روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مشرقِ وسطیٰ کے سرپرائز وزٹ میں متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی حکمرانوں سے بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ ابوظہبی کے صدارتی محل میں صدر پوتن کا 21 توپوں کی سلامی سے استقبال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے خطے کے استحکام کو یقینی اور تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ ملاقات اسرائیل حماس جنگ کے عواقب سے زیادہ مؤثر انداز میں نمٹنے کی حکمت عملی کا حصہ تھی جو دراصل مشرقِ وسطیٰ میں بتدریج سکڑتے امریکی کردار سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی کوشش تھی۔ بعدازاں صدر پوتن نے ریاض میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی‘ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ صدر پوتن‘ جنہوں نے یوکرین کی جنگ کے آغاز کے بعد سے شاذ و نادر ہی روس چھوڑا‘ دنیا کے سب سے بڑے خام تیل برآمد کنندہ ملک کے ولی عہد کیساتھ بالخصوص جغرافیائی سیاست بارے کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی دو ماہ سے زائد عرصہ سے جاری بمباری کو صدر پوتن نے امریکی ڈپلومیسی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کیساتھ دوستانہ تعلقات کے باعث ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔ عالمی طاقتوں کی طرف سے فلسطین تنازع بارے سنجیدہ اقدام حماس کی جدوجہد کی کامیابی کا واضح اشارہ ہیں۔ مسئلہ فلسطین اب ملکوں اور قوموں کے مابین تنازع سے آگے بڑھ کر خانہ جنگی کی حد تک پھیل گیا ہے جسے زیادہ دیر تک برداشت کرنا اسرائیل کیلئے مشکل ہو جائے گا۔ خود امریکی ایوانِ نمائندگان کی قابلِ لحاظ تعداد کے علاوہ حکمران ڈیموکریٹ پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کی طرف سے بھی جنگ بندی کے مطالبات سے لگتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کی اندھی حمایت مغربی معاشروں میں بھی داخلی تقسیم بڑھا رہی ہے۔
ادھر اسرائیلی فورسز نے گزشتہ ہفتے شمالی غزہ میں بمباری کی نئی لہر کیساتھ زمینی جنگ کو وسعت دے کر بیشتر علاقوں تک پھیلا دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے جنوبی شہر خان یونس میں جاری شدید لڑائی کو پانچ ہفتوں پہ محیط زمینی جنگ کا سب سے شدید دن قرار دیا۔ غزہ میں تقریباً 18ہزار شہری شہید جبکہ 46ہزار زخمی ہو چکے ہیں‘ شہدا میں 70فیصد خواتین و بچے شامل ہیں۔ بہت سے لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے الزام لگایا کہ عسکریت پسند رہائشی علاقوں میں شہریوں کو انسانی ڈھال بناتے ہیں لیکن اسرائیل نے ان فضائی حملوں کی تفصیل نہیں بتائی جن میں پورے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران 100سے زائد یرغمالیوں کے بدلے 240فلسطینیوں کو اسرائیلی قید سے رہائی ملی۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نیتن یاہو اور جنگی کابینہ کیساتھ ایک میٹنگ میں کابینہ اراکین پر چِلا اٹھے اور ان پر الزام لگایا کہ ان کے پاس باقی یرغمالیوں کو واپس لانے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ شمالی غزہ میں ‘ جہاں اسرائیل زبردست طاقت کیساتھ داخل ہوا تھا‘ حماس کی دفاعی جنگ لڑنے کی مسلسل صلاحیت اس بات کا اشارہ ہے کہ مزید بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے بغیر حماس کو ختم کرنے کا دعویٰ مضحکہ خیز ثابت ہو گا۔ کئی ہفتوں کی بمباری کے بعد بھی غزہ میں حماس کے سرکردہ رہنما یحییٰ سنوار‘ جن کا مقام نامعلوم ہے‘ گزشتہ ہفتے جنگ بندی کے پیچیدہ مذاکرات اور متعدد یرغمالیوں کی رہائی مینج کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ جنگ اگرچہ فلسطینی شہریوں کیلئے تباہ کن تھی مگر یہ عربوں کے خلاف اسرائیل کی پچھلی چاروں جنگوں کو گرہن لگا گئی۔ اس جنگ نے عالمی سطح پہ اسرائیلی بربریت اور مظلوم فلسطینیوں کی مبنی برحق مزاحمت کو اجاگرکرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ گویا مہیب جنگی مظاہر نے اسرائیل سمیت عالمی طاقتوں کے چنگیزی چہروں سے نقاب اُلٹ کر فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کی اثابت کو دنیائے انسانیت سے منوا لیا۔
امریکہ میں فلسطینی حقوق کے علمبردار کانگریس کی اُس قرارداد کی مذمت کر رہے ہیں جو صہیونیت مخالفت کو یہود دشمنی کے مترادف قرار دیتی ہے جس کا مقصد آزادیٔ اظہار کے حق کو ملتبس کرکے غزہ میں جاری جنگی جرائم سے عوامی توجہ ہٹانا تھا۔ یہ قرارداد امریکہ اور دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف عوامی ردِعمل کو مسترد کرنے کی جسارت تھی۔ قرارداد میں ''دریا سے سمندر تک‘‘ کے نعرے کی مذمت کی گئی جسے فلسطینی حقوق کے علمبردار تاریخی فلسطین کے حوالہ سے مساوات کی فطری اپیل سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکی ایوان نمائندگان نے قرارداد میں ان مظاہرین کو فسادی کہا جو گزشتہ ماہ واشنگٹن ڈی سی میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کیلئے جمع ہوئے۔ یو ایس فلسطینی کمیونٹی نیٹ ورک کے منتظم حسام میراجدہ نے بتایا کہ یہ قرارداد فلسطینیوں کے حقوق کے حامیوں پر تعصب کا الزام لگا کر اسرائیلی پالیسیوں پر انکی تنقید کو نفرت انگیز تقریروں سے منسوب کرنے کی خطرناک کوشش تھی۔ یہ واقعی بری مثال قائم کر گئی۔ قرارداد کا مقصد ہماری جدوجہدِ آزادی کے علاوہ انصاف‘ امن اور مساوات کیلئے انسانی کوششوں کو ناقابلِ فہم طور پہ مجرمانہ سرگرمی بنانا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن سمیت کئی سرکردہ ڈیمو کریٹس نے فلسطینی شہریوں پہ اسرائیل کے فوجی حملوں کی ''غیر متزلزل‘‘ حمایت کر کے ڈیموکریٹک نظریہ کی بنیادیں ہلا دیں۔ تمام عوامی سرویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت جنگ بندی کی حامی ہے لیکن رائے عامہ کے برعکس حکمراں جماعت کی قیادت نے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے صدر دفتر کے باہر جنگ بندی کا مطالبہ کرنیوالوں کے خلاف احتجاج کرکے نئی روایت بنا ڈالی۔ اس موقع پہ ڈیمو کریٹک کانگریس مین بریڈ شرمین نے فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنیوالوں کو ''دہشتگردی کا حامی‘‘ کہا۔ جیوش وائس فار پیس ایکشن کے پولیٹکل ڈائریکٹر بیتھ مِلر نے ڈیموکریٹس کی طرف سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنیوالے سیاسی کارکنوں پر زبانی حملوں کو قابلِ رحم‘ حیران کن اور بڑی سیاسی غلطی قرار دیا۔ اس نے نوٹ کیا کہ رائے عامہ کے جائزوں میں زیادہ تر امریکی بالخصوص ڈیمو کریٹس کی بھاری اکثریت غزہ میں جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے۔ گزشتہ ماہ جاری ہونیوالے اِپسوس سروے میں 68فیصد رائے دہندگان نے اسرائیل سے جنگ بند کرکے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ صرف ڈیموکریٹس میں یہ تعداد بڑھ کر 77فیصد ہو گئی۔ بیتھ مِلر کے بقول کانگریس کے ان اراکین کیلئے اسے مسترد کرکے ان لوگوں پر حملہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی ہواؤں کا رُخ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ڈیمو کریٹک پالیسی اور رائے عامہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ اس امر کی غماز ہے کہ سال بعد آنیوالے الیکشن میں ڈیموکریٹس کو خاص کر مسلمانوں اور بالعموم نوجوان امریکیوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کچھ تجزیہ کار یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ریپبلکن کی وائٹ ہاؤس میں واپسی امریکی جمہوریت کے خاتمہ پہ منتج ہو گی۔ اکتوبر میں عرب امریکن انسٹیٹیوٹ کے تھنک ٹینک نے کہا کہ بائیڈن کیلئے عرب امریکی حمایت میں 42فیصد کمی آئی ہے۔ NBCکے حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 34سال سے کم عمر کے 70فیصد ووٹرز نے صدر جو بائیڈن کی جنگ سے نمٹنے کے طریقہ کار کو ناپسند کیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی وسیع تر رائے دہندگان کیساتھ خود کو ہم قدم رکھنے میں ناکام رہی۔ صدر اور وائٹ ہاؤس کو فریق کے طور پہ نیتن یاہو کی حکومت کیساتھ منسلک کرنے کی جسارت نے ڈیموکریٹک ووٹروں کی اکثریت کو مشتعل کیا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی شاذ و نادر ہی ووٹرز کیلئے اولین ترجیح ہوتی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں تشدد امریکہ کے جمہوری تمدن کیلئے فیصلہ کن مرحلہ بن گیا۔ اقوامِ متحدہ کے کچھ ماہرین نے نسل کشی کے سنگین خطرے بارے خبردار کیا۔ ایسا نہیں لگتا کہ اب سے ایک سال بعد کوئی اسے بھول پائے گا لیکن ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved