پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی کا سلسلہ جاری ہے اور 100انڈیکس تاریخ میں پہلی بار 66ہزار کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ تقریباً 35 ملین ڈالرز کی پورٹ فولیو انویسٹمنٹ باہر سے آئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو کچھ ایسا پتہ ہے جس کا علم ہمیں نہیں ہے۔ بینک اور آئل سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اپریل 2024ء تک شرحِ سود میں کمی ہونے کی خبریں بھی سرگرم ہیں‘ اس وجہ سے بھی مارکیٹ بڑھ رہی ہے۔ پاکستانی شیئرز لیکن ابھی تک انڈر ویلیو ہیں۔ 2017ء میں مارکیٹ کی کیپٹلائزیشن تقریباً ایک ارب ڈالر تھی جو کہ اب تقریباً 20 ارب ڈالر ہے۔ اس حساب سے شیئرز کی قیمت بہتر ہونی چاہیے لیکن روپے کی قدر گرنے سے بھی اس میں مطلوب اضافہ نہیں ہو سکا۔ موجودہ حالات میں شیئرز کی قیمت بڑھنا نارمل ہے لیکن مستقبل میں کیا ہو گا‘ اس بارے مکمل یقین سے کوئی دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہے۔ مارکیٹ میں بہتری کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے۔ الیکشن کے بروقت انعقاد کی خبریں بھی مطلوب معاشی استحکام کیلئے ایک مثبت اشارہ ہیں۔ اگر انتخابات وقت پر ہو جاتے ہیں تو مارکیٹ میں بہتری برقرار رہے گی لیکن اگر یہ تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تو سٹاک مارکیٹ میں غیریقینی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بینکوں نے تقریباً 150ارب روپے کا منافع شیئر ہولڈرز کو منتقل کر دیا ہے۔ تجارتی خسارہ بھی کم ہوا ہے۔ معاشی طور پر بہتری تو آرہی ہے لیکن فی الحال اس میں عوام کیلئے فوری طور پر کچھ نہیں ہے۔ اس بہتری سے مہنگائی بھی کم نہیں ہوگی۔ بجلی‘ گیس‘ آٹے اور چاول کی مسلسل قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ملک میں قلیل مدتی مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر تقریباً 43فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ دنیا میں عوام کی بڑی تعداد سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی ہے‘ اس لیے اسے معیشت کے اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان کی آبادی تقریباً 25 کروڑ ہے مگر صرف ڈھائی لاکھ لوگ سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں سٹاک ایکسچینج کو معیشت کی مجموعی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے صرف 33خاندان ایسے ہیں جو سٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں‘ اس لیے سٹاک مارکیٹ کی بہتری سے فائدہ بھی صرف انہی 33خاندانوں کو ہوتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری انتظامی طور پر مانیٹرنگ کی وجہ سے بھی آئی ہے۔ یہ غیرحقیقی اتار چڑھاؤ نہیں ہے۔ ڈالر ریٹ میں استحکام کی وجہ سے بھی سٹاک مارکیٹ بہتر ہو رہی ہے لیکن سٹاک ایکسچینج میں بہتری کا عوام پر فوراً اثر نہیں پڑتا۔ اس کے اثرات لانگ ٹرم میں آتے ہیں۔ اگر بڑی کمپنیاں منافع کمائیں گی تو اس کے فوائد عام آدمی کو بھی منتقل ہوں گے لیکن اس کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری آنا کاروباری طبقے کیلئے اچھی خبر ہے۔ کئی سالوں سے انویسٹرز کا پیسہ سٹاک میں پھنسا ہوا تھا جو کہ اب اصل قیمت کی طرف گامزن ہے لیکن اس میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کی جانب سے تقریباً 8بڑی کمپنیوں کے شیئرز میں تجارت اور قیمت کے حوالے سے غیرمعمولی سرگرمیاں نوٹ کی گئی ہیں۔ ان کمپنیوں میں کوئی اہم ڈویلپمنٹ اگر تھی تو سٹاک ایکسچینج کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ کمپنیاں ایسی اہم ڈویلپمنٹس کی اطلاع سٹاک ایکسچینج کو فوری طور پر دینے کی پابند ہیں۔ اگر ان کمپنیوں میں کوئی خاص ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی ہے تو پھر ان کے شیئرز کیوں بڑھ رہے ہیں۔ اگر حکومت صحیح معنوں میں عام آدمی کو سٹاک ایکسچینج سے فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو عام آدمی کی اس میں دلچسپی بڑھانے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ اسی صورت میں عام آدمی بھی سٹاک ایکسچینج کا حصہ بن سکتا ہے۔
ایک طرف ملک کی آئل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی باتیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف اٹک آئل ریفائنری اس وقت بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اٹک آئل ریفائنری سے پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کا اپنا مختص کوٹہ لفٹ کرنے میں ناکام رہی ہیں اور درآمدات پر انحصار کر رہیں‘ ایسا بار بار ہوتا رہا ہے۔ اٹک ریفائنری کو اپنے پٹرول اور ڈیزل کی پیداوار کو استعمال میں لانے کے حوالے سے گزشتہ چند ماہ سے سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اپنا مختص کوٹہ بڑھانے میں ناکام رہی ہیں۔ اصلاحات کیلئے اگر کوئی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مجبوراً اٹک ریفائنری بند کرنا پڑ سکتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کے بھاری سٹاکس کو سنبھالنے کیلئے شٹ ڈاؤن ناگزیر ہو سکتا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہوگا۔ راولپنڈی میں واقع اٹک آئل ریفائنری خیبرپختونخوا اور پوٹھوہار کے علاقوں سے 100فیصد دیسی خام تیل کو پراسس کرتی ہے‘ ریفائنری سے پٹرولیم مصنوعات کے ذخیرے کی ناقص لفٹنگ ان علاقوں میں آئل فیلڈز کی بندش کا باعث بن سکتی ہے۔ اس طرح تیل پیدا کرنیوالوں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں اضافے سے زرِ مبادلہ کا بھی نقصان ہوگا اور پٹرولیم مصنوعات کی نقل و حمل کی لاگت میں بھی اضافہ ہو گا جس کی ادائیگی صارفین کو پٹرولیم مصنوعات کی زائد قیمتوں کی صورت میں کرنا پڑے گی۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے اس اقدام کی وجہ سے اٹک ریفائنری کیلئے 80فیصد کی کم صلاحیت پر بھی کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چار ماہ کے فروخت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اٹک ریفائنری کے سیلز لفافے میں او ایم سیز کی طرف سے فروخت کیا گیا صرف 38فیصد پٹرول اور 47فیصد ڈیزل اٹک ریفائنری سے لفٹ کیا گیا اور باقی مقامی یا درآمدی ذرائع سے لیا گیا جس سے نہ صرف زرِ مبادلہ کا نقصان ہوا بلکہ اندرون ملک فرائٹ ایکولائزیشن مارجن میں بھی اضافہ ہوا جو صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا‘ گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر اور پنجاب کے شمالی علاقوں سمیت اٹک ریفائنری کے زیرِ انتظام علاقوں میں پٹرول کی کل فروخت اگست میں ایک لاکھ 48ہزار 600ٹن رہی جبکہ اٹک ریفائنری نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو 63ہزار ٹن کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے صرف 57ہزار ٹن ایندھن لفٹ کیا۔ ستمبر میں کل فروخت ایک لاکھ 14ہزار 139ٹن رہی اور اٹک ریفائنری نے آئل کمپنیوں کو 54ہزار ٹن کی پیشکش کی لیکن انہوں نے صرف 43ہزار ٹن ہی لفٹ کیا۔ نومبر میں اس خطے میں کل فروخت ایک لاکھ 17ہزار 485ٹن تک پہنچ گئی اور اٹک ریفائنری نے آئل کمپنیوں کو71ہزار ٹن کی پیشکش کی جبکہ انہوں نے صرف 51ہزار 400ٹن ہی لفٹ کیا۔ اوگرا اس حوالے سے کم سے کم یہ کر سکتا ہے کہ وہ اٹک ریفائنری کے سپلائی ایریا میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی سپلائی کا آڈٹ کرائے تاکہ نادہندہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی نشاندہی کی جا سکے جو آئل ریفائنری سے پٹرولیم مصنوعات لینے کے بجائے درآمدی مصنوعات لا رہی ہیں۔ اس طرح نہ صرف زرِمبادلہ کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ اندرون ملک فرائٹ ایکولائزیشن مارجن کی غلط تخصیص بھی ہو رہی ہے۔ جنوبی علاقوں سے پانچ ہزار بیرل یومیہ کنڈینسیٹ خام تیل مختص کرنے میں تاخیر اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے مصنوعات کی ناقص لفٹنگ کی وجہ سے اٹک ریفائنری کو ماہانہ تقریباً 70کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اٹک ریفائنری کے بھاری پیداوار سے پٹرول اور ڈیزل کی درآمد کو کم کرکے قیمتی زرِمبادلہ کی بچت ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف سے اچھی خبر آئی ہے۔ پاکستان کیساتھ 3ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی معاہدے کے پہلے جائزے میں عملے کی سطح پر معاہدے کی منظوری کیلئے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 11جنوری کو ہوگا۔ وزارتِ خزانہ نے عملے کی سطح کے معاہدے کی منظوری یقینی بنانے کیلئے دسمبر کے آخری ہفتے میں اجلاس کی تاریخ کے حوالے سے پوری کوشش کی تھی تاہم کرسمس اور نئے سال کی تعطیلات کی وجہ سے ایگزیکٹو بورڈ کے اراکین دسمبر کے آخری اور جنوری کے پہلے ہفتے میں دستیاب نہیں ہوں گے۔ آئی ایم ایف جائزہ مشن نے حکام سے مارکیٹ کے مطابق شرحِ تبادلہ پر واپس آنے کا مطالبہ کیا تھا اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی‘ اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور مشکل عالمی مالیاتی حالات کے سبب پیدا ہونیوالے خطرات پر روشنی ڈالی تھی اور حکام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس سے نمٹنے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved