کالم نگار نے سعدی‘ حافظ اور نظیری کی زبان (فارسی) 1950-51ء یعنی اکہتر‘ بہتر سال پہلے گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان میں پڑھی اور وہ بھی پگڑی باندھے ہوئے شلوار قمیص اور ویسکوٹ پہنے ہوئے‘ پرانے زمانہ کے مہربان‘ قابل اور بہت اچھے اُستاد سے۔ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد اب نہ اُن کا مشفق چہرہ یاد رہا اور نہ اُن کا مبارک نام مگر جو کچھ اُنہوں نے بڑی توجہ اور لگن سے پڑھایا‘ وہ آج تک نہیں بھولا۔ گلستان اور بوستان کے مطالعہ نے چودہ برس کے طفلِ مکتب کے ذہن میں جو گل و گلزار کھلائے وہ آج بھی اسی طرح تروتازہ ہیں جیسے سبق آج صبح ہی پڑھا ہو۔
دریا کے کنارے اکیلا سیر کرتا ہوں۔ موسمِ خزاں میں پتوں کے رنگ بدل جانے کا دلفریب منظر دیکھتے ہوئے بوڑھے دماغ میں فارسی کے اشعار تتلیوں کی طرح اُڑتے رہتے ہیں‘ نیلے آسمان (جو اب چار‘ چھ ماہ بعد دیکھنا نصیب ہوگا) پر اُڑتے ہوئے آوارہ سفید بادلوں کی طرح۔ آج ساری سیر ایک انگریزی جریدے میں 19 اکتوبر کو شائع ہونے والے ایک کمال کے اداریے کی نذر ہو گئی۔ سچائی اور دیانتداری کے ساتھ جرأت اور بہادری کا بہترین نمونہ۔ پڑھ کر کالم نگار کا سر‘ جو اکثر احوالِ وطن جان کر پریشانی سے جھکا رہتا ہے‘ فخر سے اُونچا ہو گیا۔ راکھ کے ڈھیر میں یا رب! ایسی چنگاری بھی چھپی ہوئی تھی۔ مجھے اس کی نہ اُمید تھی اور نہ توقع۔ اگر اس گھپ اندھیرے میں روشنی کا ایک چراغ بھی ٹمٹما رہا ہے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک اٹل تاریخی عمل کے ذریعے‘ جو ہیگل اور مارکس کی زبان میں جدلیاتی ہے‘ وہ چراغ جو ان دنوں بقول اقبالؔ انجمن میں تنہا ہے‘ جلد یا بدیر (بدقسمتی سے بدیر) اندھیرے پر غالب آجائے گا‘ چاہے وہ کتنا ہمہ گیر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ فیضؔ صاحب نے ہمیں بجا طور پر یقین دلایا تھا کہ ہم (یا ہماری آنے والی نسلیں) وہ مبارک دن دیکھیں گے۔ ضرور دیکھیں گے جس کا کائنات کے مالک نے اور سماجی تبدیلیوں کے سائنٹفک عمل نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔
یہ وعدہ ہے کروڑوں پاکستانیوں سے‘ لمحہ موجود میں زندہ رہنے کا عذاب جھیلنے والوں سے‘ کسانوں اور مزد وروں سے‘ مزارعین اور ماہی گیروں سے‘ جان ہتھیلی پر رکھ کر بے حد خطرناک کانوں سے نمک، سنگ مرمر اور کوئلہ نکالنے والوں سے‘ استاد ہونے اور سب سے محترم پیشہ سے تعلق رکھنے کے باوجود لاہور اور پشاور میں لاٹھی چارج کا نشانہ بننے والوں سے‘ سلطانی جمہور سے لے کر انسانی حقوق کو محض آئین کے کاغذوں پر لکھے ہوئے بے جان الفاظ کو پون صدی سے پڑھنے والوں سے‘ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے لاکھوں سیلاب زدگان سے‘ ہر قسم کے عذاب کا نشانہ بننے والی ستم زدہ کروڑوں خواتین سے‘ دُکانوں اور گھروں میں بیگار سے ملتی جلتی ملازمت کرنے والے لاکھوں بچوں سے‘ پھٹے ہوئے کپڑے پہنے، ننگے پائوں چلنے اور مستقل فاقہ کرنے والے افتادگانِ خاک سے۔
اِس تاریخی عمل نے‘ بقول اقبالؔ جو گنجشکِ فرومایہ کو شاہین سے اور ممولا کو خونخوار شہباز سے نہ صرف لڑاتا ہے بلکہ فتح بھی دلواتا ہے‘ انسانی تاریخ سے جو وعدہ کیا ہے وہ پتھر کی لکیر کی طرح اتنا پختہ ہے کہ ضرور پورا ہوگا بالکل اُسی طرح جیسے وہ روس‘ چین‘ کیوبا‘ ایران‘ ویتنام‘ افغانستان اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک میں پورا ہو کر رہا۔ ڈیڑھ ہزار سال قبل سرزمینِ حجاز میں پورا ہوا اور وہ بھی اس شان و شوکت سے کہ اُموی اور عباسی خاندانوں کی صدیوں طویل ملوکیت کا گرد و غبار بھی اس کی آب و تاب کو مٹا نہ سکا۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کالم نگار کا ذہنی تخیل اُسے اُڑاتے اُڑاتے کہاں سے کہاں لے گیا۔ یہ ہوتا ہے نتیجہ جناب محمد اظہار الحق‘ جناب خورشید ندیم اور جناب اسلم اعوان اور اُن کی صف میں شامل دُوسرے عالم فاضل کالم نگاروں کی فکر انگیز تحریروں کو بڑے غور سے پڑھنے اور بار بار پڑھنے کا۔ اگر آپ کو اس کالم میں پڑھنے کو کوئی اچھا نکتہ ملا تو بلاشبہ اس کا کریڈٹ مندرجہ بالا کالم نگاروں کو جاتا ہے۔ اگر خامیاں نظر آئیں‘ (جو تعداد میں کافی ہونے کے باوجود قابلِ معافی ہیں) تو یہ کالم نگار جان کی امان مانگتے ہوئے اُن کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔
آج کے کالم کا عنوان ایک فارسی محاورے سے مستعار لیا گیا ہے جو آٹھ الفاظ پر مشتمل ہے۔ پورا محاورہ ہے:
چہ دلاور است دُزدی کہ بہ کف چراغ دارد
اس کا ترجمہ ہے: چور کتنا دلیر ہے کہ اپنے ہاتھ پر چراغ رکھ کر چوری کرنے کی واردات کرنے نکلا ہے۔ فارسی کے ان الفاظ سے زیادہ کوئی اور مناسب عنوان نہ رکھا جا سکتا تھا جو انگریزی کی ایک اصطلاح Slippery Customer کا پوری طرح معنی بیان کرتا۔ 2019ء میں سپریم کورٹ نے کراچی میں غیر قانونی طور پر سینکڑوں ایکڑ زمین الاٹ کرنے کے کیس میں جو حکم نامہ جاری کیا تھا‘ اُس کے تحت 460 ارب روپے کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وسط اکتوبر میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست داخل کر کے انصاف کی زنجیر ہلائی یا کھینچی گئی کہ حکومت نے درخواست دہندہ کے مقابلے کہیں زیادہ زمین مقابلتاً کم داموں دوسرے گروپ کو فروخت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امتیازی سلوک کا ازالہ کیا جائے اور ناانصافی کا مداوا ہو۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 460 ارب جرمانے کو قسطوں میں ادا کرنے کی رعایت بھی دی گئی تھی مگر پانچ برس میں فریاد کرنے والوں نے صرف 65ارب جمع کرائے۔ 395 ارب روپے واجب الادا تھے۔ اگر اس شرح سے ہر برس 13ارب روپے جمع کرائے جائیں تو باقی رقم ادا کرنے میں لگ بھگ 30برس لگیں گے۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ مزید 30 سال۔ میں نہیں جانتا کہ 2019ء میں سینکڑوں ایکڑ زمین مارکیٹ سے بہت کم نرخ پر حاصل کرنے کے کیس میں جرمانے کی جو سزا دی گئی اور ادائیگی یکمشت کے بجائے قسطوں میں کرنے کی سہولت دی گئی تو یقینا فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سالانہ قسط کتنی ہو گی۔ عقل کہتی ہے کہ دس سال سے زیادہ کی مہلت نہ دی گئی ہو گی یعنی 60‘65 ارب سالانہ نہ کہ صرف 13 ارب سالانہ۔ کالم نگار نے اس حوالے سے جب متعلقہ فیصلہ دیکھا تو بالکل یہی بات لکھی تھی۔ ابتدائی پانچ ماہ میں 25ارب روپے کی رقم ڈاؤن پیمنٹ کی مد میں جمع کرانے اور پھر مجموعی طور پر 460 ارب روپے کی رقم سات سال کے دوران ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ابتدائی چار سال تک سوا دو ارب روپے ماہانہ کے حساب سے جبکہ بقیہ رقم چار فیصد مارک اَپ کے ساتھ بقیہ تین سال کے دوران ادا کرنے کا حکم دیا گیا اور عدالت نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر کسی بھی موقع پر لگاتار دو اقساط ادا نہ کی گئیں تو ڈیفالٹر قرار دے دیا جائے گا۔
یہاں کالم نگار یہ سوال کرنے کی جسارت کرتا ہے کہ اول‘ درخواست گزار نے جس مبینہ امتیازی سلوک کا ذکر کیا‘ اسے منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا یا نہیں؟ (دوم) اب جرمانے کی مکمل ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے کون سی سکہ بند (Cast Iron) شرائط عائد کی جائیں گی؟ (سوم) پی ٹی آئی حکومت کے اس غیر قانونی فیصلے کو نظر انداز کر دیا جائے گا یا تادیبی کارروائی کی جائے گی‘ جس کے تحت برطانوی حکومت کی جانب سے مبینہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بھیجے گئے پیسے (19کروڑ پائونڈز) کو جب حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا تو اُس خطیر رقم کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع کرا دیا گیا تاکہ 460ارب روپے جرمانے کی جزوی ادائیگی میں کام آ سکے۔ سابق وزیراعظم اور اُن کی مرحوم کابینہ (جو نہ صرف زندگی بلکہ حمیت، قانون کی پاسداری اور ملکی مفاد کے احترام سے بھی محروم ہو چکی تھی) کی اتنی سنگین قانون شکنی سے چشم پوشی کی جائے تو کیونکر؟ کیا اس غیر قانونی کارروائی کو ریورس گیئر میں نہیں ڈالا جا سکتا؟ لاکھوں ہم وطنوں کی طرح کالم نگار کو عدلیہ سے بڑی توقعات ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے تو عدل و انصاف کی دھجیاں اُڑانے والوں کے شرمناک عمل کا کچھ تو ازالہ ہو سکے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved