امریکہ نے ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کردی ہے۔متحدہ عرب امارات کی جانب سے سکیورٹی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد کی حمایت میں 15 میں سے 13 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا۔امریکہ‘ جو خود کو اقوامِ عالم میں انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے تووہ اسرائیلی بربریت پر آنکھیں بند کیوں بن کیے ہوئے ہے؟مغربی طاقتوں کی آشیر باد کی وجہ سے ہی شاید اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ غزہ میں جب تک آخری فلسطینی کو ختم نہیں کر لے گا اس وقت تک ''ہولو کاسٹ‘‘ جاری رکھے گا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ امریکہ‘ جاپان‘ برطانیہ اور یورپی ممالک‘ جنہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے مسلم حکمرانوں کے اپنے مذہب اور دین کی پیروی کرتے ہوئے بنائے گئے قوانین دن رات چین نہیں لینے دیتے اور ان قوانین کے خاتمے کے لیے وہ مشروم کی طرح جا بجا کہیں انسانی حقوق تو کہیں مذہبی رواداری کے نام پر بنائی گئی تنظیموں کے ذریعے مسلم ممالک پر پابندیوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے ناطقہ بند کیے رکھتے ہیں‘ کیا انہیں اسرائیل کا یہ ظلم‘ بربریت اور سفاکیت نظر نہیں آتی؟ اسرائیلی حملوں میں اب تک ساڑھے 17 ہزار سے زائد مظلوم فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں جبکہ 46 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔اسرائیلی فورسز کی بربریت اور وحشیانہ کارروائیوں کے نتیجے میں کم از کم 7600 افراد گمشدہ ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ تباہ شدہ عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔فلسطین کی وزارتِ صحت کے ترجمان کے مطابق شمالی غزہ کے تمام ہسپتال بند ہو چکے ہیں۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی غزہ کے رہائشیوں میں بھوک کی شرح سنگین حد تک بڑھ چکی ہے‘غزہ کے 97 فیصد رہائشیوں کو مناسب مقدار میں خوراک دستیاب نہیں۔اسرائیل اور نیتن یاہو نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ غزہ سے آخری فلسطینی کو بموں اور گولیوں سے ختم کرنے کے بعد کہیں سے بھی‘ کوئی بھی آواز فلسطین کے حق میں نہیں اٹھے گی‘ تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ اس کے بعد دنیا کے ہر ملک سے فلسطینیوں کے حق میں پہلے سے بھی زیادہ آوازیں اٹھنے لگیں گی جس کا ثبوت دنیا کے ہر ملک میں اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف نکلنے والی ریلیاں ہیں جن میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
کالم یہاں تک پہنچا تو ٹی وی پر چلنے والی اُس خبر نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی جس میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نئی نسل کے ایک پسندیدہ نوجوان سیاست دان‘ جو ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی بھی رہ چکا ہے‘ نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا ہے۔ ایسے نوجوان ملکی سیاست میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہیں‘ مگراس طرح کے کتنے ہی نوجوان چہرے سیاست سے دور ہو چکے ہیں۔ ان کے سیاست سے کنارہ کش ہونے پر کچھ دکھ بھی ہوا کہ خاندانی اور موروثی سیاست کو دفن کرنے کے لیے عام لیکن پڑھے لکھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی ملک کی نو جوان نسل ملکی سیاست میں داخل ہو رہی تھی‘ لیکن اب جس رفتار سے نوجوان سیاست دان سیاست سے باغی ہو رہے ہیں‘ اس سے لگ رہا ہے کہ شاید چند ایک ہی ایسے نوجوان سیاست دان باقی رہ جائیں گے جو عملی سیاست میں کوئی متحرک کردار ادا کرنے کے متمنی ہوں گے۔ یہ نئی نسل جو اپنے ذہنوں کو نئے حالات اور واقعات سے منور کر چکی تھی‘ شاید اب پھر سے پرانی ڈگر پر چلنا شروع ہو جائے اور ایسے لوگوں کی مطیع و مرید بن جائے جنہیں سوائے اپنے خاندان اور کاروبار کے کوئی دوسرا عزیز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ ہماری ناکامیوں‘ نامرادیوں اور مایوسیوں کی سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرے کا دوغلا پن ہے۔ نہ تو ہم کھل کر گناہ کرتے ہیں اور نہ ہی مکمل ثواب کمانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارا یہ دوہرا معیار ہماری ذاتی زندگی سے لے کر قومی سطح تک محیط ہے۔ سبھی یہی چاہتے ہیں کہ آخرت بھی خراب نہ ہو اور دنیا میں جنت کے مزے بھی لے لیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی کشمکش میں سبھی اپنی دونوں راہیں کھوٹی کر بیٹھتے ہیں‘ یعنی ان کی حالت کچھ ایسی ہو جاتی ہے کہ: نہ خدا ہی ملا نہ وصال ِصنم‘ نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے۔
اگر ملک میں سیاسی نظام ہی برقرار رکھنا ہے تو پھر سیاستدانوں کے بغیر سیاست کیسے چلے گی؟ پاکستان کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ ایوب خان کے بعد قوم مسلسل ایک آزمائش کا شکار رہی ہے۔ اگر کوئی ایک روشن خیالی کا جھانسا دیتا تھا تو دوسرا مذہبی کارڈ استعمال کرتا تھا حالانکہ مذہب ہمیں مساوات کا حکم دیتا ہے لیکن بنیادی مذہبی تعلیمات سے عاری افراد نے مذہب کارڈ استعمال کرتے ہوئے جتنا مذہب کو نقصان پہنچایا اتنا کسی نے نہیں‘ یہاں یہی سب کچھ چلتا رہا۔ بھٹو نے اپنے تئیں عوام کو شعور دیا‘ سیکولر ازم اور لبرل ازم کے نعرے لگنے لگے‘ فنونِ لطیفہ اور ثقافت کے نام پر نئی نئی دنیائیں دریافت ہونے لگیں تو دوسری طرف مذہب کارڈ استعمال کرنے والے بھی خوب متحرک ہو گئے‘ اس کے بعد بھٹو کو جس انجام سے دوچار ہونا پڑا‘ اس سے سبھی واقف ہیں۔ اس کے بعد ضیا الحق کا دور آ گیا جنہوں نے اسلام کے نفاذ کی کوششیں شروع کر دیں لیکن یہ کوششیں باتوں اور سیاست کے دائو پیچ سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ ہمارے میڈیا اور سیاست سے متعلق لوگ غیر جمہوری حکمرانوں کو اکثر طالع آزما کہہ کر پکارتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو اصل طالع آزما تو منتخب حکمران تھے جو ہمیشہ قیمتیں لگا کر اپنی اپنی باریاں پانے کی دوڑ میں شامل رہے اور اقتدار میں آنے کے بعد جھولیاں بھر کر چلتے بنے۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔ پھر پرویز مشرف آئے جو خود کو عقلِ کل سمجھتے تھے۔ ان کا پہلے دن سے عہد تھا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے مگر ا نہیں پتہ نہیں تھا کہ ان سے بھی بڑی بڑی غلطیاں سر زد ہوں گی۔ کہتے ہیں کہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی مگر ملکِ عزیز میں نہ صرف یہ چڑھتی ہے بلکہ پکتی بھی رہتی ہے۔ اب دیکھئے کہ میاں نواز شریف چار سال بعد سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ملک میں واپس لوٹ آئے ہیں کیونکہ انہیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ عام انتخابات میں ان کا حصہ لینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندہ رہنے کے لیے آکسیجن۔ شریف خاندان مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کی شکل میں‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی وزارتِ اعلیٰ کا دس سالہ مشترکہ حصہ نکال کر‘ کم ازکم تین عشروں تک اس ملک کے عوام کی قسمت کا مالک رہا ہے۔ اس کے باوجود اس سیاسی خاندان کے ووٹرز و سپورٹرز کے علاوہ اس کے جانشینوں کی تقریروں کا خلاصہ یہی چلا آرہا ہے کہ میاں نواز شریف نے موٹر ویز‘ سڑکیں اور پل بنائے ہیں۔ اگر تین عشروں میں چند ایک سڑکیں بنا بھی دی ہیں تو عوام پر کون سا احسان کیا ہے‘ یہ حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ (ن) لیگ کے حکومتی ادوار کا موازنہ اور مقابلہ ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے حکومتی ادوار سے کیا جاتا رہا ہے۔ پہلی دفعہ ہوا کہ ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی اور جماعت سے کیا جا رہا ہے‘ اس لیے اگر ابھی تک (ن) لیگ کے ہاتھ میں وہی سڑکوں‘ پلوں اور موٹر ویز کارڈ ہے تو (ن)لیگ کو اپنی کارکردگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس محدود کارکردگی کے ساتھ یہ جماعت عام انتخابات میں کامیابی کی دعویدار کیسے ہو سکتی ہے؟ بہر حال عوام کو عام انتخابات کا بے صبری سے انتظار ہے جس میں وہ اپنی پسندیدہ جماعت اور قیادت کا انتخاب کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved