تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     13-12-2023

بڑی خبر‘ بڑا صدمہ

بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کے روز مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد کرتے ہوئے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے انتہا پسند مودی سرکار کے پانچ اگست 2019ء کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے اور مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات 30 ستمبر 2024ء تک کرانے کے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بقول بھارتی صدر کے پاس کسی بھی آئین کی منسوخی کا اختیار موجود ہے اور یہ کہ بھارت کو تسلیم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کوئی اندرونی خود مختاری نہیں رکھتا‘ آرٹیکل 370 کا اطلاق عارضی تھا‘ آئین کے آرٹیکل ایک اور 370 کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انصاف کی شہ رَگ پر چھری چلانے کے مترادف ہے۔ ہماری سفارتیں اور وزارتیں ہوں یا سبھی حکومتیں‘ مسئلہ کشمیر پر فوٹو سیشن‘ تقریروں اور بیانات سے ہی ہوا میں تیر چلاتی رہی ہیں۔ ہم ہر سال باقاعدگی سے یومِ یکجہتی ٔ کشمیر روایتی جوش اور ولولے سے مناتے چلے آرہے ہیں‘ ریلیاں بھی نکالتے ہیں اور سیمینار بھی منعقد کرواتے ہیں‘ بھارتی حکمرانوں کو بھی برابر للکارتے اور لہو گرماتی شعلہ بیانیاں بھی کرتے آرہے ہیں پھر بھی بھارت کی ہٹ دھرمی تو دیکھئے کہ اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کے بجائے وہاں ایک سال میں انتخابات کروانے کا حکم بھی دے ڈالا ہے۔ بھارت ہرگز کسی بھول میں نہ رہے کہ ہم اس کے غاصبانہ تسلط کے تسلسل کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے‘ بڑھ چڑھ کر بیانات بھی دیں گے‘ ریلیاں بھی نکالیں گے اور کشمیریوں سے یکجہتی کی قرار دادیں پیش کرکے خود ہی منظور کر ڈالیں گے۔ 54دن بعد پھر کشمیر ڈے آرہا ہے‘ اس مرتبہ پہلے سے کہیں بڑھ چڑھ کر مزید جذبے اور جوش و خروش سے سیمینار اور ریلیوں میں ایمان افروز تقریروں میں سخت تنبیہ کیساتھ ساتھ اتنے پتلے جلائیں گے کہ بھارت کی اگلی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔
کالم کی ابتدائی سطور طنز کے تناظر میں ہرگز نہیں‘ زمینی حقائق ہی جب تمسخر اُڑائے چلے جا رہے ہوں تو نوحے بھی اس طرح قہقہے لگاتے ہیں کہ کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ ان ماتمی حالات میں بین ڈالے جائیں یا دھمال؟ عین ممکن ہے کہ نسل در نسل ریاستی جبر اور نسل کُشی کا شکار کشمیری کسی دن کہہ ہی نہ ڈالیں کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔ ہماری اخلاقی اور سفارتی کوششیں ہوں یا تدبیریں‘ سبھی اسی طرح اُلٹی پڑتی چلی آئی ہیںکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بھارت کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے لے کر سفاکی اور درندگی تک‘ کشمیریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے سے لے کر غاصبانہ تسلط تک‘ اضافہ اور شدت نہ عالمی برادری کو نظر آتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو۔ مقبوضہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کے ظالمانہ اقدام سے چند روز قبل جولائی 2019ء میں سابق وزیراعظم عمران خان امریکی دورے پر تھے کہ اچانک میڈیا پر یہ بڑی خبر بریک ہوئی کہ امریکہ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ اس خبر کی سرکاری سطح پر اس طرح تشہیر کی گئی کہ گویا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو‘ حکومتی شخصیات اور ترجمان ثالثی کی اس پیشکش کو تاریخ ساز سفارتی فتح قرار دیتے رہے۔ ٹاک شوز اور کالموں میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کے ساتھ ساتھ اور نجانے کون کون سی دانشوریاں بھگاری جاتی رہیں۔ میں تب بھی ہوش دلاتا رہا کہ اس خبر کے اندر بھی کوئی نہ کوئی دھچکا اور صدمہ لپٹا ہوگا‘ لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے امریکہ میں ہی اس شاندار سفارتی فتح کا جلسہ بھی کر ڈالا۔24جولائی 2019ء کو شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں جن تحفظات‘ خدشات اور دھڑکے کا اظہار کیا تھا‘ وہ سبھی نہ صرف ناقابلِ تردید حقائق ثابت ہوئے بلکہ 5اگست 2019ء کو بھارت نے آرٹیکل 370کی تنسیخ کر کے کشمیریوں کی مخصوص حیثیت ختم کر ڈالی۔ ثالثی کی خبر میں وہ پیشگی خبر لپٹی تھی جو ہمارے وزیراعظم اور ان کیساتھ دورے میں شامل وزیروں اور مشیروں کے اوپر سے گزر گئی۔ گویا سفارت کاری کے اسرار و رموز سے لے کر رویوں سمیت مخاطب کی باڈی لینگوئج پرکھنے کے ہنر سے سبھی عاری پائے گئے۔ عالمی برادری سے تعلقات ہوں یا دوست ممالک سے مراسم‘ سبھی کے اتار چڑھاؤ میں تاریخی پس منظر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی کی روشنی میں معاملات اور تعلقات بڑھائے اور گھٹائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تاریخ کو صرف پیٹا جاتا ہے‘ بلکہ کوئی سبق حاصل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ اُن دنوں شائع ہونے والے دو کالموں سے چند سطور اس لیے پیشِ خدمت ہیں کہ حکومتوں سے لے کر وزارتوں اور سفارتوں تک سبھی کشمیر کے معاملے میں سنجیدہ تو یقینا ہوں گے لیکن حجتوں اور کوششوں کے نتائج برعکس ہی نکلتے آ رہے ہیں۔
24جولائی 2019ء کوشائع ہونے والے کالم میں لکھا تھا کہ ''وزیراعظم عمران خان امریکہ کے دورے پر ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورانِ ملاقات افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تعاون کا اعتراف کرنے کیساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر بھی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو بڑی خبر قرار دیا جارہا ہے لیکن وطنِ عزیز کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ہمیشہ ڈرامائی ہی رہے ہیں۔پاک امریکہ تعلقات کبھی قابلِ رشک رہے تو کبھی ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔ Do More کا امریکی مطالبہ اس قدر بڑھتا چلا گیا کہ ہماری غیرتِ قومی سے لے کر خود مختاری تک‘ سبھی متاثر ہوتی چلی گئی۔الغرض امریکہ بہادر سے آنے والی سبھی بڑی خبریں بڑے صدمات اور گہرے گھاؤ کا باعث ہی رہی ہیں۔
اسلامی بھائی چارے کا چارہ جہاں بھارت چر چکا ہے وہاں مسلم اُمہ بھی پاکستان کے موقف سے گریزاں ہی رہی ہے۔ بھارت کے ریاستی جبر کی مذمت تو درکنار اُلٹا بھارت کی پذیرائی اور مداح سرائی کے ایسے ایسے مناظر بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ حیرت گم رہ جاتی ہے۔ عرب امارات میں مندر کے افتتاح کے موقع پر فرمانروا بھجن کی لے پر لہکتے پائے گئے۔ اسی طرح بھارت کی بڑی معاشی منڈی سے جڑے تجارتی مفادات ہمیشہ بھارت کی مذمت اور کشمیریوں کی یکجہتی میں رکاوٹ ہی رہے ہیں۔اب بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں 0 ستمبر 2024ء تک انتخابات بھی کروا دیے جائیں گے اور بھارت میں منعقد ہونے والے حالیہ ریاستی انتخابات کے تناظر اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوؤں کی آباد کاری کے پیش نظر وہاں یقینی طور پر بی جے پی کی ہندو حکومت قائم ہو جائے گی جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی بھلائی کے کسی اقدام کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اگر اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہوگیا تو مقبوضہ کشمیر صرف کشمیریوں کا نہیں رہے گا بلکہ بھارتیوں کا بھی ہوجائے گا۔ گویا بھارت میں ضم ہی ہوجائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد اُس کا ریاستی تشخص تو ویسے ہی باقی نہیں رہا لیکن اگر اب بھارتی سپریم کورٹ کے حکمنامے پر بھی عملدرآمد ہو گیا تو نہ رہے گا کشمیر اور ہی رہے گا کوئی مسئلہ کشمیر۔اس تناظر میں پاکستان بھی خاصی ذمہ داریوں سے آزاد ہوسکتا ہے۔ایسی صورت میں کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے کی زحمت کرنا پڑے گی‘ نہ ہی کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے قراردادیںمنظور کرنا پڑیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved