پاکستان کو اس وقت سیاسی اور معاشی شعبوں میں سنگین مسائل کا سامنا ہے‘ جنہوں نے عام لوگوں کو برُی طرح متاثر کیا ہے۔ اہم سیاسی کھلاڑی اور ریاستی ادارے ریاست اور معاشرے کے معاملات کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کرکے ان مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔ انہیں جمہوریت اور آئین کے فریم ورک کے اندر سیاسی اشتراک اور سیاسی طور پرایک دوسرے کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر ایک کو ریاست اور معاشرے کے مسائل کے بارے میں اپنے نقطہ نظر میں خود غرضی کے بجائے‘ باہمی طور پر متفقہ نقطہ نظر اپنانا چاہئے اور سیاسی حریف یا ریاستی عہدیداروں کے غصے کا سامنا کرنے والوں کو خارج کرنے کی موجودہ کوششوں کو ترک کرنا چاہئے۔
پاکستان کے سیاسی اور معاشی چیلنجز کے پیش نظر انتظامی اور عدالتی اختیارات کے ذریعے کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے خارج کرنے کی پالیسی 2024ء میں پاکستان کے مسائل میں اضافہ کرے گی۔ اس سے ملکی اور بین الاقوامی دونوں تناظر میں آئندہ انتخابات کی ساکھ پر منفی اثر پڑے گا۔ پاکستان کو سیاسی ہم آہنگی‘ استحکام اور سیاسی مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی مفاہمت‘ رواداری اور سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اگر باہمی عدم اعتماد‘ محاذ آرائی اور ریاستی مشینری کے متعصبانہ رجحانات برقرار رہتے ہیں توپاکستان کے سیاسی اور معاشی چیلنجز سے مؤثر طور پر نمٹنے کیلئے کافی صلاحیت جمع کرنے کا امکان نہیں ہے۔
ان اصلاحات کو متعارف کروا کر معاشرے میں موجود مایوسی کم کی جا سکتی ہے جو موجودہ سیاست کی نوعیت کو تبدیل اور عام لوگوں کو راحت فراہم کرسکتی ہیں۔ پاکستان کو سیاسی ہم آہنگی اور جمہوری ثقافت کی ضرورت ہے جو سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کے درمیان آئین پسندی‘ قانون کی حکمرانی اور باہمی احترام پر زور دیتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنے حریفوں کے ساتھ ''دشمنوں‘‘ جیسا برتاؤ نہیں کرنا چاہئے اور انہیں منصفانہ‘ آزادانہ اور مساوی مواقع کے انتخابی عمل کے ساتھ سویلین سیاست کو ترجیح دینی چاہیے۔ صرف ایسی سیاست ہی اچھی حکمرانی‘ سیاسی تسلسل‘ اور سیاست کی مستقبل کی سمت کے بارے میں پیشگوئی کو یقینی بنا سکتی ہے۔
کمرشل اور کاروباری اخلاقیات کو سیاست پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ سیاست کو تجارتی ازم کے ساتھ ملانے سے سیاست کا مقصد عوامی خدمت سے مادی فوائد حاصل کرنے میں بدل جاتا ہے‘ اور منافع کا مقصد اس پر حاوی ہوجاتا ہے‘یوں سیاست ایک تجارتی سرگرمی بن جاتی ہے اور سیاسی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد زیادہ پیسہ کمانے کیلئے سیاست میں پیسہ خرچ کرتی ہے۔ یوں بدعنوانی‘ ریاستی طاقت اور وسائل کا غلط استعمال اور اقربا پروری بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ ذاتی فوائد کا انحصار اقتدار میں رہنے پر ہے‘ اس طرح سیاست آبادی کے امیر اور متمول طبقات کے درمیان اقتدار کیلئے وحشیانہ جدوجہد میں بدل جاتی ہے۔ درمیانی یا نچلے سماجی و معاشی پس منظر کے لوگوں کو سیاست میں ابھرنا مشکل لگتا ہے‘ماسوائے طاقتور اور دولت مند سیاسی وڈیروں کے بینڈ ویگن پر سوار ہونے کے‘ جو کہ ہمیشہ سفاکیت کی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس قسم کی سیاست ایمانداری‘ قابلیت اور انسانی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرتی ہے اور ایسے رہنما اکثر ذاتی مادی فوائد حاصل کرنے کیلئے فلاحی کام کرتے ہیں‘ کیونکہ جب تک حکمران بڑے منصوبوں پر ریاستی روپیہ خرچ نہیں کرتے‘ وہ اپنے اور اپنے پیروکاروں کیلئے رقم نہیں نکال سکتے۔ اس طرح کی غیر اخلاقی سیاست سے دور رہنے والوں کو اپنے کیریئر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں معیشت میں اصلاحات اور بہتری کی بات کرتی ہیں‘ لیکن اب تک کسی نے بھی لڑکھڑاتی معیشت کو بچانے کیلئے کوئی جامع پروگرام پیش نہیں کیا۔ میکرو اور مائیکرو دونوں سطح پر معیشت پر توجہ دینے اور معاشی نمو میں کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے‘ نیز یہ کہ زراعت اور صنعت نے اپنی پیداوار میں کس طرح اور کیوں کمی ظاہر کی ہے؟ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ زراعت کے شعبے کو مناسب قیمت پر اور بہترین معیار کا اِن پُٹ ملے۔ تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی کاشتکاروں کو فصل کیلئے کھاد اور کیڑے مار دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے ڈیلر قیمتوں میں اضافے کیلئے مارکیٹ میں ان اشیاکی فراہمی کو محدود کردیتے ہیں۔ دیگر اہم مسائل میں معیشت کے کمزور ہوتے ہوئے شعبوں کی تنظیم نو اورنقصان میں چل رہے ریاستی کاروباری اداروں کی نجکاری شامل ہیں۔
معیشت کا ایک اور پہلو جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ بلند افراطِ زر اور اشیائے خورونوش اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ افراطِ زر کی شرح تقریباً 29 فیصد ہے‘ جو کافی زیادہ ہے۔آڑھتی اور دکاندار اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے کیلئے اشیائے خورونوش سمیت سپلائی میں ہیرا پھیری کرتے ہیں‘ جبکہ قیمتوں میں مبالغہ آرائی اور بار بار اضافے پر شاید ہی کوئی حکومتی چیک ہو۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی بیشتر آبادی کی زندگیوں میں عدم تحفظ پیدا ہوا ہے۔
معیشت کے سب سے زیادہ نظرانداز کیے جانے والے شعبے معاشرتی سلامتی اور انسانی ترقی کے ہیں۔ کچھ جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرے کو بدلنے کی کلید تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال‘ بنیادی شہری سہولیات اور ماحولیاتی مسائل پر ریاستی وسائل خرچ کرنا ہے۔ ان ممالک نے پڑوسی ریاستوں کے ساتھ تنازعات کو بھی ختم کر دیا ہے۔ پاکستان کو معاشی بحالی اور انسانی فلاح و بہبود اور علاقائی تنازعات سے نمٹنے کیلئے ان ممالک کے تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور متعلقہ مسئلہ جدید علم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت‘ سرمایہ کاری اور آئیڈیاز کی نقل و حرکت اور علاقائی سرحدوں کے پار لوگوں کیلئے مؤثر معاشی روابط کی نمو پر توجہ دینا ہے۔
پاکستان وسطی ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ‘ بھارت اور چین کے چار علاقوں کو ملاتا ہے۔ ایسے ملک کا معاشی مستقبل تجارت‘ تیل اور گیس کی پائپ لائنز‘ سڑکوں اور ریلوے‘ بجلی کی ترسیل اور باہمی فائدہ مند صنعتی اور زرعی منصوبوں میں تیزی سے چلنے والی تجارت اور کافی سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔ تاہم‘ خطے کی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کی تجارت اس کی کُل تجارت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات تقریباً معطل ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی موجود ہے جو وسطی ایشیا میں تجارت اور ٹرانزٹ کو محدود کرتی ہے۔ ایران کے ساتھ محدود معاشی تعلقات ہیں اور پاکستان سرحد سے متصل ایران کے بجائے دگر ممالک سے گیس اور تیل حاصل کرتا ہے۔ چین واحد پڑوسی ہے جس کے ساتھ پاکستان کے اچھے اور فعال تعلقات ہیں۔
پاکستان اپنی کمزور معیشت اور ملکی امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اپنے جغرافیائی محل وقوع سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہ اکثر غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکتے ہیں اور معیشت کو بہتر بنانے کی ملکی کوششوں کو برُی طرح متاثر کرتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی پاکستان کیلئے ایک اور مسئلہ ہے جو سرمایہ کاروں سمیت غیر ملکیوں کو سیاحت یا کاروباری مقاصد کیلئے پاکستان آنے سے روکتا ہے۔ یہ ناقابلِ تسخیر مسائل نہیں ہیں۔ ان چیلنجز کیلئے رہنماؤں کی طرف سے ترجیحات میں تبدیلی اور سیاسی و معاشی مسائل کو حل کرنے اور باقی دنیاخاص طور پر پڑوسی ریاستوں کے ساتھ مثبت معاشی تعلقات استوار کرنے کیلئے مسلسل کوشش شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved