بلوچستان میں امن اور خوشحالی کے لیے '' گرینڈ جرگہ‘‘کاانعقاد خوش آئند ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان مردان خان ڈومکی نے جرگے کے توسط سے ایک بار پھر ناراض بلوچ رہنمائوں اور عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ جرگے میں اسی بات پر زور دیا گیا کہ عسکریت پسند ہتھیار پھینک کر قومی و ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ اس جرگے میں نگران وزیر اعلیٰ، صوبائی کابینہ اور 150 سے زائد قبائلی عمائدین، اکابرین، سابق پارلیمنٹریز، اہم بلوچ شخصیات اور علمائے کرام شریک ہوئے۔ بلاشبہ جرگے میں جیونی کے نیلگوں ساحل سے لے کر ژوب کے چلغوزے کے قدیم جنگلات اور چاغی میں ریکوڈک کے ذخائر سے لے کر موسی خیل کے سرسبز پہاڑوں تک کے تمام قبائل کی نمائندگی شامل تھی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر ناراض بلوچ کون ہیں ؟ بلوچستان میں پشتونوں سمیت جو دیگر قومیں بستی ہیں‘ ان کی محرومیوں کا ازالہ کون کرے گا ؟ نگران وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ''میں تمام لوگوں سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بلوچستان میں قبائلی تنازعات کے مسائل کے حل میں ذاتی دلچسپی لیں اور مقامی قبائل کے درمیان تنازعات کے پُرامن حل کے لیے کوششیں تیز کریں‘‘۔ جرگہ میں ان لوگوں کو خوش آمدید کہا گیا جو ماضی میں طویل عرصے تک ریاست مخالف سرگرمیوں سے وابستہ رہے لیکن آج انہیں یقین ہے کہ اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہے اور اب وہ قومی دھارے میں شامل ہو گئے ہیں۔ قبائلی رہنما ئوں نے تنازعات کے حل کے لیے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور انتظامی افسران کی مدد کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلے میں علاقائی مصالحتی کمیٹیاں بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ مقامی سطح پر تنازعات کو حل کر کے امن کے فروغ کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس جرگے میں سابق عسکریت پسند لیڈر گلزار امام شمبے نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسائل کا حل صرف امن مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ دنیا کے بدلتے حالات اور اپنی گرفتاری کے بعد مجھے احساس ہوا کہ بلوچستان کے حقوق کے لیے سیاسی طریقہ کار ہی بہتراور واحد راستہ ہے۔ صوبے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ صوبے کے نوجوان طبقے کو پارلیمانی سیاست اور خدمت کا موقع دینے کے لیے راہ ہموار کرنا ہوگی، ہمیں امن کا راستہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ بلوچستان کے باشندے پُرامن ماحول میں ترقی کی منزلیں طے کر سکیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کی جانب سے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی باتیں کی گئیں، پہاڑوں پر موجود افراد کو ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی جاتی رہی لیکن وہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اب بھی اگر حکمرانوں کی جانب سے سنجیدگی اور بامعنی مذاکرات کے لیے ماحول کو سازگار نہ بنایا گیا تو کامیابی کے امکانات کم ہوں گے۔ دیکھا جائے تو بلوچستان اور وفاق کے مابین خلیج دہائیوں سے موجود ہے۔ افسوس وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی آنے کے بجائے یہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ماضی میں ''آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج‘‘ دیا گیا۔ پُر امن مفاہمتی پالیسی کا اجرا ہوا۔ بلوچستان کے لیے جس قدر بڑے بڑے مالی پیکیجز کا اعلان ہوا‘ اگر ان پر ان کی روح کے مطابق عمل ہو جاتا تو بلوچستان کی پسماندگی کافی حد تک ختم ہو جاتی۔
قبائلی جرگے ہمیشہ سے ہی بلوچ اور پشتون روایات کا حصہ رہے ہیں۔ بلوچستان‘ جو پشتونوں اور بلوچوں سمیت یگر قبائلییوں کا گھر ہے‘ یہاں جرگہ سسٹم کی خاصی اہمیت ہے جو قبائل کے مابین پیچیدہ اور چھوٹے‘ بڑے تنازعات کو حل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت بھی بلوچوں نے دل و جان سے مملکتِ خداداد سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے منتخب ارکان کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں کُل 54ارکان شامل ہوئے اور سب نے متفقہ طور پر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ تحریکِ پاکستان کو فیصلہ کن کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے عمائدینِ بلوچستان، قاضی محمد عیسیٰ‘ بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ مسلم نیشنل گارڈزاور مسلم لیگ کے گمنام سپاہیوں نے بے مثل قربانیاں دیں اور انہی کی وجہ سے آج بلوچستان مملکتِ خداداد پاکستان کا حصہ ہے۔قیامِ پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ یونٹس پر مشتمل تھاجس میں چار شاہی ریاستیں (مکران، خاران، لسبیلہ اور قلات) اور ایک برٹش بلوچستان شامل تھے۔ بر صغیر کی آزادی کے وقت شاہی جرگے کا اہتمام کر کے عمائدینِ بلوچستان سے پاکستان میں شمولیت کے بارے میں رائے لی گئی۔ قائداعظم کو قبائلی عوام‘ خاص طور پر بلوچستان کے لوگوں سے خاصا اُنس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے نہایت اہم اور آخری ایام بلوچستان میں گزارے۔ علاوہ ازیں اپنی وصیت میں آپ نے اپنی دولت کا ایک غالب حصہ قبائلی علاقوں کی تعلیمی ترقی کے لیے وقف کیا۔ قیامِ پاکستان سے پیشتر بھی قائداعظم بلوچستان میں اصلاحات کے نفاذ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم جب نوزائیدہ مملکت کے سربراہ بنے تو اُنہوں نے بلوچستان کے معاملات اور اقتصادی و مجلسی ترقی کے کام کو کسی وزیر کے سپرد نہیں کیا بلکہ بلوچستان سے متعلق جملہ امور براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھے۔ بلوچستان میں بدامنی کی آگ کو قائد اعظم کے فرمودات پر عمل کرکے ہی بجھایا جا سکتا ہے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ ملک کے کل رقبے کا43.6فیصد ہے۔ اس صوبے کی سرحد مغرب میں افغانستان اور ایران سے ملتی ہے۔ ملک کی تقریباً 5.94 فیصد آبادی اس صوبے میں مقیم ہے‘ یہاں 750 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے جو دنیا کی سب سے اہم سمندری گلیوں میں سے ایک‘ آبنائے ہرمز کے ساتھ گزرتی ہے۔ یہ صوبہ تیل، گیس، تانبے سمیت متعدد قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ سوئی، خاران، بولان، قلات، ژوب، کوہلو اور زرغون میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کی 56 فیصد گیس کی ضروریات یہیں سے پوری ہوتی ہیں مگر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ صوبے کے 34 میں سے صرف20 اضلاع کو گیس کی سہولت میسر ہے‘ یہاں تک کہ سوئی سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود آبادی بھی اس نعمت سے محروم ہے۔سندھ کے بعد کوئلے کی پیداوار میں بلوچستان دوسرے نمبر پر ہے۔ دیگر قدرتی معدنیات‘مثلاً کرومائیٹ، جپسم اور ماربل بھی یہاں بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں‘ اس کے باوجود صوبے کے 85 فیصددیہات غربت، پسماندگی اور بدحالی کے انتہائی نچلے درجے پر ہیں۔ افسوس کہ قیمتی معدنیات کا حامل یہ صوبہ گزشتہ 76 سال سے مسلسل عدم توجہی کا شکار ہے۔ اگر ان وسائل کا صحیح استعمال کیا جائے تو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہیں کہ پاکستان کی خوشحالی بلوچستان کی خوشحالی سے جڑی ہے۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان شروع ہی سے خراب معاشی حالات کا شکار رہا ہے۔ مقامی قیادت صوبے کے سماجی و اقتصادی حالات کو بہتر بنانے اور اس کے وسائل کو بروئے کار لانے میں ناکام رہی۔ جاگیردارانہ اور سرداری نظام نے صوبے کا سیاسی نظام تباہ کردیا۔ دوسری جانب بھارت نے اندرونی شورش سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور نوجوانوں کو بھڑکانے کے لیے بے دریغ پیسہ استعمال کیا۔
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سیاسی و عسکری قیادت کے تعمیر و ترقی کے اقدامات سے یہ پسماندہ اور استحصال زدہ صوبہ بیدار ہو رہا ہے اور ملکی امن و سلامتی اور خوشحالی کے حوالے سے نئی کروٹیں لے رہا ہے۔ صوبے کے دور داز علاقوں سمیت پورے صوبے میں نوجوانوں کی ترقی اور علاقے سے غربت دور کرنے کے متعدد پروجیکٹس مکمل ہو چکے ہیں اور کئی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ علاوہ ازیں پاک فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے والوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ملٹری ورکشاپس اور تربیتی مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بلاشبہ پاک فوج اور ایف سی صوبے میں امن و امان کے قیام اور استحکا م سمیت سی پیک سمیت ترقی کے منصوبوں کی تکمیل اور ان کی حفاظت کیلئے کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved