آج کی دنیا وہاں کھڑی ہے جہاں سے ہر راستہ صرف اور صرف تحقیق کی طرف جاتا ہے۔ ماحول ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ جو بھی تحقیق سے بچ کر چلنے کی کوشش کرتا ہے وہ مارا جاتا ہے۔ تحقیق کا تصور بھی بدل گیا ہے۔ ایک دور تھا کہ جب کسی کو محقق قرار دیا جاتا تھا تو لوگ پلٹ کر دیکھتے تھے۔ تحقیق ایسے پیچیدہ عمل کا نام تھا جس کیلئے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے تھے۔ معلومات اور علم کے ذرائع محدود اور مہنگے تھے۔ کسی بھی معاملے میں پوری شرح و بِسط کے ساتھ کچھ جاننے کیلئے لوگ کتب خانوں کا رخ کرتے تھے یا پھر اہلِ علم و فن تک پہنچتے تھے۔ آج تحقیق قدرے آسان ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی مدد سے کسی بھی موضوع پر کسی بھی شکل میں مواد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں تحقیق واقعی در در کی خاک چھاننے کا نام تھا۔ کسی مطلوب کتاب کے حصول کیلئے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑتا تھا۔ کتب خانوں سے لی ہوئی کتب واپس کرنے جانا پڑتا تھا۔ اس سے پہلے یہ معلوم کرنا پڑتا تھا کہ مطلوب کتاب یا کسی اور شکل میں مواد ہے کہاں۔ اہلِ علم و فن تک پہنچ کر اُن سے گفتگو کے ذریعے بھی بہت کچھ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ تحقیق میں آسانی کا سامان ہو۔
آج معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر مطلوب مواد محض ایک کلک کی دوری پر ہے۔ انٹرنیٹ پر لاکھوں کتابیں کھنگالی جا سکتی ہیں۔ اُنہیں ڈاؤن لوڈ کرکے محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر استفادہ کرنا مشکل نہ رہے۔ یہ بہت بڑی آسانی ہے مگر یہی بہت بڑی مشکل بھی ہے۔ مشکل اس لیے کہ انٹرنیٹ پر مواد بہت زیادہ ہے۔ کہنے کو یہ علم کا دور ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ علم کی بہتات کا دور ہے۔ انٹرنیٹ پر مطلوب مواد تلاش کرنا یا کسی موضوع پر تحقیق کی غرض سے حقائق تک پہنچنا خاصا جاں گُسل مرحلہ ہے۔ ہر موضوع پر اتنا کچھ موجود ہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق مواد تلاش کرنا ذہن کو تھکا دیتا ہے۔ انٹرنیٹ پر مواد کے پہاڑی سلسلے ہیں جنہیں کھود کر اپنی مرضی کی چیز نکالنا پڑتی ہے۔ وہ زمانے ہوا ہوئے جب تحقیق کا شوق کسی کسی کو ہوا کرتا تھا اور اس شوق کو پروان چڑھانے کیلئے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی تھی۔ اب تحقیق محض شوق کا معاملہ نہیں رہا۔ یہ تو ضرورت ہے اور ضرورت بھی ایسی کہ جس کے بغیر کام چل نہ سکے۔ تحقیق انسان اسی وقت کرتا ہے جب حقیقت تک پہنچنا آسان نہ ہو۔ آج یہی تو چیلنج درپیش ہے۔ ہم کسی بھی معاملے میں حقیقت تک آسانی سے نہیں پہنچ سکتے۔ ایسے میں لازم ہے کہ اپنی مرضی کا مواد جاں فِشانی کے ذریعے تلاش کیا جائے۔ اس کیلئے انٹرنیٹ کی زمین میں خاصی گہرائی تک کھدائی کرنا پڑتی ہے۔
فی زمانہ ہر معاملے میں انتخاب کا مرحلہ خطرناک حد تک درپیش رہتا ہے۔ ایک روسی منحرف کی زندگی سے متعلق بنائی جانے والی فلم ''ماسکو آن ہڈسن‘‘ کا ہیرو جب سابق سوویت یونین سے فرار ہونے کے بعد نیو یارک میں سکونت اختیار کرتا ہے تو ایک سپر مارکیٹ میں قدم رکھتا ہے۔ وہاں وہ ایک ہی آئٹم کی ورائٹی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ اس کا ذہن کام کرنے سے انکار کردیتا ہے اور وہ غش کھاکر گر پڑتا ہے۔ یہ 40سال پہلے کا معاملہ تھا۔ تب کھلے بازار کی معیشت والے جمہوری معاشروں کے عام آدمی کو محسوس نہیں ہوتا تھا کہ کبھی ایسا زمانہ بھی آسکتا ہے کہ وہ انتخاب کے مرحلے میں الجھ کر گر پڑے۔ وہ زمانہ آچکا ہے اور ہم اسی میں جی رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں عام آدمی کیلئے اپنے آپ کو وقت سے ہم آہنگ رکھنا انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔ وہ دن رات ایک کرکے زندگی کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتا۔ متعلقین کی ضرورتیں پوری کرنے کے عمل ہی میں وہ کھپ جاتا ہے۔ یہ عمل اس لیے بھی پیچیدہ ہو چکا ہے کہ ہر معاملے میں آپشن بہت زیادہ ہیں اور انتخاب کا مرحلہ دماغ کی چُولیں ہلا دیتا ہے۔
انتخاب کی اُلجھن نے ذہنوں کو ایسا گھمایا ہوا ہے کہ وہ ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ہر معاملے میں بہتات سب سے بڑی مصیبت بن کر سامنے کھڑی ہے۔ وقت کم ہے اور انتخاب کی اُلجھن وقت کو مزید گھٹا رہی ہے۔ آج پوری دنیا میں عام آدمی شدید اُلجھن کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وقت بھی کم ہے اور مالیاتی وسائل بھی بہت محدود ہیں جبکہ دوسری طرف خواہشات بھی لامحدود ہیں اور ان کی تکمیل کیلئے دستیاب آپشن بھی لامحدود ہیں۔ ایسے میں انتخاب کے مرحلے سے گزرنا خاصا جاں گُسل ہے کیونکہ خواہشات زور مارتی رہتی ہیں اور انسان غلط فیصلوں کی طرف لڑھک جاتا ہے۔ اب معمولی فیصلوں میں بھی غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو زندگی غیر متوازن ہونے لگتی ہے۔ گزرے ہوئے کسی بھی زمانے کے انسان کے مقابلے میں آج کے انسان کی نفسی اُلجھنیں کہیں زیادہ ہیں۔ ذہن پر دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ فکر و نظر کو خاطر خواہ اہمیت نہ دینے کا عادی عام آدمی دن رات الجھا رہتا ہے۔ وہ اپنی ذہنی اُلجھن دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں کہ عام آدمی ذہنی اُلجھن دور کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں بلکہ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ اس کا ذہن اُلجھا ہوا ہے اور اسے سلجھانے کی شعوری کوشش ناگزیر ہے۔
آج کا انسان لازمی تحقیق کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔ ہر معاملے میں اسے فیصلے کرنے کیلئے مختلف آپشنز پر غور کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے امور کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے مختلف طریقے دستیاب ہیں۔ بہترین حل تلاش کرنا اب خاصی مشقّت اور جاں فِشانی کا کام ہے۔ کل کا طالب علم بیشتر معاملات میں خاصی آسانی کا حامل تھا۔ درسی کتب تک محدود رہ کر بھی وہ بہت کچھ سیکھ لیتا تھا۔ فی زمانہ طلبا و طالبات کیلئے ناگزیر ہو چکا ہے کہ نصابی یا درسی کتب کیساتھ ساتھ دنیا بھر میں شائع ہونے والے مواد پر بھی نظر رکھیں تاکہ خود کو عملی زندگی کیلئے بہتر طور پر تیار کرنا آسان ہو سکے۔ طلبا و طالبات کو امتحانی تیاری کیلئے بھی بہت پڑھنا پڑتا ہے۔ گریڈنگ سسٹم نے ذہنوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
اب کسی بھی شعبے میں قدم رکھنا تو بہت آسان ہے تاہم آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔ ہر شعبے میں پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ معیشت کے ہر شعبے میں تحقیق کا بازار گرم ہے جس کے نتیجے میں مقابلے کی فضا پروان چڑھتی رہتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں اپنے آپ کو پروان چڑھانا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چلا ہے۔ سوال صرف مسابقت کا نہیں‘ اپنے آپ کو جدید ترین پیش رفت سے باخبر رکھنے کا ہے۔ اس کیلئے انٹرنیٹ سے جُڑے رہنا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے تاکہ متعلقہ معلومات تیزی سے حاصل ہوتی رہیں۔ آج نئی نسل کو عملی زندگی کیلئے ڈھنگ سے تیار کرنے کی خاطر لازم ہے کہ اُسے انتخاب کے مرحلے سے بطریقِ احسن گزرنا سکھایا جائے۔ مسائل کی کثریت اور وسائل کی کمیابی نے معاملات کو ایسا الجھایا ہوا ہے کہ ڈور کا سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ جب تک ڈور کا سِرا ہاتھ نہ آئے تب تک اسے سلجھایا نہیں جا سکتا۔ یہی سبب ہے کہ آج دنیا بھر میں عام آدمی سمجھ ہی نہیں پاتا کہ زندگی کو متوازن کس طور رکھا جائے۔ زندگی بسر نہیں کی جارہی بلکہ گزرتی جارہی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جس طریق سے زندگی بسر کر رہے ہیں اس پر ان کا کچھ اجارہ نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ زندگی کو متوازن رکھنے کے عمل میں وہ اُس قدر الجھ گئے ہیں کہ خود انہیں بھی یقین نہیں کہ وہ کبھی اپنے آپ کو متوازن زندگی کی منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ یہ وقت ذہن کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں الجھانے کے بجائے عقلِ سلیم کو بروئے لاکر اپنے اہداف و مقاصد پر نظر رکھنے کا ہے۔ تساہل کی گنجائش ہے نہ غلطی کی۔ ماحول کو دیکھتے رہنا ہے اور بہترین کی جستجو ترک نہیں کرنی۔ قصہ مختصر‘ انفرادی سطح پر تحقیق کا بازار گرم رکھنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved