تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     13-12-2023

سانحہ سقوطِ ڈھاکہ

پاکستان کا قیام اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس ملک کا قیام کوئی حادثہ نہیں بلکہ کئی عشروں کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ قائدینِ تحریکِ پاکستان اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد سے اور 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمان طبقہ ہی انگریز سامراج کی نظروں میں معتوب ٹھہرا تھا۔ وہ اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ جدید جمہوری نظام میں ہندو اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو دبانے کے لیے ہر قسم کے منفی ہتھکنڈے کو استعمال کریں گے۔ ہندوؤں نے لگ بھگ ایک ہزار برس تک برصغیر میں رعایا کی حیثیت سے وقت گزارا تھا‘ وہ کسی بھی صورت اب اقتدار کو ہاتھ سے گنوانے کے لیے تیار نہ تھے۔ ہندو اس بات کو سمجھتے تھے کہ عددی اکثریت کے زور پر سینکڑوں برس سے جاری مسلمانوں کی حکومت کو وہ ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی دشمنی میں انگریزوں اور ہندوؤں کا خفیہ گٹھ جوڑ بالکل واضح ہو چکا تھا۔ ان حالات میں مسلمان راہ نماؤں نے طویل غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ مسلمانوں کو برصغیر میں ہندوؤں کے ساتھ یکجا ہو کر رہنے کے بجائے ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔ وہ مسلمان اور ہندوؤں کے اکٹھے رہنے کی صورت میں ہندوؤں کی واضح بالادستی دیکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو مستقبل میں ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے بھی مختلف طرح کے خطرات منڈلاتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ اس بات کو بھی سمجھ چکے تھے کہ ہندو‘ مسلم مخلوط معاشرے میں مسلمان بہنوں‘ بیٹیوں کے نکاح تک غیر مسلموں کے ساتھ ہونے کے خدشات باقی رہیں گے۔ مسلمانوں نے اس بات کو بھی بھانپ لیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں اور کاروبار پر جس انداز سے ہندوؤں کا تسلط ہوگا‘ اس صورت میں مسلمانوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہو جائے گی۔ چنانچہ ایک ایسی مملکت کا قیام وقت کی ضرورت تھا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور مسلمان اپنی مرضی کے مطابق‘ اپنی دینی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی کو گزار سکیں اور کتاب وسنت کی عملداری کو بھی یقینی بنا سکیں۔ ہندوؤں کو مسلمانوں کے ایک آزاد وطن کا خواب بہت برا لگا تھا۔ وہ ایک ہزار سال کی غلامی کا بدلہ برصغیر کے ہر مسلمان سے لینا چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ اس حوالے سے کسی بھی طور دو قومی نظریے کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ تھے لیکن حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، قائدینِ تحریکِ پاکستان، علمائے اسلام اور اکابرینِ ملت کی دور اندیشی اور بصیرت نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ نہ صرف رائے عامہ کو ہموار کیا گیا بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی مسلمانوں کو مسلسل پیش قدمی کرنے کا موقع ملا۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے خطبہ الہ آباد میں اس حقیقت کو واضح کردیا تھا کہ مسلمانوں کو اپنی ایسی علیحدہ خود مختار ریاستیں قائم کر لینی چاہئیں جن میںوہ آزادانہ زندگی گزار سکیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے غلبے کو یقینی بنایا جا سکے۔
قیامِ پاکستان کے لیے برصغیر کے طول و عرض میں تحریک چلائی گئی جس میں پنجابی، پختون، سندھی، بلوچ اور بنگالیوں کی ساتھ ساتھ دیگر قومیتوں کے مسلمانوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا گو کہ ان کے علاقوں کے پاکستان کا حصہ بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ اگر ایک علیحدہ اور آزاد مسلم مملکت قائم ہو گئی تو وہ پورے برصغیر میں مسلمانوں کے تحفظ کی بہت بڑی ضامن ہو گی۔ مسلمان رہنماؤں کی شبانہ روز جدوجہد اور عوام کے متحرک اور مستعد ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بالآخر وہ وقت آ گیا جب پاکستان دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی مسلم مملکت کی حیثیت سے ابھرا۔ پاکستان کا قیام یقینا ہر اعتبار سے خوشی اور مسرت کی خبر تھی اور اس خبر نے عرب و عجم میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ دیا۔ مسلمانانِ عالم اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہو گی ‘پاکستان اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی اور قیام پاکستان کے وقت اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پاکستان میں بسنے والی دیگر اقوام اور سبھی شہریوں کے لیے ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا اور ہر طبقے کی قومی وسائل تک یکساں رسائی ہو گی۔
قیامِ پاکستان کے بعد دین اور مذہب کی افادیت کو سمجھنے والے رہنماؤں کے مدمقابل کئی قوم پرست رہنماؤں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملک میں عصبیتوں کی آگ کو بھڑکایا۔ عصبیتوں کی یہ آگ زیادہ زمینی فاصلہ ہو نے کی وجہ سے بنگال کے علاقے یعنی مشرقی پاکستان میں زور پکڑتی چلی گئی۔ اردو‘ بنگالی تنازعات نے عصبیت کی اس آگ کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اولاً اردو بنگالی تنازع حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کی جا سکیں حالانکہ کسی ایک ملک میں بیک وقت دو یا متعدد قومی زبانوں کا ہونا کوئی بڑی بات نہ تھی، خود بھارت میں کئی علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا لیکن اس مسئلے کو دانشمندی سے حل نہ کیا گیا۔ نتیجتاً منفی ذہن رکھنے والے قوم پرست بنگالیوں نے نسلِ نو کے ذہنوں کو مسموم کرنا شروع کر دیا اور یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ بنگالیوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ بنگال کے قوم پرست رہنماؤں کی تحریک اس اعتبار سے کامیاب رہی کہ پورے بنگال میں عوامی لیگ ایک انتہائی طاقتور جماعت کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ 1970ء تک بہت سے ایسے واقعات رونما ہو چکے تھے کہ جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنگالی قوم پرست رہنماؤں نے اپنی قوم کو اس بات کی یقین دہانی کرانے میں کامیابی حاصل کر لی کہ ان کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ 1970ء کے انتخابات اس اعتبار سے فیصلہ کن ثابت ہوئے کہ ان انتخابات میں جہاں پاکستان کے مغربی علاقوں میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی‘ وہاں پاکستان کے مشرقی حصے (موجودہ بنگلہ دیش) میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے تقریباً تمام نشستیں جیت لیں۔ اصولی طور پر اس انتخابی فتح کے بعد اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کرکے اس کے تجربات سے استفادہ کیا جانا چاہیے تھا لیکن انتقالِ اقتدارکے عمل کو مکمل نہیں ہونے دیا گیا۔ بعض عاقبت نااندیشوں نے قومی عصبیت کی بنیاد پر عوامی لیگ کو اس کے جائز سیاسی مینڈیٹ سے محروم کرنے کی کوشش کی۔ اس وجہ سے قوم پرست بنگالیوں کو مزید نفرت کو پھیلانے کا موقع مل گیا۔ اس موقع پر پیدا ہونے والے کھنچاؤ اور تناؤ کا بھارت نے مکمل طور پر فائدہ اٹھایا اور بنگالی قوم پرست رہنماؤ ں کو اس بات پر اکسایا کہ وہ ریاستِ پاکستان کے خلاف بغاوت کر دیں۔ حالات اس نہج پر آ چکے تھے کہ سیاسی اعتبار سے ہونے والی بدانتظامی، غفلت اور کوتاہی کا ازالہ نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں میں جو احساسِ محرومی پیدا ہو چکا تھا‘ اس کا ازالہ طاقت کے استعمال کے ذریعے ممکن نہ تھا لیکن جب مسئلے کو سیاسی طریقے کے بجائے طاقت ہی سے حل کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس تصادم کے دوران ریاست کا مقابلہ فقط قوم پرست بنگالیوں کے ساتھ نہ تھا بلکہ براہِ راست بھارت کی فوج اور اس کے تربیت یافتہ قوم پرست بنگالی گوریلا بھی ریاستِ پاکستان کے خلاف صف آرا تھے۔ اس کشمکش میں ریاست کامیاب نہ ہو سکی اور بنگالی قوم پرست اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ نتیجتاً دسمبر 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ پاکستان کے مشرقی بازو کا پاکستان سے کٹ جانا بہت بڑا سانحہ تھا اور اس سانحے پر پوری دنیا میں کرب اور غم کو محسوس کیا گیا۔ پاکستان کے محب وطن لوگ‘ جو اس وقت سیاست میں سرگرم تھے‘ نے اس سانحے کو سقوطِ بیت المقدس کے بعد دوسرے بڑے سانحے سے تعبیر کیا۔ مسلمانوں کی ایک نظریاتی ریاست کا قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہو جانا یقینا ایک ایسی المناک خبر تھی کہ جس پر جتنا بھی غم کیا جائے‘ اتنا ہی کم ہے۔
قیامِ بنگلہ دیش ایک بہت بڑے سانحے کی بات تھی لیکن اس سانحے سے جو اسباق حاصل کرنا چاہئیں تھے‘ دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ وہ آج تک حاصل نہ کیے گئے۔ ابھی تک ملک کے کئی مقامات پر قوم پرستی اور عصبیت کی بنیاد پر سیاسی رسہ کشی جاری و ساری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر انتخابات کے موقع پر ایک بڑ ی جماعت یا ایک بڑے طبقے کا یہ الزام لگانا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے‘ یہ کسی بھی طور ملک کے سیاسی استحکام کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اگر ہم پاکستان کو سیاسی استحکام کی ڈگر پر چلانا چاہتے ہیں تو علاقائی عصبیتوں کے بجائے قومی مفادات کے لیے ہمیں یکسو ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے مذہب کی افادیت کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ مذہب پاکستان کی قوت میں اضافے کا سبب بنتا ہے لیکن بعض لوگ اس قوت یعنی مذہب کو پاکستان کے ریاستی امور سے الگ کرنے کے خواہشمند ہیں حالانکہ اس سے پاکستان کی وحدت کو غیر معمولی نقصان پہنچے گا۔ اگر ہم پاکستان کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کو نظریاتی اعتبار سے مضبوط کرنا ہو گا۔ اس وقت پاکستان کو نظریاتی اعتبار سے کھوکھلا کرنے کے لیے متعدد اطراف سے وار کیے جا رہے ہیں۔ ٹرانس جینڈر بل‘ اخلاق باختہ نعروں پر مبنی مارچ اور اس قسم کی دوسری سرگرمیوں کی شکل میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کا سرعام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بہت سے ایسے معاملات جاری ہیں جو دین اور مذہب کی رو سے کسی بھی طور پر درست نہیں ہیں۔
ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو یکسو ہو کر اس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا لہٰذا اس کے نظریے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی اتفاق کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں کسی بھی قسم کی دھاندلی کے امکان کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے گا تاکہ پاکستان سیاسی استحکام کے راستے پر گامزن ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved