گزشتہ کئی سال سے کچھ خبریں ہمارے ہاں مستقل شائع ہورہی ہیں۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ زمانہ بدل جاتا ہے۔ حالات بدل جاتے ہیں۔ لیکن جو خبریں میں آج آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ نہیں بدلتیں۔ حیرت اس پر ہے کہ ان خبروں کو شائع کرنے یا ٹی وی پر سنانے والے‘ اکتاتے نہیں۔ مزید حیرت یہ ہے کہ پڑھنے والے بھی نہیں اکتاتے۔اس طرح کی مستقل خبروں کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔ جمہوریت پاکستان جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہوا۔ یہاں ہمیشہ جمہوری نظام قائم رہے گا۔ جمہوریت جلد بحال کی جائے گی اور پھر جمہوریت کئی بار بحال ہوئی۔ اسے ایوب خان نے بحال کیا۔ یحییٰ خان نے بحال کیا۔ ضیاالحق نے بحال کیا۔ پرویزمشرف نے بحال کیا۔ ان دنوں ساتویں مرتبہ بحال شدہ جمہوریت قائم ہے اور انشاء اللہ قائم و دائم رہے گی۔ عوام اس وقت جمہوریت کے فیوض و برکات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے جمہوریت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مہنگائی سے لوڈشیڈنگ تک‘ ہر چیز کی افراط ہے۔ کرپشن کی بہار ہے۔ پولیس کے وارے نیارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو جمہوریت بہت پسند ہے اور سب سے زیادہ ہماری سیاسی جماعتوں کو پسند ہے۔ جمہوریت میں انتخابات ہوتے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے۔ دھاندلی سے حکومتیں بنتی ہیں۔ ہماری جمہوریت گزشتہ 5سال کے دوران زیادہ مستحکم ہوئی۔ دھاندلی کو بھی استحکام ملا۔ حالیہ انتخابات اس کی شاندار مثال ہیں۔ دھاندلی میں ترقی کا جو ریکارڈ حالیہ انتخابات میں قائم ہوا‘ اسے مشکل سے ہی توڑا جا سکے گا۔ ریکارڈ یہ ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے‘ جن میں صرف 6 ہزار صحیح نکلے۔ اگر جمہوریت مزید مستحکم رہی‘ تو ہو سکتا ہے آنے والے انتخابات میں ڈیڑھ لاکھ ووٹ ڈالے جائیں اور ان میں صرف 3 ہزار صحیح نکلیں۔ایسے انتخابات کے نتیجے میں زیادہ مستحکم جمہوریت قائم ہو گی۔ کلچر کو خطرہ یہ خبر پاکستان بننے کے چند مہینوں بعد ہمارے روزمرہ کا حصہ بنی اور اس کے بعد اس کی تکرار اور مذمت دونوں بڑھتے گئے۔ پہلے بھارتی اخبارات‘ پاکستان میں آیا کرتے تھے۔ ان سے کلچر کو خطرہ لاحق ہوا۔ احتجاجات ہوئے اور آخر کار ان پر پابندی لگ گئی۔ پھر ہمارے کلچر کو بھارتی فلموں سے خطرہ لاحق ہو گیا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری اورعلمائے دین نے بھارتی فلموں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ بھارتی فلموں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے نتیجے میں‘ پاکستانی فلم انڈسٹری برباد ہونے لگی اور جب تک بھارتی فلمیں بند رہیں‘ پاکستانی فلم انڈسٹری تباہ ہوتی گئی۔ قومی فلموں نے پاکستانی کلچر کو اتنا متاثر کیا کہ شرافت سے بولنے والے بھی غنڈوں کے لہجے میں بات کرنے لگے۔ سینما ہال بے آباد ہو گئے۔ کچھ کو گرا کر مارکیٹیں بنا دی گئیں۔ کسی سینما گھر کو مسمار کر کے شادی گھر بنا دیا گیا۔ یہ سلسلہ تیزی سے جاری تھا کہ اچانک بھارتی فلمیں درآمد ہونے لگیں۔ نتیجے میں شائقین نے ایک بار پھر سینما گھروں کا رخ کیا۔ اب پاکستانی فلم انڈسٹری بھی دوبارہ زندہ ہونے لگی ہے۔ لیکن بھارتی کلچر پھر سے ہمارے کلچر کو خراب کرنے لگا ہے۔ مزیدستم یہ ہے کہ بھارتی ٹی وی چینل بھی‘ پاکستانی کلچر کو تباہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستانی کلچر کو زندہ سلامت رکھ۔ کیونکہ ہمارے سارے کام ہی اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور اتنے زیادہ کرتا ہے کہ ہم سب اپنے کام خود کرنا بھول چکے ہیں۔ لوڈشیڈنگ قیام پاکستان کے کئی برس بعد تک ‘ہم نے اس مصیبت کا نام نہیں سنا تھا۔ جیسے جیسے آمرانہ حکومتیں او ر مستحکم جمہوریتیں آتی رہیں‘ لوڈشیڈنگ کی پیداوار بڑھتی گئی۔ قریباً ایک عشرہ پہلے لوڈشیڈنگ کے قابل توجہ نمونے دیکھنے میں آئے۔ مگر آگے چل کر تو لوڈشیڈنگ ‘ گیس اور بجلی دونوں پر غالب آتی گئی اور آج اللہ کے فضل و کرم سے جتنی بجلی آتی ہے‘ اس سے زیادہ لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ بجلی 8 گھنٹے ملتی ہے‘ تو لوڈشیڈنگ 16 گھنٹے دستیاب رہتی ہے۔ ہماری ہر حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ اعلان کرنے والی حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت بھی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے زبردست اعلانات کر رہی ہے۔ مگرعوام کو یقین ہے کہ حکومت ختم ہو جائے گی۔ لوڈشیڈنگ برقرار رہے گی۔ اگلی حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے اعلانات پھر دہرائے گی۔ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ لوڈشیڈنگ برقرار رہے گی۔ ہر نئی حکومت کے دور میں بجلی کی چوری اور لوڈشیڈنگ میں ہونے والا اضافہ‘ اس بات کا ضامن ہے کہ اہل وطن لوڈشیڈنگ سے عشروں تک لطف اندوز ہوں گے۔ قربانی میرے ناقص علم کے مطابق چند روز میں 1435واں حج ہونے جا رہا ہے اور ہم اتنے ہی سالوں سے عید الاضحی کے موقع پر قربانیاں دیتے آ رہے ہیں۔ عیدین بھی مناتے آ رہے ہیں۔ ہر عید اور ہر قربانی کے موقع پر ہمارے علمائے کرام یہ احسان فرماتے ہیں کہ دونوں فرائض ادا کرنے کے طریقے یاد دلانا نہیں بھولتے۔ عیدین کی نمازیں ہوں‘ تو امام صاحب نماز شروع ہونے سے پہلے ‘ تمام نمازیوں کو یاد دلا دیتے ہیں کہ انہیں اتنی تکبیروں کے بعد رکوع اور سجدوں میں جانا ہو گا اور قربانی کے موقع پر پھر یاد دلاتے ہیں کہ قربانی دیتے وقت بکرے کی عمر ایک سال اور گائے بیل کی عمر 2سال ہونا چاہیے۔ یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ قصائی کا مسلمان ہوناضروری ہے۔ نمودونمائش کے لئے قربانی دینا مناسب نہیں۔ البتہ گائے یا بکرے کو سجا بنا کر پورے محلے کے چکر لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ قربانی عید کی صبح سے تیسرے دن کی شام تک‘ غروب آفتاب سے قبل کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ ہم اسلام کے لئے اپنی جانیں‘ بکرے‘ بیل‘ دنبے اور اونٹ قربان کر سکتے ہیں۔ لیکن قربانی اور نمازیں ادا کرنے کے طور طریقے پورا سال یاد نہیں رکھ سکتے۔ دہشت گردی یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فخریہ پیش کش ہے۔ ہم نے دہشت گردی کا پہلا کارخانہ 1948ء میں لگا دیا تھا۔ جب نان سٹیٹ ایکٹرز ‘ ریاست جموں کشمیر کو فتح کرنے نکلے تھے۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا کہ بھارت نے اپنی فوجیں اتار دیں اور مجاہدین کو کشمیر کے چھوٹے سے حصے پر قناعت کر کے بیٹھ جانا پڑا۔ ان مجاہدین کی کارروائیوں کو بھارت والوں نے دہشت گردی قرار دیا اور ہم نے جہاد۔ دوسرا موقع بہت عرصے کے بعد ہمارے ہاتھ لگا۔ جب سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کر دیں۔ افغانوں کی بجائے‘ ہم نے اس موقع کو جہاد کے لئے غنیمت سمجھا اور کافروں سے سرمایہ ا ور اسلحہ لے کر افغانستان میں جہاد شروع کر دیا۔ افغان حکومتیں اسے دہشت گردی قرار دیتی رہیں اور ہم اصرار کرتے رہے کہ یہ جہاد ہے اور پھر یوں ہوا کہ مجاہدین نے ہمارے اپنے شہروں میں کافرانہ نظام کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔ جب ہمارے اپنے گھر جلنے اور شہری شہید ہونے لگے‘ تو ہم بھی افغان اور بھارتی حکومتوں کی طرح اسے دہشت گردی کہنے لگے۔ ہماری کئی حکومتیں دہشت گردی پر قابو پانے کے وعدے کرتی کرتی‘ گھروں کو چلی گئیں۔ مگر دہشت گردی پھول پھل رہی ہے۔ گزشتہ 35سال سے جہاد کی یہ خبریںہماری مستقل خبروں کا حصہ بن چکی ہیں اور امید ہے کہ آنے والے کئی عشروں تک دہشت گردی اور جہاد کی خبریں ہمارے میڈیا میں مستقل طور سے براجمان رہیں گی۔ چند مزید مستقل خبریں نابالغ بچیوں سے زیادتی۔ اغوا شدہ دوشیزہ برآمد۔ زبردست پولیس مقابلہ‘ جس میں 6ڈاکو ہلاک ہو گئے اور کسی پولیس والے کو زخم نہیں لگا۔ پی آئی اے کی پرواز میں 6گھنٹے تاخیر۔ ملزم عدالت سے فرار۔ سڑک پہلی ہی بارش میں بہہ گئی۔ 4بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار۔ بہت سی مستقل خبریں رہ گئی ہیں۔اگر طبیعت مطمئن نہیں ہوئی تو آج کا اخبار اٹھایئے اور مزید مستقل خبروں سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیجئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved