انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطیاں کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے لیکن غلطیوں سے سیکھنا اور غلطیاں نہ دہرانا ہی اصل امتحان ہے۔ غلطیاں انسان کو بہت کچھ سیکھاتی ہیں بشرطیکہ انسان غلطیوں سے سیکھنے والا ہو۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کا سیاسی کیریئر چار دہائیوں سے زائد پر محیط ہے۔ اس عرصے میں ان سے بے شمار غلطیاں بھی سر زد ہوئیں۔ ابتدا میں انہوں نے ان غلطیوں کو دہرایا لیکن خود ساختہ جلاوطنی سے وطن واپسی پر ان کے رویے میں لچک دیکھنے میں آئی ہے۔ اس لچک کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرتا چلوں۔ میاں نواز شریف نے دیکھا کہ ہر بار اداروں سے الجھنے سے صرف تناؤ ہی بڑھتا ہے‘ اس لیے مزاحمت کی آگ بھڑکانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے سامنے بانی پی ٹی آئی کا دورِ حکومت بھی ہے‘ جس میں وہ پہلے پہل ایک پیج پر ہونے کے شادیانے بجایا کرتے تھے پھر جب ان کو اندازہ ہو گیا کہ ان کے اقتدار کے دن گنے جا چکے ہیں تو انہوں نے سابق آرمی چیف کو نشانے پر رکھ لیا۔ اس کے بعد انتشار کی یہ آگ نو مئی تک جا پہنچی جس کے بعد سے اب تک پی ٹی آئی مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس کے اہم کھلاڑی ساتھ چھوڑ چکے ہیں‘ ابھی حال ہی میں شوکت ترین بھی علیحدگی اختیار کرنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے یہ ساری حقیقت میاں نواز شریف کے سامنے ہے اور شاید یہاں انہیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اداروں سے لڑائی کے نتیجے میں ہمیشہ ادارے ہی جیتتے ہیں اور ویسے بھی حالیہ مہینوں میں جو سیاسی کشیدگی رہی‘ اس سے معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے تو ایسے میں میاں نواز شریف کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ تناؤ کی کیفیت بنی رہے اور ملک متاثر ہو۔ ان سب عوامل نے میاں نواز شریف کو لچک دکھانے پر قائل کیا۔ اب وہ اداروں پر براہِ راست حملے نہیں کر رہے البتہ وہ ہلکے پھلکے شکوے شکایتیں ضرور کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ایک تلخ تجربے سے گزرے ہیں اور جو تجربے سے گزرتا ہے اس کے دل میں باتیں تو ہوتی ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد اب آگے بڑھنا چاہتے اور وہ آگے بڑھتے نظر بھی آرہے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے میاں نواز شریف statesman کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں شاید کوئی بھی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہو‘ یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقت پسندی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ابھی کچھ روز قبل میاں شہباز شریف سے جہانگیر ترین کی ملاقات ہوئی‘ اس ملاقات میں الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق کیا گیا۔ اس ملاقات کے بعد دوبارہ (ن) لیگ کا وفد جہانگیر ترین اور عون چوہدری سے ملاقات کرتا ہے۔ اب استحکام پاکستان پارٹی تحریک انصاف سے نکلی ہے اور اس کا تازہ جنم ہوا ہے اور اس وقت استحکام پاکستان پارٹی اگر (ن) لیگ کے ساتھ مل کر انتخابات میں چلتی ہے تو شاید اس کو کچھ مناسب نشستیں مل جائیں اور یہ بات جہانگیر ترین بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ (ن) لیگ کے ساتھ اتحاد کرنے کو تیار ہیں۔ پھر اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ (ن) لیگ سندھ میں بھی اتحاد سے چلنے کی کوششیں کر رہی ہے اور اس حوالے سے اس نے جی ڈی اے اور ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ بظاہر تو سندھ میں (ن) لیگ پیپلز پارٹی کے خلاف بڑا محاذ بنا رہی ہے لیکن دیکھا جائے تو اس بار میاں نواز شریف نے اپنے وژن اور سوچ میں وسعت پیدا کی ہے اور صرف پنجاب پر انحصار نہیں کیا۔ اسی طرح آپ نے دیکھا کہ میاں نواز شریف پرانی دشمنی بھول کر چوہدری شجاعت حسین سے ملنے گئے اور وہ 15سال بعد ان سے ملے۔ اب یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر صلح ہی کرنی تھی تو 15سالوں میں انہوں نے چوہدری شجاعت حسین کو کیوں نہیں منایا؟ تو اس کا جواب سیدھا سا ہے کہ میاں صاحب یہ بانپ چکے ہیں کہ ذاتی اَنا میں کچھ نہیں رکھا۔ انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ماضی میں بھی چوہدری شجاعت حسین اور میاں نواز شریف میں بڑی گہری قربت تھی۔ میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف‘ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا بیٹا کہتے تھے لیکن پھر ان کے درمیان 2002ء میں دوریاں پیدا ہو گئیں اور چوہدری شجاعت حسین نے چوہدری پرویز الہٰی سے مل کر (ق) لیگ بنا لی جس نے اُس وقت پرویز مشرف کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ پھر دوریاں اتنی زیادہ ہو گئیں کہ میاں نواز شریف نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ جب 2007ء میں میاں نواز شریف وطن واپس آئے تو اُس وقت مختلف انٹرویوز میں انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ چوہدری برادران نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا‘ اس لیے میرے دروازے ان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو گئے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلم لیگ (ن) نے (ق) لیگ کے بہت سے لوگوں کو اپنی جماعت میں واپس لے لیا لیکن چوہدری صاحبان کیلئے میاں نواز شریف نے اپنے دروازے بند کیے رکھے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور یہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے رہے۔ چوہدری شجاعت حسین کی کتاب کا بیشتر حصہ میاں نواز شریف کے خلاف لکھا گیا ہے کہ کب کب انہوں نے دھوکہ دیا لیکن اب آپ میاں نواز شریف کی لچک کا نمونہ دیکھئے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی انہوں نے چوہدری برادران کو سینے سے لگا لیا اور اب دونوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہونے جا رہی ہے۔ یہ کہانی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر ملک کیلئے کچھ کرنے کی لگن ہو تو پھر ماضی کے اختلافات کو بلاکر آگے بڑھا جا سکتا ہے اور یہی کام میاں نواز شریف کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ اگر میاں نواز شریف مصالحت کر رہے ہیں تو پھر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے انہیں کیا مسئلہ ہے؟ ظاہر ہے میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے ان کی سیاست کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پھر اس کے علاوہ نو مئی کے ذمہ داروں کے خلاف میاں صاحب کا مؤقف واضح ہے کہ وہ یہ سانحہ کرنے والوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ اس بات کا برملا اظہار دیگر لیگی رہنما بھی کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے بڑے ظرف کا مظاہرہ ضرور کیا ہے لیکن آخر وہ بھی انسان ہیں اور ان کے دل میں یہ خیال اب بھی آتا ہے کہ 2018 ء میں تحریک انصاف کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان کے ساتھ کیا کیا سلوک نہیں کیا گیا؟ رہی بات پیپلز پارٹی کی تو پیپلز پارٹی مسلسل الزام تراشیاں کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو ان پر گیٹ نمبر چار والی سیاست کا الزام لگا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ ممکن ہے بعد میں پیپلز پارٹی کے لیے (ن) لیگ کی جانب سے کچھ گنجائش نکل بھی آئے کیونکہ سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا‘ لیکن پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف‘ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ میاں نواز شریف مصالحت اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ان کی ڈیل ہو چکی ہے اور انہیں معلوم ہے کہ اگلی حکومت ان کی بننے جا رہی ہے۔ اب میاں نواز شریف کی لچک پر شک کی نگاہیں رکھنے والوں کا حق ہے کہ وہ جیسا مرضی سوچیں لیکن میری رائے میں میاں نواز شریف نے اس بار یہ ارادہ کر لیا ہے کہ وہ پرانی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے‘ ہاں نئی غلطیاں ان سے سرزد ہو سکتی ہیں۔ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو سب سیاسی قوتوں کو ایک ہونا ہوگا۔ میری رائے میں میاں نواز شریف کو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو بھی آن بورڈ لینا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ مکمل تبدیل ہوتے ہوئے میاں نواز شریف نظر آئیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved