دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر پانچ سال بعد انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے، منشور اور پروگرامز کو عوام کے سامنے لاتی ہیں، اُس کے بعد عوام اپنی مرضی کے امیدواران کو منتخب کرتے ہیں۔ برسرِ اقتدار آنے والی جماعت انتخابات کے دوران کیے گئے اپنے کئی وعدوں کو پورا کرتی ہے اور بہت سے وعدوں کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ انتخابی عمل کے دوران کئی مرتبہ منشور سے بڑھ کر ذاتی پسند اور ناپسندیدگی کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے اور دھڑے بندی، برادری، گروہ بندی اور ذات پات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ملک میں کئی دینی جماعتیں بھی نظریاتی بنیادوں پر الیکشن میں حصہ لیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں اُن کی نمائندگی نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے؛ البتہ پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں مذہبی جماعتوں کی نمائندگی بہت کم نظر آتی ہے۔ ان صوبوں کے لوگ زیادہ تر روایتی سیاسی جماعتوں کی تائید وحمایت کرتے ہیں۔
سیاست کے بار ے میں عوام الناس میں مختلف طرح کے تخیلات، نظریات اور مفروضے پائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس کا تعلق ذاتی مفادات سے جوڑتے ہیں اور سیاست کو ذاتی مفادات کی تکمیل سے مشروط کرتے ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں بالعموم تھانہ کچہری کلچر کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کیے جاتے ہیں۔ لوگ اپنے چھوٹے موٹے کام کرانے کے لیے تھانوں‘ کچہریوں سے رجوع کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں اور سیاست دان عوام کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کے ساتھ تعاون کو اپنی سیاسی حمایت کے ساتھ مشروط کر دیتے ہیں۔ جو بندہ کسی امیدوار کے ڈیرے پر یا اس کے دفتر میں داخل ہو جاتا ہے‘ وہ اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ اس کو آئندہ انتخابات میں فقط اس امیدوار کی حمایت کرنا ہو گی۔ اپنا کام ہو جانے کے بعد وہ اس سیاسی امیدوار کا حمایتی اور سپورٹر بن جاتا ہے اور آئندہ اپنے ہر جائز و ناجائزکام کے لیے وہ اسی امیدوار سے رجوع کرتا ہے۔ الیکشن میں اس شخص کا مدمقابل‘ اس کے مخالف فریقوں سے رجوع کرتا اور ان کے پاس جاکر معاملات کو حل کرانے کی یقین دہانی کرتا ہے۔ لوگ اس مدمقابل کے حق یا باطل پر ہونے کا فیصلہ کیے بغیر فقط سیاسی وابستگی اور ذاتی مخالفت کی وجہ سے اس کی حمایت پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں۔ یو ں دیہات میں بالخصوص محض اس بنیاد پر بہت زیادہ دھڑے بندی ہو جاتی ہے اور بہت سے لوگ حق اورانصاف سے محروم ہو جاتے ہیں یا اپنے جائز حق کے حصول کے لیے کسی نہ کسی دھڑے کی تائید و حمایت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ان حالات میں بہت سے شرفا اور مذہبی لوگ سیاست کے اس تقاضے کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور وہ سیاسی معاملات سے یکسر لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔ سماج کے ایک بڑے حصے کا یہ بھی تصور ہے کہ سیاسی معاملات کا دین کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں اور سیاست کو اپنے معمولی مفادات سے منسوب کر کے سیاسی عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے جبکہ نظریاتی طور پر کام کرنے والے امیدوار لوگوں کو مسلسل مثبت نظریات کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بہت سے لوگ عمومی طور پر رفاہی اور سماجی کام کرتے رہتے ہیں لیکن چونکہ یہ کام غیر مشروط طور پر کیے جاتے ہیں اور اس میں کسی مخصوص دھڑے کی معاونت یا کسی خاص دھڑے کی مخالفت کا کوئی عنصر نہیں ہوتا‘ اس لیے لوگ بالعموم رفاہی کام کرنے والے اداروں اور جماعتوں کو ووٹ دینے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں جزوی طور پر نظریاتی اور مذہبی جماعتوں نے جو کامیابی حاصل کی‘ اس کی وجہ رفاعی اور سیاسی کاموں سے کہیں بڑھ کر ذہن سازی کا عمل ہے۔ جن لوگوں نے ذہن سازی پر توجہ دی‘ انہوں نے خاطرخواہ نتائج حاصل کیے۔
پاکستان میں یہ رجحان بھی بکثرت دیکھنے کو ملا کہ سیاست میں تناؤ، عصبیت اور نفرت کو بہت زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ یہاں سیاست ترقی یافتہ ممالک کی طرح تعلیم یافتہ اور باشعور طبقات کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ ملک کی زمامِ کار چلانے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد بااثر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہے‘ جو اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یقینا ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے اور سچائی کے راستے پر چلتے ہیں لیکن بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس حوالے سے افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ کتاب و سنت نے اس حوالے سے بڑے واضح انداز میں راہ نمائی کی ہے اور ایک قومی قائد اور لیڈر کے اوصاف اور اس کی ذمہ داریوں کا بہت ہی احسن انداز میں تعین کیا ہے۔ قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد اس حوالے سے جو اہم نکات سامنے آتے ہیں‘ وہ درج ذیل ہیں:
(1) علم اور طاقت: قرآنِ مجید کا مطالعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ جس شخص کے پاس علم اور طاقت ہوتی ہے‘ وہ شخص قیادت کا فریضہ بہتر انداز میں سر انجام دے سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے قرآنِ مجید میں حضرت طالوت علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا کہ جن کا تقرر بنی اسرائیل کے مطالبے پر کیا گیا تھا۔ حضرت طالوت علیہ السلام صاحبِ مال نہ تھے جس پر بنی اسرائیل کے لوگوں کو اعتراض ہوا لیکن ان کے اس اعتراض کو اس لیے مسترد کر دیا گیا کہ حضرت طالوت علیہ السلام کے پاس علم اور طاقت تھی۔
(2) حکمت اور قوتِ بیان: جب ہم قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسی عظیم شخصیات کا ذکر کیا جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں حکومت عطا فرمائی تھی۔ ان شخصیات میں ایک نمایاں شخصیت حضرت داؤد علیہ السلام ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ ص کی آیت نمبر 20 میں ارشاد فرمایا ''اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور اسے حکمت دی تھی اور فیصلہ کن بات کرنے کی (صلاحیت)‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی قائد اور لیڈر میں دانائی اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ حکمت اور قوتِ کلام کی وجہ سے لیڈر اہم امور کی نشاندہی کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں اور رائے عامہ کو صحیح طریقے سے اپنا مؤقف سمجھانے کی پوزیشن میں بھی آ جاتا ہے۔
(3) خواہشات سے اجتناب: قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی ذاتی خواہشات سے اجتناب کرنا چاہیے اور عوام الناس کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے۔
(4) رعایا کے اموال کی حفاظت: کامیاب لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوام الناس کے اموال اور ان کی املاک کی اچھے طریقے سے حفاظت کرے، جو ایسا نہ کر سکے‘ اسے قیادت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے کیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے شاہِ مصر کو یہ بات کہی تھی‘ جس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ یوسف کی آیت نمبر 55 میں کچھ یوں کیا ''اس (یوسف) نے کہا: آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے‘ میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں‘‘۔
(5) کارکنان اور عوام کے ساتھ نرمی: لیڈر کو اپنے کارکنان اور عوام کے ساتھ نرمی والا معاملہ کرنا چاہیے اور اس کے سامنے رسول اللہﷺ کی شخصیت کا بہترین ماڈل ہونا چاہیے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں رؤف اور رحیم کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں قیادت کے اوصاف کا ذکر کیا‘ وہیں قیادت کی بہت سی ذمہ داریوں کا بھی بیان کیا جن میں سے چار اہم ترین ذمہ داریوں کا ذکر سورۃ الحج کی آیت نمبر 41 میں کیا گیا ہے۔ 1: نماز کا قیام۔ 2: زکوٰۃ کی ادائیگی۔ 3: نیکی کا حکم دینا۔ 4: برائی سے روکنا۔
قیادت پر مزید کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ آئیے ان کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
(5) عدل و انصاف کا قیام: معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام کسی بھی لیڈر کی بنیادی ذمہ دار ی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیبﷺ ہمہ وقت عدل و انصاف کے قیام کے لیے کوشاں رہتے۔ آپﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں‘ اپنے دور میں ہونے والے تمام جرائم کا فیصلہ کرتے ہوئے انصاف اور عدل کو اولیت دی۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اہم حدیث بیان کی گئی ہے کہ ''بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسے نبی کریمﷺ کے سامنے لایا گیا تو اس نے نبی کریمﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پناہ لی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: اگر اس چوری میں میری بیٹی بھی ملوث ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔
(6) خزانے کی تدوین: حکمرانوں کی یہ بھی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کا ذکر کیا کہ جب اللہ نے ان کو اقتدار دیا تو انہوں نے غلے اور اجناس کو پوری طرح استعمال کرنے کے بجائے اُس کے ایک حصے کو ذخیرہ کر لیا اور جب عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو ان کا ذخیرہ کیا ہوا غلہ نہ صرف اہلِ مصر کے کام آیا بلکہ پوری دنیا سے ضرورت مند لوگ مصر کا رخ کرکے اپنی غذائی ضروریا ت کو پورا کرتے رہے۔
(7) فتنوں کا انسداد: حکمرانوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں موجود فتنوں کے انسداد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت ذوالقرنین کا ذکر کیا جنہیں زمین میں بڑا اقتدار دیا گیا تھا‘ انہوں نے یاجوج اور ماجوج کے فتنے کا قلع قمع کرنے کے لیے مؤثر تدابیر کو اختیار کیا۔
نبی کریمﷺا ور آپﷺ کے خلفائے راشدین نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات پر پوری طرح عمل کیا اور ایسی حکومت قائم کی جو رہتی دنیا تک بے مثال ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اچھے اوصاف والی ایسی قیادت کا انتخاب کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اپنی اُن ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کر سکے جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved