع فرمان ہو جاتے ہیں، پس اگر کسی بگڑے ہوئے انسان اور بدترین دشمن کے ساتھ مسلسل حسنِ سلوک اور اعلیٰ درجے کی نیکی کا معاملہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں دشمنی اور عداوت مَحبت و مَودّت سے بدل جاتی ہے، سخت سے سخت دشمن بھی آخر کار قدموں میں آ جاتا ہے اور گرمجوش دوست کی طرح برتائو کرنے لگتا ہے، کیونکہ یہی انسانی فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتیں، تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، پس تم دیکھو گے: تمہارے اور جس شخص کے مابین عداوت تھی، (حُسنِ سلوک کی بدولت) وہ تمہاراجگری دوست بن گیا ہے‘‘ (فصلت: 34)۔ اِسی ضمن میں ایک حکایت یہ بھی ہے: ''ایک بادشاہ شکار کھیلتے کھیلتے ایک ایسی جگہ جا پہنچا جہاں ایک گدھا کیچڑ میں دھنسا ہوا تھا اور دہقان وہاں بیٹھا شاہِ وقت کو کوس رہا تھا اور اس کے متعلق نازیبا کلمات بک رہا تھا۔ ایک ملازم نے اُس کے قتل کا مشورہ دیا، لیکن عالی ظرف بادشاہ نے قبول نہ کیا، بادشاہ اس دَہقان کے پاس گیا، اس کا گدھا دلدل سے نکلوایا اور اُسے انعام و اکرام سے ما لامال کرکے آگے نکل گیا۔ شیخ سعدی کہتے ہیں:
بدی را بدی سہل باشد جزا
اگر مردے، اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَا
ترجمہ: ''برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان کام ہے (یعنی اس سے تو نفسِ امّارہ کو تسکین ملتی ہے)، اگر (باکمال) مرد ہو تو جو تم سے برا سلوک کرے، اُس کا بدلہ اچھے سلوک سے دو، اِسی کی بابت اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے، تو یہ عزیمت والے کاموں میں سے ہے‘‘ (الشوریٰ: 43)‘‘۔ اِس بیت میں نبی کریمﷺکی اس حدیث کی طرف اشارہ ہے: ''اُس شخص کے ساتھ نیکی کرو جس نے تمہارے ساتھ بدی کی ہے‘‘ (اَلجَامِعُ الصَّحِیْح لِلسُّنَنِ وَالْمَسَانِیْد، ج: 9، ص: 480)۔
(9) شیخ سعدی فرماتے ہیں: ''عزت کا معیار علم و فضل اور فہم و فراست ہے، نہ کہ بہترین لباس، اعلیٰ سواری اور مال و دولت کی کثرت، پس کسی جاہل کی دولت کو دیکھ کر اُس سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے، میں نے ایک بیوقوف کو دیکھا: وہ بیش قیمت لباس پہنے ہوئے عربی گھوڑے پر سوار جا رہا تھا اور اس نے سر پر مصری ریشمی عِمامہ باندھا ہوا تھا، کسی نے پوچھا: سعدی! یہ ریشمی لباس اِس بے علم حیوان پر کیسا لگ رہا ہے، میں نے کہا:
قَدْ شَابَہَ بِالْوَریٰ حِمَارُ
عِجْلًا جَسَداً لَّہ خُوَار
ترجمہ: ''بے شک گدھا انسانوں کے مشابہ ہو گیا ہے (یا) یہ ایک ڈکرانے والا بچھڑا ہے‘‘۔
(10) نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''(حقیقی) پہلوان وہ نہیں جو اَکھاڑے میں اپنے مقابل کو پچھاڑ دے، بلکہ (حقیقی) پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابورکھے‘‘ (صحیح بخاری: 6114)، شیخ سعدی فرماتے ہیں: ایک بُزرگ نے ایک پہلوان کو غصے بھرا دیکھا، غیظ و غضب کے عالَم میں اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا، بزرگ نے پوچھا: اس نے ایسی حالت کیوں بنائی ہوئی ہے، لوگوں نے کہا: فلاں آدمی نے اِسے گالی دی ہے، اُنہوں نے فرمایا: ''ہزار مَن سنگ بر میدارد، و طاقتِ سخنے نمی دار‘‘، یعنی یہ کمینہ ہزار مَن کا پتھر اُٹھا لیتا ہے، لیکن مخالف کی ایک بات برداشت نہیں کر سکتا:
لاف سرپنجگی ودعوائے مردے بگزار
عاجزِ نفسِ فرومایہ،چہ مَردے چہ زنے
گرت از دست بر آید، دہنے شِیر کن
مَردے آں نیست،کہ مشتے بزنے بردہنے
ترجمہ: ''طاقت وری کی شیخی بگھارنا اور مردانگی کا دعویٰ چھوڑ دے، کمینے نفس سے عاجز مرد و عورت دونوں برابر ہیں، اگر تجھ سے ہو سکے تو تُو کسی کا منہ میٹھا کر، مردانگی یہ نہیں ہے کہ کسی کے منہ پر مکا مار دے‘‘۔
(11) شیخ سعدی فرماتے ہیں: سلاطین و اُمراء کی صحبت اور اُن کی ہم نشینی سے جس قدر ہو سکے، پرہیز کرنا چاہیے، دریا میں اگر چہ فائدے بہت ہیں، لیکن سلامتی کنارے پر رہنے میں ہے۔ بادشاہوں کی ہم نشینی سے جہاں لعل و جواہر حاصل ہوتے ہیں، وہیں سر چلے جانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ لومڑی سے کسی نے پوچھا: تم نے شیر کی ملازمت کیوں اختیار کی، کہا: اس لیے تاکہ بچا کھچا شکار ملتا رہے اور اس کی پناہ میں ہر گزند سے محفوظ رہوں، پوچھا: تم شیر سے دور دور کیوں رہتی ہو؟ کہا: میں اس کی گرفت سے بھی ڈرتی ہوں، دانائوں نے کہا ہے: بادشاہوں کی تلوُّن مزاجی (مزاج کے اتار چڑھائو) سے ڈرنا چاہیے:
گاہے بہ سلام برنجند
وگاہے بہ دشنامے خلعت دہند
ترجمہ: ''یعنی کبھی تو سلام پر تیور بگڑ جاتے ہیں اور کبھی دشنام پر بھی خِلعت سے نواز دیتے ہیں‘‘۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved