یہ 1960ء کی دہائی کی بات ہے، صدر ایوب خان کی عوامی مخالفت بڑھتی جا رہی تھی‘ اسی دوران مری میں ایک مشاعرہ ہوا جس کی صدارت جسٹس سردار اقبال کے پاس تھی اور مہمانِ خصوصی ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ حبیب جالبؔ کو دعوتِ کلام دی گئی تو انہوں نے مذکورہ شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''آج میں ایک سیاسی نظم‘ دستور پڑھوں گا‘‘ اور پھر یہ کہہ کر
ایسے دستور کو‘ صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا
کا بند پڑھا۔ یہ نظم سنتے ہی ہزاروں کا مجمع بے قابو ہو گیا۔ نظم کے اختتام پر جالب جب سٹیج سے اترے تو لوگوں نے انہیں کندھوں پر اٹھا لیا اور ایک جلوس کی صورت میں مری کی سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ نظم جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی اور اس کے چند دن بعد ہی جالب کی پہلی گرفتاری عمل میں آئی، مگر یہ گرفتاری نقضِ امن یا اپنی نظموں سے ''انتشار‘‘ پھیلانے پر نہیں ہوئی بلکہ لاہور کے ایک مشہور بدمعاش نے الزام لگایا تھا کہ جالب نے جوا کھیلنے اور گانا سننے کیلئے اس سے پیسے ادھار لیے تھے مگر کچھ عرصے بعد جب اس نے اپنے پیسے واپس مانگے تو جالب‘ جو نشے کی حالت میں تھے‘ نے اس پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ بعد ازاں جو اس مقدمے کا حال ہوا وہ بتانے کی ضرورت نہیں مگر اس ایک ایف آئی آر‘ جو آج تاریخ کا حصہ ہے‘ میں جالب پر جوا کھیلنے، گانا سننے، نشہ کرنے اور چاقو سے حملہ کرنے کے الزامات عائد کر دیے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے راہیں الگ کیں تو 1968ء میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا کہ انہوں نے سرکاری ٹریکٹر اپنی ذاتی زمینوں پر استعمال کر کے قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ پھر انہی بھٹو کے دور میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری شجاعت حسین کے والد چودھری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا گیا۔ 1990ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں شیخ رشید احمد کے خلاف کلاشنکوف لہرانے پر مقدمہ درج ہوا اور پھر فروری 1995ء میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ''کلاشنکوف برآمد ہونے پر‘‘ شیخ رشید کو سات سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ ضیا دور میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر اور یوسف رضا گیلانی کے دور میں سابق صدر فاروق لغاری کے بیٹے اویس لغاری کی پانی چوری کے مقدمات میں گرفتاری عمل میں لائی گئی۔نواز شریف کے گزشتہ دور میں غلام مصطفی کھر کی اہلیہ کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ ان کے پاس دو شناختی کارڈ ہیں۔
برصغیر میں خاندانی اور سیا سی عداوت اکثر اس حد تک لے جاتی ہے کہ مخالفین پر جھوٹا‘ سچا جیسا بھی ہو‘ مقدمہ درج کرا کے اسے رگیدا جاتا ہے۔ گائوں‘ دیہات حتیٰ کہ شہروں میں بھی بسا اوقات کسی عورت کو لالچ یا دبائو کے ذریعے استعمال کرتے ہوئے مخالفین پر غلیظ قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں تاکہ اس شخص کو سنگین جرائم میں ملوث کیا جا سکے۔ کئی برسو ں تک یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے اور نجانے ایسی کتنی ایف آئی آرز دیکھنے کے مواقع ملے ہیں کہ جن میں کسی عورت نے علاقے کے تھانیدار یا کسی اہلکار پر الزام لگایا کہ اس نے میری عزت پہ ہاتھ ڈالا۔ قریب چار‘ پانچ برس قبل جنوبی پنجاب کے ایک تھانے کی وڈیو کافی وائرل ہوئی تھی جس میں ایک عورت تھانے کے اندر اپنے کپڑے پھاڑنے کے بعد پولیس اہلکاروں پر الزامات عائد کرتی دکھائی دی۔ دو سال قبل فیصل آباد میں ایک دکان میں چوری کی نیت سے گھسنے والی خواتین نے اپنے کپڑے پھاڑنے کے بعد دکانداروں پر الزام لگانا شروع کر دیا تھا؛ تاہم بعد ازاں وڈیوز سامنے آ گئیں جن میں خواتین کو دکان میں چوری کرتے اور پکڑے جانے پر چوک میں جا کر خود اپنے کپڑے پھاڑتے دیکھا گیا۔
ہر وہ پولیس اہلکار‘ جسے دیہی تھانوں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے‘ ایسے نجانے کتنے ہی واقعات کا شاہد ہو گا۔ ان مقدمات کو درج کرانا تو ایک طرف‘ انہیں ثابت کرنے کیلئے ایسی ایسی گواہیاں پیش کی جاتی ہیں کہ ایک عزت دار انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ ایسے بیشتر مقدمات میں پولیس خود بھی جانتی ہے کہ یہ مقدمہ محض مخالفین کو پھنسانے کے لیے درج کرایا جا رہا ہے اور یہ سب گواہیاں وقتی مفاد کے لیے ہیں۔ چند ماہ‘ سال بعد الزامات لگانے اور گواہیاں دینے والوں کی مخالف فریق سے صلح ہو جاتی ہے یا مقامی سیاسی دھڑے انتخابات میں جب یکجا ہو جاتے ہیں تو مزے لے لے کر بہتان تراشیوں کی یہ داستان ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔
اﷲ اورا س کے رسولﷺ نے بہتان تراشی کی سخت مذمت اور مومن کی عزت کی پاسداری کی نصیحت کی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ''جس نے کسی مسلمان پر عیب جوئی کرتے ہوئے کوئی الزام لگایا تو اسے اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر روک لیں گے یہاں تک کہ وہ اس الزام سے بری ہو جائے‘‘۔ (سنن ابودائود) اس حدیث کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس وقت تک جہنم کے پل پر روکے رکھیں گے جب تک وہ شخص اپنی کہی ہوئی بات پر متعلقہ شخص سے معافی مانگ کر اسے راضی نہ کر لے‘ بصورتِ دیگر اس کو اپنے اس گناہ کی مقدار کے مطابق پل پر لٹکنا پڑے گا۔ اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ ''جب تم سنو کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو یہ کہنے والا سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے‘‘۔ (سنن ابودائود)یعنی جو شخص لوگوں کے فساد میں مبتلا ہونے اور ان کی ہلاکت و تباہی کا ذکر کرتا ہے‘ وہ خود سب سے زیادہ ہلاکت و بربادی کا مستحق ہے۔
اگر ذاتی مخاصمت یا سیاسی مخالفت کے سبب کسی پر گند اچھالا جائے تو اس سے وقتی فائدہ تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن عنقریب یہ ذہنی تسکین ایسا وبال بن جاتی ہے کہ انسان کو ہلاکت و بربادی کا شکار کر دیتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسالت مآبﷺ نے جہنم کے مناظر کا بیان فرمایا: کچھ لوگوں کو ان کی زبانوں سے لٹکایا گیا تھا، جس پر جبرائیل علیہ السلام سے ان کی بابت پوچھا کہ یہ کون ہیں تو جواب ملا: یہ دنیا میں لوگوں پر بلاوجہ بہتان لگانے والوں میں سے ہیں (شرح الصدور)۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنے نامۂ اعمال میں نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس پر کسی پر بہتان طرازی تو کسی پر جھوٹ کا گناہ ہو گا اور سبھی نیکیاں متاثرہ لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی، حتیٰ کہ اس کا اعمال نامہ خالی ہو جائے گا، پھر متاثرہ لوگوں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی سے بدلے کی آگ اس قدر بھڑک اٹھے کہ سوائے اس کی رسوائی یا ہزیمت کے اور کوئی خیال دل میں نہ رہے تو پھر اٹھتے بیٹھے یہی سوچ غالب رہتی ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے‘ اپنے حریف کو بدنام اور دنیا بھر کی نظروں میں رسوا کیا جائے اور یہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ حالانکہ مجمع الزوائد میں روایت ہے کہ کسی پاک دامن عورت پر الزام لگانا سو برس کی عبادت کو زائل کر دیتا ہے۔ یہ بات یقینا اس شخص پر بھی لاگو ہوتی ہے جو بہتان تراشی کا محرک ہو یا بغیر تحقیق اس کو پھیلاتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''اور جو لوگ مومن مرد وں اور مومن عورتوں کو ایسے کام پر‘ جو انہوں نے نہ کیا ہو‘ اذیت دیں تو جان لوکہ انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سروں پر لاد رکھا ہے‘‘ (الاحزاب: 58)۔
الزام و بہتان معاشرے کی سلامتی اور اخلاقی اقدار کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور سماجی انصاف کو ختم کر دیتا ہے۔ جس معاشرے میں بہتان طرازی کا رواج عام ہو جائے اس کی تباہی کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے کیو نکہ جب اخلاقیات اور حیا کا تصور مٹنے لگے تو ایسے معاشرے میں اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور اگر کسی معاشرے میں لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ہی ختم ہو جائے تو پھر وہ معاشرہ کیسے باقی رہ سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved