الیکشن کے قریب آتے ہی سیاست اگلے فیز میں داخل ہورہی ہے‘ بلکہ یوں کہہ لیں کہ سرکس کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اگر آپ سیاست کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ پانچ سال پارلیمانی سیاست کے کچھ اور رنگ ہوتے ہیں جبکہ الیکشن سیاست کچھ اور ہوتی ہے۔ الیکشن مار ویا مر جائو والی سیاست پر لڑے جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست اب اتنی فائدہ مند ہوچکی ہے کہ اب ہر کوئی سیاستدان بننا چاہتا ہے۔ 1985ء سے پہلے اور بعد کی سیاست کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پاکستانیوں کی قسمت نے کیا ٹرن لیا۔ اگرچہ بھٹو صاحب کے دور میں بھی اپوزیشن جماعتیں سختیوں کا شکار رہیں‘ جیسے آج کل ہیں۔ مجھے تو کوئی ایسا سال نظر نہیں آتا جب اپوزیشن رہنمائوں پر ریاستی اداروں اور حکومتوں کا دبائو نہ ہو۔ اگر ایمانداری سے پوچھیں توشاید 2008ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی حکومت کے پانچ سال‘ جب زرداری صدر‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے‘ اُس وقت سیاسی بنیادوں پر مقدمے نہیں بنے۔ اگرچہ یہ کریڈٹ نواز شریف حکومت بھی لے سکتی ہے کہ اُن کے دورِ حکومت میں بھی مقدمے نہیں بنے۔ یوں مشرف دور میں جس طرح سیاستدانوں کو جیلوں میں رکھ کر اُن پر تشدد کیاگیا یا ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے دبائو ڈالا گیا‘ اس سائیکل کو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں نے توڑا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ دونوں جماعتیں خود مشرف دور میں زیرعتاب رہیں۔ اگرچہ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کے باوجود سپریم کورٹ میں گئے تاکہ میمو گیٹ ایشو پر صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کمیشن بنوا سکیں جو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بنا بھی دیا تھا۔
تاہم عمران خان کا دورِ حکومت شروع ہوتے ہی وہ زمانہ لوٹ آیا جب اپوزیشن جماعتوں کی شامت آ جاتی ہے اور ان کی پکڑ دھکڑ کر کے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ سب کہیں کہ عمران خان کی مجبوری تھی کیونکہ وہ ان دونوں پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کی لوٹ مار کے خلاف ابھرے تھے۔ ان کا نعرہ ہی یہ تھا کہ وہ کرپٹ لوگوں کو پکڑ کر جیل میں ڈالیں گے‘ لہٰذا اگر وہ ان کے خلاف کارروائی نہ کرتے تو ان کے ورکرز اور ووٹرز ان سے مایوس ہوتے۔ اس لیے ووٹرز کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے خان صاحب نے ہر وقت ایک ہی کام کیا‘ وہ تھا نیب کو استعمال کرنا۔ اب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پھر وہ کیا کرتے؟ کیا ان تمام سیاستدانوں کو کلین چٹ دے کر گھر بھیجا جانا چاہیے تھا جن پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے؟ اگر عمران خان حکومت احتساب نہ کرتی تو اُس پر الزام لگتا کہ وہ بھی چوروں کے ساتھ مل گئی ہے۔ خان صاحب کو اپنے ووٹرز اور میڈیا کو مطمئن کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانا تھا۔ لیکن اس کام میں وہ دو تین طریقوں سے عمل کرسکتے تھے تاکہ ان پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ ایک تو وہ نیب اور ایف آئی اے کو آزاد رہنے دیتے کہ وہ جانیں اور اُن کا کام۔ وہ ان کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔ نیب چاہتا تو ان کے وزیروں پر بھی ہاتھ ڈال سکتا۔ ایف آئی اے ان کے ایم این ایز کو بھی پکڑ سکتی ۔ لیکن وہی ہوا جو ماضی میں ہوتا آیا کہ اپنے کرپٹ وزیروں کو بچالیا جاتا۔ باقی چھوڑیں راولپنڈی رِنگ روڈ سکینڈل میں عمران خان کے قریبی دوست اور مشیر ملوث تھے۔ اُن سے وقتی طور پر تو استعفیٰ لیا گیا لیکن چند دنوں بعد وہ موصوف دوبارہ وزیراعظم ہاؤس میں پائے گئے اور پھر وہی موجیں شروع ہو گئیں۔ اگر عمران خان کے پہلے دورِ حکومت کا موازانہ کرنا ہو تو نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت سے کیا جاسکتا ہے جب اُن کی حکومت اپوزیشن جماعتوں پر دھڑا دھڑ مقدمے بنا رہی تھی اور خود حکومت بڑے بڑے چھکے ماررہی تھی۔ لیکن ذہن میں رہے کہ مسٹر اور مسز آصف علی زرداری بے قصور نہیں تھے۔ ہرگز نہیں۔ زرداری کے خلاف جنیوا منی لانڈرنگ سکینڈل ہو یا محترمہ پر نیکلس کا کیس‘ سب کچھ سامنے تھا۔ ہر ڈیل میں چونچ گیلی کرانی ضروری تھی ورنہ فائل آگے نہیں بڑھتی تھی۔ زرداری کو یقین تھا کہ اگر نواز شریف کی سیاست کا مقابلہ کرنا ہے تو شریف خاندان کی طرح مال کمانا ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ برسوں بعد وہ دولت کما کر شریف خاندان کی سیاست کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے گلے جا لگے اور اب دونوں پیسہ بھی اکٹھا کرتے ہیں اور سیاست بھی اکٹھے کرتے ہیں۔ ویسے یوں لگتا ہے کہ آج اگر محترمہ زندہ ہوتیں تو زرداری صاحب نے انہیں بھی شریفوں کیساتھ مل کر حکومت کرنے پر قائل کر لینا تھا جیسے انہیں اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ اگر نواز شریف کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر نواز شریف جتنی دولت بھی کمانی ہوگی۔ زرداری اور شریفوں کے الائنس کا فائدہ یقینا عمران خان کو ہوا کہ وہ اکیلا ان کے خلاف ابھرا اور دونوں کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ یقینا وزیراعظم تو بن گیا لیکن پھر وہی غلطیاں دہرائیں جو نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں کی تھیں۔ میرا ماننا ہے کہ عمران خان اور نواز شریف دونوں کا مائنڈ سیٹ ملتا جلتا ہے۔ دونوں کے نزدیک جمہوریت کا مطلب صرف وزیراعظم بننا ہے۔ وزیراعظم بن کر نہ انہوں نے پارلیمنٹ جانا ہے‘ نہ ہی اداروں کو مضبوط کرنا ہے اور نہ ہی قابل لوگوں کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں آگے لانا ہے۔ اب خدا کیلئے مجھے یہ نہ بتانا شروع کر دیجیے گا کہ خان سے بڑا میرٹ پسند کوئی نہیں تھا۔ میرٹ والی بات 1992ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کیساتھ ہی ختم ہوگئی تھی۔ اس کے بعد انہیں پاور میں کمزور اور کمپرومائزڈ کردار ہی اچھے لگے جس کی نشانی عثمان بزدار اور محمود خان ہیں۔ کمزور اور نالائق لوگوں کو اعلیٰ عہدے دے کر ان سے وفاداری کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اگر عمران خان اپنے اردگرد نالائق لوگ تلاش کرکے انہیں بڑے عہدے دے رہے تھے تو نواز شریف اپنی فیملی سے باہر نہیں جا سکے۔ میں حیران ہوتا ہوں یہ قوم اب بھی سمجھتی ہے کہ وہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر لے کر جارہے تھے اور اگر انہیں نہ ہٹایا جاتا تو وہ اس وقت امریکہ کو ٹکر دے چکے ہوتے۔ خیر میں تو ہمیشہ اس حق میں تھا خان صاحب کو پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے تاکہ وہ یوکرین کے ہینڈسم صدر زیلنسکی کی طرح کوئی بڑے بڑے کام کرتے۔ دوسری طرف نواز شریف چوتھی دفعہ وزیراعظم کے امیدوار ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے اسحاق ڈار کو بھی لانچ کر دیا ہے جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کو پاور شیئرنگ نہیں کرنے دیتے۔ وہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ نواز شریف وزیراعظم بن کر کبھی کبھار پاکستان کا بھی دورہ کرلیتے ہیں ورنہ وہ سارا سال باہر ہی سیر سپاٹوں پرگزارتے ہیں۔اگرچہ نواز شریف کی ٹیم نہیں بدلی۔ وہی خاندان اور ان کے رشتہ دار‘ جبکہ عمران خان کو وکیلوں کی نئی ٹیم مل گئی ہے جو اَب ان کی پارٹی کے لیڈروں کی جگہ لینے کو تیار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا وہ جو سب اس وقت مفرور ہیں یا انڈرگراؤنڈ ہیں وہ الیکشن میں شریک ہوں گے یا وکیلوں کو اجازت دیں گے کہ وہ ان کے حلقہ میں قدم جما ئیں؟ دوسری طرف اب بات بلاول کے وزیراعظم کے امیدوار سے چلتے چلتے خود آصف زرداری سے خورشید شاہ تک پہنچ گئی ہے۔ ووٹ ملے نہ ملے‘ امیدوار بننے میں کیا ہرج ہے۔ بلاول، زرداری یا خورشید شاہ کو اگر وزارتِ عظمیٰ نہ بھی ملی تو زرداری کی ان سیاسی بڑھکوں کے نتیجے میں سندھ کی حکومت تو بارگین میں مل ہی جائے گی۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved