بڑی طاقتوں کے درمیان جاری کشمکش نے ایک دنیا کو الجھا رکھا ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک اور خطے ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اِس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ مشرق اور مغرب کی کشمکش نے بیشتر عالمی امور کو بُری طرح الجھادیا ہے۔ کئی معاملات پون صدی سے اٹکے ہوئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا نے جن معاملات کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا تھا وہ تاحال برقرار ہیں۔ یہ پون صدی کی دنیا ختم ہونے کو آئی ہے اور ایک نئی دنیا جنم لے رہی ہے مگر غیر حل شدہ معاملات اب تک اپنی جگہ ہیں اور اُن کے حل کی کوئی امید بھی باقی نہیں رہی۔
چار عشروں کے دوران چین کے پنپ جانے سے مغرب کی جان پر بن آئی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے پیٹ کا مروڑ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اُنہیں دنیا بھر کے امور پر اپنی اجارہ داری کے ختم ہونے کی فکر ستارہی ہے۔ اور سوال صرف تصرف ختم ہونے کا نہیں‘ یورپ نے ڈھائی سو سال تک اور پھر امریکہ اور یورپ نے مل کر کم و بیش سو سال سے پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے اور اِس دوران جی بھرکے زیادتیاں بھی کی ہیں۔ اپنی ترقی اور خوشحالی یقینی بنانے کے لیے انہوں نے ایک دنیا کو پسماندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور یہ کوشش کامیاب رہی ہے یعنی اربوں افراد خاصے پست معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ نے اپنے پہلو میں لاطینی امریکہ کو پسماندہ رکھا ہے جبکہ یورپ نے افریقہ کے وسائل پر تصرف پاکر اُسے پسماندگی کی دلدل میں دھنسایا ہوا ہے۔ دونوں کو یہ فکر کھارہی ہے کہ اگر باقی دنیا متحد ہوکر مستحکم ہوگئی اور سٹریٹجک معاملات میں اپنی بات منوانے کے قابل ہوگئی تو کیا ہوگا۔ سیدھی سی بات ہے، جو ظلم ڈھاتے ہیں اُنہیں ظلم سہنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ انسان ہو یا کوئی معاشرہ‘ جو جیسا بوتا ہے ویسا کاٹتا ہے۔
کیا امریکہ اور یورپ کے لیے اپنا بویا ہوا کاٹنے کا وقت آگیا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں دونوں خطوں کے چند معاملات کا جائزہ لینا پڑے گا۔ امریکہ اب تک بہت مضبوط اور خوشحال دکھائی دے رہا ہے۔ یورپ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ‘ دونوں ہی خطوں کی معیشت کو غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ پر اندرونی قرضوں کا بوجھ غیر معمولی ہے۔ اُس کی معیشت کو مضبوط رکھنے میں دنیا بھر کی سرمایہ کاری نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چین، روس اور کئی دوسرے ممالک کے متمول افراد نے امریکہ اور یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو ہتھکنڈے کے طور پر بروئے کار لاکر امریکہ اور یورپ نے متعدد ممالک اور خطوں کے مالیاتی اثاثوں پر اپنا تصرف قائم کر رکھا ہے۔ مختلف اقدامات کے جواب میں اقتصادی پابندیاں عائد کرکے مالیاتی اثاثے منجمد اور ضبط کیے جاتے رہے ہیں۔ امریکہ اِس معاملے میں اب بھی کھلی من مانی پر تلا ہوا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور روس کے بھی میدان میں آ جانے سے امریکہ اور یورپ پر دباؤ بڑھا ہے۔ اور دباؤ کیا بڑھا ہے‘ پیٹ کا مروڑ بڑھا ہے بلکہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار دن رات یہ رونا روتے رہتے ہیں کہ چین کا ابھرنا دنیا کے لیے خطرناک ہے۔ یہ نہیں بتایا جارہا کہ چین کا ابھرنا اور روس سمیت کئی ممالک کا اس کے ساتھ کھڑا ہو جانا دنیا کے لیے کیونکر خطرناک ہے۔ چین کو محض کوسنے اور لتاڑنے سے کیا ہوگا؟ یہ تو کبوتر والا معاملہ ہوا جو بلی کو سامنے پاکر آنکھیں بند کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔ چین کے خلاف مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ سیاسی، مالیاتی اور سٹریٹجک تجزیوں میں چین کو محض عفریت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ معاملات کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کو اب تجزیوں میں شہنشاہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ یہ خالص غیر پیشہ ورانہ رویہ ہے جو مغربی میڈیا سے جڑے ہوئے تجزیہ کاروں اور مبصرین نے اپنایا ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ چین اپنی طاقت میں غیر معمولی اضافہ کرکے دنیا کو تباہی سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی بالا دستی کے خاتمے کے آثار کو دنیا کی تباہی کے آثار قرار دے کر ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ اور یورپ پوری دنیا کو یہ بتانے اور منوانے پر تُلے ہوئے ہیں کہ صرف اُن کی ترقی سب کے لیے خوش آئند اور مسعود ہے جبکہ چین، روس اور اُن کے ہم خیال ممالک کا ابھرنا اور پنپنا دنیا کو ختم کردے گا۔
ہم ایک ایسے عہد کے پروردہ اور عینی شاہد ہیں جس میں بڑی طاقتوں کے درمیان فیصلہ کن برتری کے لیے شدید کشمکش جاری ہے۔ یہ کشمکش اب اپنے نقطۂ عروج کو چھو رہی ہے۔ محض دو‘ ڈھائی عشروں میں طے ہو جائے گا کہ دنیا کس کے دستِ تصرف میں رہے گی‘ امریکہ اور یورپ کے‘ یا پھر چین و روس اور اُن کے ہم خیال ممالک کے۔ امریکہ کے لیے معاملات زیادہ پیچیدہ ہیں کیونکہ وہ اندرونی طور پر اچھا خاصا کمزور ہے۔ اُس کا خزانہ اِدھر اُدھر کے مال سے بھرا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے ذہین ترین اور انتہائی محنتی افراد کو اپنے ہاں بساکر امریکہ نے اپنے لیے مثالی نوعیت کے استحکام اور خوشحالی کا سامان کیا ہے۔ اِس وقت امریکی عوام میں اپنی طاقت بحال رکھنے کی وہ لگن نہیں پائی جاتی جو پائی جانی چاہیے۔ دوسری طرف یورپ کے باشندوں کو اس بات کا پوری شدت سے احساس ہے کہ دنیا بدل چکی ہے اور اب پُرانے تصورات اور اہداف کے ساتھ آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ یورپی قائدین تصادم کی راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ دنیا سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جیا جائے۔
امریکی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ کسی بھی ابھرتی ہوئی طاقت کو محض لتاڑ کر اور اُس میں کیڑے نکال کر معاملات درست نہیں کیے جاسکتے مگر پھر بھی وہ چین کے معاملے میں ایسا ہی کر رہی ہے۔ اُس کے پیٹ کا مروڑ بڑھتا ہی جارہا ہے اور دنیا بھی یہ محسوس کر رہی ہے کہ امریکی قیادت کے پاس اب چین، روس اور اُن کے ہم خیال ممالک کو لتاڑنے اور کوسنے ہی کا آپشن بچا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ چین نے اپنی صنعتی ترقی کے عمل میں ماحول کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کبھی چینیوں پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ کبھی چینی قیادت پر اندرونِ ملک بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ چین کی تیز رفتار ترقی سے عالمی معیشت اس لیے ڈگمگا گئی ہے کہ چینی قیادت نے بنیادی معاشی اصولوں کا خیال نہیں رکھا۔ چین پر ڈمپنگ کا الزام بھی پوری شدت سے عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بہت بڑے پیمانے کے پیداواری عمل نے چین کو اس قابل بنادیا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی کسی بھی آئٹم کی بہت بڑے پیمانے کی ڈِلیوری دے سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کا مینوفیکچرنگ سیکٹر چین کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے چینی باشندے بھی اپنی قومی معیشت مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔
چین سے مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کو، یورپ کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے، معقول طرزِ فکر و عمل اپنانا پڑے گی۔ محض تصادم سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ذہنیت اب ترک کرنا پڑے گی۔ چین نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی طرزِ فکر و عمل اپنائی ہے۔ یہی بہترین طریق ہے۔ یورپ اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ تمام معاملات کو میدانِ جنگ میں طے نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اشتراکِ عمل اور ہم آہنگی کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکہ کو اب اِسی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ چین کا ابھرنا کمزور خطوں کے لیے نیک فال ہے۔ وہ بیلنسنگ ایکٹ کے ذریعے امریکہ اور یورپ سے کچھ نہ کچھ کشید کرسکتے ہیں۔ چین کی طرف جھکاؤ کا اشارہ دے کر کمزور ممالک امریکہ اور یورپ کو پیغام دے سکتے ہیں کہ اب اُن کے پاس آپشن موجود ہے جسے بروئے کار لاکر وہ اپنی حالت بہتر بناسکتے ہیں۔ یہ آپشن استعمال کیا جانا چاہیے۔ مغرب (بالخصوص امریکہ) کے پیٹ کا مروڑ اِسی طور کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved