یہ شِو کمار بٹالوی کی کہانی ہے جو پنجابی شاعری کے آسمان پر شہابِ ثاقب بن کر آیا اور جس کی شاعری کی چاندنی اب تک ہمارے دلوں میں جھلملا رہی ہے ۔ شِو کمار کی کہانی کا آغاز پاکستان کے ضلع نارووال کی تحصیل ظفر وال میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں'' بڑا پنڈ‘‘ سے ہوتا ہے جہاں وہ 23 جولائی 1936ء کو پیدا ہوا۔ وہ ذرا بڑا ہوا تو اسے مقامی سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہی گھر تھا یہی گلیاں‘ گاؤں کا یہی سکول‘ یہی آسمان‘ یہی پرندے اور یہی درخت جن کے درمیان شِوکمار نے اپنی زندگی کے گیارہ سال گزارے ۔ پھر ایک دن اسے ماں باپ نے بتایا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو گئی ہے اور انہیں یہ گھر‘ گاؤں اور وطن چھوڑنا ہو گا۔اپنے گاؤں کے گلی کوچے چھوڑتے ہوئے اس کی عجیب حالت تھی۔ یہ اس کی زندگی میں جدائی کا پہلا تجربہ تھا جس کی کسک اس کی شاعری میں نظر آتی ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ بٹالہ چلے گئے جہاں انہوں نے نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔اب بٹالہ اس کے نام کا حصہ بن گیا اور یوں شِو کمار اب شِوکمار بٹالوی بن گیا۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی سے میڑک (اس زمانے میں میڑک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیتی تھی) کا امتحان پاس کیا اور پھر بٹالہ کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا‘ لیکن سیکنڈ ائیر میں کالج کو خیر باد کہا اور پھر ہما چل پردیش میں واقع ایک سکول میں سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کے پروگرام میں داخلہ لیا‘ لیکن یہ ڈپلومہ بھی مکمل نہ کیا اور یوں تعلیم کا سلسلہ رُک گیا۔
ہما چل پردیش میں تعلیم کے دوران شِوکمار کو بیج ناتھ میلے میں جانے کا موقع ملا۔ یہ میلہ ہر سال ہوتا تھا جہاں بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں اور جوان آتے تھے۔ لوگوں کی اسی بھیڑ میں اس نے ایک لڑکی کو دیکھا ‘ جس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ ایک جادو بھری کشش جس نے شِو کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملے تو انہیں یوں لگا جیسے وہ کئی جنموں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اس لڑکی کا نام مینا تھا۔شِو کمار میلہ دیکھ کر گھر لوٹا تو اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی ۔ اٹھتے بیٹھتے ‘ چلتے پھرتے ایک ہی چہرہ اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ میلے میں ملنے والی مینا کا چہرہ جس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ اس نے دل کو بہت سمجھایا لیکن آخر دل سے ہار مان کر فیصلہ کیا کہ وہ مینا سے ملنے اس کے گھر جائے گا۔مینا کے گھر جاتے ہوئے اس کے دل کی عجیب سی کیفیت تھی۔ کیسا ہو گا وہ لمحہ جب وہ اس خوبصورت چہرے اور ساحر آنکھوں کو پھر سے دیکھے گا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب وہ مینا کے گھر پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ وہ جادو بھری آنکھیں تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی پیں۔ مینا اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ چند دن کی بیماری کے بعد مینا موت سے ہار گئی۔ شِو کمار مینا کی موت کی خبر سُن کر سکتے میں آ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی دنیا کا اختتام ہو گیا ہے۔
مینا کی جدائی نے شِو کمار کے سینے میںشاعری کی چنگاری کو تیز بھڑکتے شعلے میں بدل دیا۔ اس کی شاعری محض ردیف اور قافیہ کی مشق نہیں تھی بلکہ دل کے نہاں خانوں سے نکلی ایک ہُوک تھی جس نے سننے والوں کے دلوں کو اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔ بہت بعد میں جب بی بی سی کے ایک انٹرویو میں شِو کمار سے پوچھا گیا کہ اس کی شاعری کے پس منظر میں کیا عوامل ہیں تو اس نے کہا تھا کہ اس کی شاعری کے پیچھے کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ بہت سی وجوہات نے اسے شاعر بنا دیا۔ شِو کے والد پٹواری تھے جن کا تبادلہ مختلف علاقوں میں ہوتا رہتا تھا۔ اب وہ قادیان میں پٹواری تھے۔ شِوکمار بٹالوی کی شاعری نے خاص وعام کو چونکا دیا تھا۔ شِو کمار خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ خوش لباس بھی تھا۔وہ بات کرتا تو اس کے لہجے کی نرمی دوسروں کے دلوں میں گھر کر جاتی۔ اور پھر قدرت نے اسے خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ یوں جب وہ ترنم سے اپنے اشعار بلند آواز میں سناتا تو لوگوں کے دلوں کی دنیائیں تہہ و بالا ہو جاتیں۔شعر سناتے وقت شِو کمار بٹالوی پر رقت طاری ہو جاتی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے اور اسکی پُرسوز آواز سننے والے بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاتے۔
1960ء میں جب اس کی عمر23 برس تھی اس کی پہلی کتاب ''پیڑاں دا پراگ‘‘ شائع ہوئی جس نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی‘ جس کے موضوعات‘ لفظیات (Vocabulay) اور جذبے کی شدت نے لوگوں کو چونکا دیا۔اب اسے مختلف تقریبات میں بلایا جاتا اور جب وہ ترنم سے اپنا کلام پڑھتا تو جذبے کی شدت اس کی آواز میں جھلکتی اور سننے والے بھی جذبے کی اس حدت کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتے۔ پنجابی کی معروف گلوکارہ سریندر کور کی بیٹی ڈولی گلیریا‘ جو خود بھی گلوکاری کا ایک اہم نام ہے‘ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ بچپن میں اپنے والد کے ہمراہ ایک فنکشن میں گئی جہاں شِوکمار بٹالوی اپنا کلام سنا رہا تھا ۔ ڈولی کی عمر اس وقت گیارہ برس کی تھی۔ ڈولی نے دیکھا ایک خوبصورت جوان جس نے زرد رنگ کا کرتا زیب تن کیا تھا‘ سٹیج پر شعر سنا رہا تھا۔ اس کی آواز میں بلا کا سوز تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی تھی اور اس کا خوبصورت زرد رنگ کا کرتا اس کے آنسوؤں سے بھر گیا تھا۔ تب اس نے اپنے والد سے پوچھا ''یہ آدمی شعر پڑھتے ہوئے رو کیوں رہا ہے؟‘‘ ڈولی کو یاد ہے اس کے والد نے کہا تھا ''بیٹا تم ابھی چھوٹی ہو۔ تم ابھی اس بات کو نہیں سمجھ سکو گی‘‘۔
شِو کمار بٹالوی کی شاعری کلاسیک اور جدت کا امتزاج ہے۔ اسی طرح اس کی لفظیات میں شہری اور دیہی زبان کا ذائقہ ملتا ہے۔ شِو کمار کی شاعری کو دیکھنے کا صرف ایک زاویہ نہیں‘ کچھ نقادوں نے اسے برہا (جدائی) کا شاعر کہہ کر اس کی شاعری کو صرف ایک موضوع تک محدود کر دیا ہے۔ شِو کی شاعری میں موضوعات اور لفظیات کی ایک وسیع رینج ہے۔ اس نے خود کو ادب کی کسی ایک صنف تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت‘ غزل‘ نظم‘ منظوم ڈرامے کی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ اس کی تشبیہات اور اس کے استعارے اردگرد کے ماحول سے لیے گئے ہیں۔ ایک گیت میں امیجز ملاحظہ کریں:
تینوں دیواں ہنجواں دا بھاڑا
نی پیڑاں دا پرا گا بھُن دے
بھٹی والیے
بھٹی والیے نی چنبے دئیے ڈالیے
(میرے آنسوؤں کی قیمت کے عوض میرے دکھوں کو بھون دے۔ اے بھٹی والی تم چنبے کے پھول کی ڈالی جیسی ہو)
شِو کمار ایک حساس طبیعت کا مالک تھا۔ جو چیزوں کو شدت سے محسوس کرتا تھا۔ اس کا پہلاجذباتی تجربہ1947ء میں پاکستان سے بھارت ہجرت تھی۔ تب اس کی عمرصرف گیارہ برس تھی۔ اپنے گاؤں‘ گلی کوچوں اور دوستوں سے بچھڑنے کا تجربہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہا۔ شِو کمار بٹالوی کی زندگی کا دوسرا اہم جذباتی تجربہ بیج ناتھ کے میلے میں ملنے والی لڑکی مینا سے جدائی تھا جس نے اس کی شاعری کے جذبے کو مہمیز دی لیکن اب ایک نیا طوفان اس کی زندگی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ایک ایسا طوفان جس نے اس کی زندگی اور شاعری کو ایک نیا رُخ دینا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved