افغانستان میں سوات کے مولوی فضل اللہ کی ناگہانی مرگ کے حوالے سے متضاد خبریں ہیں ۔ اگر یہ سچ ہے تو حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر تحریکِ طالبان اوراس کے گنے چنے بہی خواہوں سے پرزور تعزیت کرنی چاہیے۔ فقط پھانسی کی سزا معطل کرنا خیر سگالی کے اظہار کے لیے ناکافی ہے ۔ عوام کو بہرحال ایک پر تشدد تحریک کے بانیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ۔دوسری طرف حکیم اللہ محسود نے میڈیا سے گفتگو میں جنگ بندی کے لیے ڈرون حملوںکی بندش کا مطالبہ دہرایا ہے ۔واضح طور پر ان کی آنکھوں میں شرارت دکھائی دے رہی تھی۔ جواباً تحریکِ طالبان کے سامنے بنگلہ دیش کی سرکار کی طرف سے جماعتِ اسلامی پرظلم و تشدد ختم کرانے کا مطالبہ پیش کیا جائے تو کیسا رہے گا؟ بعض سیاسی و مذہبی قائدین اور میڈیا کے موثر افراد قوم کو نظامِ حکومت کے بارے میں گمراہ فرما رہے ہیں ۔ اپنے اعمال کی بدولت ایک صاحب 2008ء کا الیکشن بری طرح ہار گئے ۔ اب موصوف نے ٹی وی پر سنسنی پھیلانے کا دھندہ شروع کیا اور ایک اہم قومی شخصیت کو ’’ستّو پینے‘‘ کا طعنہ دیتے رہے ۔ بالآخر ان کی قسمت کا ستارہ روشن ہوا اور تحریکِ انصاف کی پیٹھ پہ چڑھ کر وہ ایک بار پھر پارلیمان میں تشریف فرما ہیں ۔ ایک صاحب عام انتخابات کے انعقاد کی صورت میں ملک ٹوٹ جانے کا اعلان کیا کرتے۔ عدالت اور خاص طور پر فوج کے بارے میں اظہارِ مایوسی بھی کہ وہ زرداری حکومت کا تختہ الٹ کیوں نہیں دیتی۔ پھر بیرون ملک کچھ خفیہ خدمات انجام دینے والے ایک صاحب کو وطن کی یاد ستائی اور اسلام آباد کے گلی کوچوں میں ایک بے معنی سا تماشہ رچا کرواپس پیا دیس سدھارے ۔دو روز قبل حکیم اللہ محسود نے اعلان کیا کہ ریاست کے کافرانہ نظام کے باعث وہ ’’جہاد‘‘ کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بندوق کے بل پر طاقت کے حصول اور جرائم پیشہ افراد کے لیے اس ملک کو جنّت بنا دینے کی جدوجہد فرما رہے ہیں ۔ایک لمحے کے لیے کفریہ نظام کے خلاف جدوجہد کا دعویٰ درست مان لیا جائے تو بھی کفر کا نظام قائم رہ سکتا ہے، ظلم کا نہیں۔ تحریکِ طالبان ہمدردوں کا گروہ نہیں۔ پھر وہ دانشور ہیں، جن کے اخلاص اور دیانت پر شبہ نہیں لیکن دن دیہاڑے وہ عجیب و غریب خواب دیکھ رہے ہیں ۔ بعض انقلاب کے آرزومند ہیں اور کوئی خلافت کا متمنّی ۔ ریاست اجارہ داروں کا قلع قمع کرے اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں ہر ایک کو میّسر ہوں ، یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ذاتی ملکیت اور کاروبار ، سب کچھ سرکار کو سونپ دیا جائے ۔ہر کس و ناکس ، قابل اور نااہل، ایک ہی ترازو میں تول دیئے جائیں۔ انجام بد د لی اور مایوسی ہوگا اور انسانی صلاحیتیں تباہ ہو جائیں گی ۔ یہ تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔ ریاست کے تمام افراد اپنی مرضی سے ، ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے چنیں اور زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی مرکزی حکومت تشکیل دے ، اسلام کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتاہے ؟ خلفائے راشدینؓ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے ۔ ان کی تربیت براہِ راست کائنات کے عظیم ترین استاد ؐ نے فرمائی تھی ۔ ان کی دیانت اوراہلیت شکوک و شبہات سے بالاتر تھی ۔بعد میں بادشاہت در آئی اور مسلمان ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج ہمیں خلافت قائم کرنی ہے تو امیر المومنین کون ہوگا؟ وہ با برکت ہستی کون ہے ، جس پر اٹھارہ کروڑ دور کی بات، ایک کروڑ افراد بھی متفق ہو سکیں ؟ پھر 2002ء میں موقع پانے پر مذہبی سیاسی جماعتوں نے کون سا تیر مارا تھا کہ دوبارہ انہیں تاج پہنا یا جائے ۔ یقینا سود کا خاتمہ ہونا چاہیے اور غیر شرعی قوانین بھی لیکن یہ ایک سیاسی جدوجہد ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ علماء کرام کا کام حکمرانی نہیں، معاشرے کی تعلیم و تربیت ہے۔ حکمران ہمیں ایسے چاہئیں، جو ٹیکس وصولی میں کم از کم 1ہزار ارب روپے کا اضافہ اور امن و امان بہتر بنا سکیں۔ وہ قیادت جو پانچ سو ارب سالانہ کا خسارہ کرنے والے حکومتی اداروں کی تعمیرِ نو کر سکے اور معاف کیجئے، ساری مذہبی قیادت اس معاملے میں کوری نظر آتی ہے ۔ دوسری طرف قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح ، نون لیگ کے پاس بھی یہ آخری موقع ہے اور وہ سو فیصد ناکام نظر آرہی ہے ۔ طالبا ن کی شریعت ، سیاسی مولویوں کی حکومت ، انقلاب ، بادشاہت یا فوجی اقتدار،کسی ایک میں بھی ہماری بقا ممکن نہیں۔ جمہوریت چاہیے اور ملک کے سب سے بڑے شہر کے دد حلقوں کا پول کھلنے کے بعد اس کی بنیادیں ہل رہی ہیں ۔ صرف جعلی ووٹ ہی نہیں ، قرض نادہندہ اور دھوکے باز اعلیٰ ترین عہدوں پہ جا پہنچے ۔ مثبت بات یہ ہے کہ عمران خان سمیت اپوزیشن دھاندلی پوری طرح بے نقاب کرنا چاہتی ہے کہ آئندہ اس کا راستہ روکا جا سکے ۔ ساتھ ہی ساتھ مگر وہ انتخابی نتائج تسلیم کرنے پر آماد ہ ہے ۔ زیادہ مشکوک حلقوں کا جائزہ لینے کے علاوہ ، ناقص سیاہی کے استعمال کے ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانا ہوگا۔ ہنگامی بنیادوں پرنقائص سے پاک الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام اور ابھی سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اگلے انتخاب میں شمولیت کے انتظام سے ہم ایک عظیم جست (One giant leap)لگا سکتے ہیں۔ صوبائی حکومتیں اور خاص طورمرکز آگے بڑھ کر چیلنجز سے نبرد آزما نہ ہوا تو وہ خود اپنی موت کا سامان کرے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved