ہم جن انقلابوں کا خواب کبھی دیکھتے تھے‘ وہ تو یا تو چرا لیے گئے‘ یا اندھیروں کی نذر ہوگئے۔ اور پھر اس زمانے میں ان کے بارے میں کچھ لکھنا یا کہنا بھی ماضی کے پرانے قصوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ہم سیاسی انقلابوں کے داعی تھے۔ ہمارے ہیرو بھی بڑے بڑے انقلابی کردار تھے جن سے ہم نے بہت امیدیں وابستہ کی تھیں۔ گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں نوجوان جس ملک میں بھی تھے‘ کالجوں اور جامعات میں اپنی درسی کتب کے علاوہ سیاسی نظریات اور تحریکوں کے بارے میں نہ صرف پڑھتے تھے بلکہ ایک بڑی تعداد میں ان سے وابستہ بھی تھے۔ سیاست اور ریاست کے مقاصد اور ان کی ساخت‘ غالب حکمران طبقات‘ کشمکش‘ بیداری‘ شعور اور فعالیت موضوع ہوا کرتے تھے۔لیکن پھر وقت کا چلن بدلنے گا‘ ترجیحات اور ترغیبات نے بہت سی راہیں بدل دیں‘ کچھ نئی بھی تراش ڈالیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے دنیا میں بہت کچھ وہ نہیں رہا جسے ماضی میں اقوام نے اپنی منزل قرار دیا تھا۔ ہم جن انقلابوں سے وابستہ تھے‘ وہ تو نہیں آئے مگر خموشی سے کئی انقلاب برپا ہوئے اور تواتر سے آرہے ہیں۔ ہر جگہ معاشروں کا رنگ ڈھنگ‘ انسانوں کے رہنے کے طور طریقے تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ انقلابی تو ہم نہیں رہے کہ بہت کچھ اپنی نظروں سے گزرا ہے مگر ہمارابنیادی نظریہ اور اس کی دلیل پرانی ہے۔ وہ یہ ہے کہ سماجی اور معاشی ترقی میں ریاست اور سیاست کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر یا جمود کا شکار ملک دیکھ لیں‘ ریاست اور سیاست جن حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے‘ وہی اس کی سمت اور منزل کا تعین کرتے ہیں۔ جہاں کردار‘ نصب العین اور کچھ گزرنے کا جذبہ تھا وہاں ملک اور معاشرے تیزی سے منزلیں طے کرتے بہت آگے نکل گئے۔ آج کل کے نیو لبرل ازم کی عالمی معیشت میں بھی ریاست کا کردار کم اہمیت کا حامل نہیں۔معاشرے میں امن و سکون قانو ن اور انصاف کی حکمرانی قائم رکھنے کے علاوہ وژن اور سمت متعین کرنا بھی اس کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔
آزادی کے وقت جو ریاست ہمیں ملی وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے تو نوآبادیاتی تھی مگر ہر شعبے میں کسی نہ کسی حد تک فعال تھی۔ زراعت سے لے کے ریلوے تک کا ڈھانچا موجود تھا۔ کالجز‘ جامعات‘ نوکر شاہی‘ عدالتیں‘ قانون‘ تعمیر اور ترقی کی راہیں بنانے کے لیے سب ادارے مضبوط اور مؤثر تھے۔ ہمیں سیاست بازی‘ سیاست گری اور سیاسی جنگیں لڑنے اور محدود سوچ اور استعداد رکھنے والے حکمرانوں نے کسی اور سمت میں ڈال دیا ہے۔ اگر بہت کچھ بگڑا‘الجھااور بے ترتیب قومی ماحول دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے ان مہربانوں کے طفیل ہے جو موروثی سیاست کے امین ہیں۔جہاں ہمیں کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے وہ سیاست میں نہیں بلکہ عام افراد اور معاشرے میں ہے۔ حکمران ہمیں ڈبوتے بھی ر ہیں لیکن ابھرنے کی صلاحیت افراد اور معاشرے میں کم تو ہو سکتی ہے‘ ختم نہیں ہو سکتی۔ اس دنیا میں جدت پسندی‘ کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کے تمام شواہد موجود ہیں۔ سیاسی جنگوں کی طویل سیاہ رات نے ایسے راستے محدود تو کیے ہیں مگر جو یقینِ کامل اور محکم ارادوں کے ساتھ چلتے رہے ہیں‘ جہاں کہیں باصلاحیت اور باکردار لیڈرشپ کسی بھی ادارے کو ملی ہے وہاں انقلاب خاموشی سے اپنے اثرات سارے معاشرے اور معیشت پر چھوڑتے رہے ہیں۔ سیاست کے غالب رنگ اور روزانہ کی لڑائیوں نے ہمارے سماجی اور علمی مکالموں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہمارا دھیان اب ان انقلابوں کی طرف جاتا ہی نہیں۔
زراعت میرا جزوی پیشہ بھی ہے اور زندگی بھر کا شوق بھی اور جو مسرت اطمینان اور سکون ہاتھ سے لگائے ہوئے درختوں کے جھنڈ میں بیٹھ کر‘ خود اگائے لیمن گراس کے قہوے میں ہے‘ وہ شاید کسی اور میں نہیں ملے گا۔ یہی شوق بار بار دیہاتوں‘ باغوں اور جنگلوں کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ موقع ملے‘ فرصت کے کوئی دن میسرآئیں تو فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کی زیارت کی جائے۔ رابطے تو ایک عرصہ سے قائم تھے۔ جب کبھی زراعت و باغبانی کے لیے مشورے کی ضرورت پڑی تو اس تاریخی جامعہ کے اساتذہ سے درخواست کی اور ان کی رہنمائی اور جدید ریسرچ سے ہمیشہ استفادہ کیا۔ ڈاکٹر شوکت علی صاحب کی طرف سے طالب علموں سے گفتگو کرنے کا دعوت نامہ ملا توگزشتہ ہفتے یہ دیرینہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔ کسی ادارے کے بارے میں آپ جو کچھ بھی پڑھ لیں‘ معلومات اکٹھی کرتے رہیں لیکن وہ جانکاری حاصل نہیں ہوسکتی جو وہاں جاکر خود مشاہدہ کرنے سے ہوتی ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس جامعہ میں تقریباً 30 ہزار طلبہ اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔ سب سے زیادہ خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ ان میں سے 50 فیصد سے زیادہ خواتین زیر تعلیم ہیں۔ صبح سویرے اس وسیع وعریض کیمپس کے طول و عرض میں واک کی تو ایسا لگا جیسے یہ خواتین کی یونیورسٹی ہے۔ زرعی یونیورسٹی کا یہ پہلو حیرت انگیز تھا۔مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے جہاں کہیں بھی مواقع پیدا ہو رہے ہیں‘ خواتین بڑی تعداد میں داخل ہو رہی ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں تو زرعی یونیورسٹی میں خواتین کی اتنی موجودگی میرے لیے تو یہ حیران کن بات تھی۔ میری ایک اور غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔ خیال تھا کہ میری اپنی جامعہ میں طلبہ کی کونسلز ہیں جو ثقافت‘ موسیقی اور ڈراموں سے لے کر ادب اور کئی دیگر شعبوں میں سرگرم عمل ہیں۔ یہاں ایسی انجمنیں ہیں جو تخلیقی اور تفریحی میدانوں میں طلبہ کو مواقع فراہم کرتی ہیں۔ زیادہ حیران کن تو زرعی شعبے میں اس جامعہ کی تاریخی خدمات ہیں جن کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے وہ وسائل فراہم نہیں کیے جن کی ضرورت زراعت کے میدان میں تحقیق کے لیے تھی۔ ہماری سب سے بڑی نااہلی اپنی ترجیحات ہیں۔ اربوں ڈالرز کی زرعی اجناس درآمد کرنے کے لیے تو حکمران پرجوش ہوتے ہیں مگر زرعی ریسرچ کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔اور اس کی وجہ آپ کو معلوم ہی ہے‘ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے دھندوں میں بہتوں کا بھلا ہوتا ہے‘ مال کئی ہاتھوں سے گزرتا ہوا مختلف جیبوں میں جا سماتا ہے۔ حیران ہوں کہ مشکل مالی حالات کے باوجود فیصل آباد زرعی یونیورسٹی نے پہلے زرعی انقلاب کو ممکن بنایا اور اب دوسرے کے لیے ہمہ تن مصروف اور تیار ہے۔ گندم‘ کپاس اور سویابین کی آنے والے سالوں میں جو اقسام متعارف ہونے کو ہیں ان کے حیران کن نتائج نکلیں گے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان نہ صرف ممتاز استاد اور منتظم ہیں بلکہ تحقیق میں بھی ان کا بڑا نام ہے۔ ان کی سربراہی میں آموں کی دس نئی اقسام تیار ہوئی ہیں جو رنگ‘ ذائقے اور سائز کے اعتبار سے منفرد ہیں اور عالمی منڈی کے رجحان سے مطابقت رکھتی ہیں۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ زرعی تحقیق کے مثبت نتائج کا شتکار تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟ اس کی ذمہ دار ہمارے صوبائی حکومتوں کی نوکر شاہی ہے۔ ہر ضلع اور تحصیل میں زراعت کا محکمہ تو ہے مگر جمود اور بے کاری کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ جب تک یہ فعال نہیں ہوں گے اور زرعی تحقیق خصوصا ًبیجوں کی تیاری کے لیے نجی شعبہ متحرک نہیں ہوگا‘ فوائد محدود رہیں گے۔ خوشی کی بات ہے کہ کچھ تو چراغ ہیں جو اس اندھیرے میں بھی روشن ہیں‘ اور جن کی کرنیں آج بھی تاریک افق سے پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔ انہی کی وجہ سے نخلِ امید ابھی ہرا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved