تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     14-12-2023

غائب ہونے کے لیے حاضر بادشاہ

شگر کی سرسبز اور حسین وادی نہیں دیکھی تو آپ گویا بلتستان گئے ہی نہیں۔ شگر کی حسین وادی سکردو سے آدھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ وادی نہایت زرخیز ہے لیکن اس کے راستے میں خالص ریت کا ''سرفہ رنگہ ‘‘ صحرا بھی پڑتا ہے جہاں گھاس کی پتی بھی دکھائی نہیں دیتی اور جہاں مشہور کولڈ ڈیزرٹ کار ریلی منعقد ہوتی ہے۔ یہ لق و دق دشت ہے جو حدِ نظر تک پھیلا ہوا ہے۔ بنجر پہاڑوں اور بکھری چٹانوں کے درمیان سے سڑک گزرتی ہے تو دور دور تک آبادی کے آثار نظر نہیں آتے۔ پھر ایک موڑ کاٹ کر چاندی کی طرح آبشار گرتی اور پہاڑی نالہ بہتا دکھائی دیتا ہے۔ وادیٔ شگر میں داخل ہوتے ہی پہاڑی قصبوں کا رنگ واضح نظر آنے لگا۔ بل کھاتا تنگ بازار اور راستہ‘ دونوں طرف مکانات۔ قصبے میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ لکڑی کی تعمیر کردہ قدیم مسجد اور خانقاہ دکھائی دیتی ہے۔ ذرا سا آگے بڑھیں تو تند و تیز نالے کیساتھ ذرا اونچائی پر دائیں ہاتھ شگر کے راجہ کا قلعہ آجاتا ہے۔
یہ قلعہ پھونگ کھرکہلاتا ہے۔ پھونگ (چٹان)‘ کھر( قلعہ)۔ اسے ایک چٹان پر بنایا گیا تھا۔ سالہا سال کے احوال دیکھتے دیکھتے قلعہ خستہ حال ہو چکا تھا چنانچہ 2005ء میں اسے اس کی پرانی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اب اس قلعے میں ہوٹل‘ ریزارٹ اور میوزیم واقع ہے۔ سیاح کچھ دیر کیلئے یہاں پہنچ کر خود کو اسی زمانے میں محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ اس عہد میں ہونا نہ ہونے جیسا ہی ہوتا ہوگا پھر بھی قدیم خوشبو ہر زمانے میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ میں خود اس شوق کا اسیر ہوں لیکن اس قلعہ ہوٹل کے چھوٹے اور گھٹے ہوئے کمرے دیکھ کر یہ ضرور سوچا کہ خدا جانے لوگ اس میں کس طرح رہتے ہوں گے۔ان کمروں میں اس زمانے کے برتن ‘ اوزار‘ جہازی صندوق اور ہتھیار بھی رکھے گئے ہیں۔ گویا دربار حاضر اور بادشاہ غائب ۔اور تاریخ میں بادشاہ غائب ہونے کے لیے ہی حاضر ہوا کرتے ہیں۔
نیم روشن اور تنگ کمروں کی تلافی محل کی بارہ دری اور سبزہ زار کر دیتے ہیں۔ بارہ دری کے قریب بچھے تخت کے عقب میں گنگناتا پہاڑی چشمہ اپنی دُھن میں کچھ بولتا تھا۔ پیڑ سرسراتے تھے اور ہوائیں سرگوشیاں کرتی تھیں۔ بارہ دری کے قریب سبزہ زار میں چنار کا ایک قدیم اور بہت بڑا درخت ہے جو شاید کسی وقت آگ لگنے سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ آتشِ چنار مشہور ہے۔ روایت ہے کہ پانچ سو سال بعد چنار میں خود بخود آگ لگ جاتی ہے۔ اس قدیم چنار کے درخت کا تنا بھی سطحِ زمین کی بلندی پر کھوکھلا ہے۔ یہ اتنا بڑا شگاف ہے کہ میں باآسانی درخت کے اندر چلا گیا۔ درخت کے گھیر میں تین چار آدمی پورے قد کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اگلے سبزہ زار میں پہنچے تو چیری کا پیڑ پھلوں سے سرخ ہو رہا تھا۔ کچے سیبوں سے درخت بھرے ہوئے تھے اور خوبانیاں پک کر فرش پر ٹپک رہی تھیں۔ انگور کی گھنی بیلوں تلے تخت‘ کرسیاں اورمیز بچھے تھے۔ چائے اور قہوہ حاضر تھا۔ ساتھ ہی قلعے کی دیوار تھی اور دیوار کے پار سڑک کے ساتھ پُرشور جھاگ اڑاتا ٹھنڈا‘ شفاف شگر نالہ۔ خدایا تیری جنت پھر کتنی حسین ہوگی۔
قلعے کی سیر کے بعد ایک خوبصورت جگہ پر ایک ہوٹل ڈھونڈ کر گھر سے لایا ہوا مزیدار کھانا کھایا اور اس کے بعد ''ہشوپی‘‘ کا رُخ کیا جو وادیٔ شگر ہی کا ایک مقام ہے۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم ہشوپی پہنچ گئے۔ یہاں ایک بہت بڑا سرکاری ایگری فارم اور نرسری ہے جس میں پھل دار اور پھول دار پودے لگے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں اورچشموں کے بیچ اس فارم کی خوبصورتی بالکل الگ رنگ کی ہے اور رنگا رنگ پھولوں نے اسے مزید پُر بہار کردیا تھا۔ للی (lilly) کے زرد اور سفید پھول اس منظر کی جان تھے۔ ہم نے جی بھر کے شگر کی موٹی‘ رسیلی خوبانیاں کھائیں۔ سیب کے باغ کی سیر کی۔ پھولوں میں گھومے اور قہوے سے تھکن اتاری۔ ہم شگر سے واپسی کا سفر کرتے تھے اور ایک مہک سی رگِ جاں میں سفر کرتی تھی۔
سکردو میں ہم نے ایک نئی جگہ کَت پنا جھیل اور گلیمپ دیکھنے کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ یہ جگہیں سکردوکے قریب ہیں اس لیے دوپہر کے کھانے کے بعد کَت پنا کی طرف روانہ ہوئے۔ اس جھیل میں کچھ مہینے پانی رہتا ہے۔ باقی ماہ بہت کم پانی کے باوجود بھی یہ جھیل ہی کہلاتی ہے۔ کَت پناکے قریب پشتے اور بندکی طرح تقریباً 150یا 200 فٹ بلند ایک طویل پہاڑی اور ٹیلا ہے۔ اس کے دوسری طرف بھربھری سفید ریت کے ٹیلے ہیں۔ لاہور کے ایک نوجوان نے اس پشتے پر ریزارٹس کی اس روایت کا آغاز کیا ہے جو گلیمپ Glampکے نام سے تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہی ہے اور جو دراصل Glorious campingکا مخفف ہے۔ اس جگہ جن دشواریوں کا سامنا اسے کرنا پڑا ہوگا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ دیکھ اور جان کر خوشی ہوئی کہ ایک سال سے زیادہ مدت سے یہ کیمپ کامیابی سے چل رہا ہے۔ آدھا ٹینٹ نیم پختہ اور زمین دوز ہے۔ دو افراد کا ایک بیڈ‘ واش روم‘ چھوٹی سی نشست گاہ ایک ٹینٹ کا حصہ ہیں اور شیشے کی دیواریں قدرتی منظر آنکھوں سے دور ہونے نہیں دیتیں۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے پوری کَت پنا جھیل وادی اور دور سکردو تک کا نظارہ ایک طرف اور نرم سفید ریت کے ٹیلے دوسری طرف اس منظر کے تنوع اور حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کے ساتھ فطرت سے قریب رہنے کا یہ بہت اچھا اور سادہ سستا طریقہ ہے۔ چنانچہ جرمنی کے سفیر سمیت بہت سے لوگ یہاں کئی دن گزار کر بہت خوش خوش گئے ہیں۔
جب سے میزبانوں سے نانگ سوق نامیاتی گاؤں (organic village) کا ذکر سنا تھا‘ دلی خواہش تھی کہ وہ راستہ ہو اور ممکن ہو تو وہ گاؤں دیکھا جا سکے۔ لیکن راستہ اتنا مشکل تھا کہ اس کے بارے میں سن کر ہی کئی ساتھیوں کی ہمت جواب دے گئی۔ دراصل یہ گاؤں ہے تو دریا کنارے لیکن سکردو سے قریب ہونے کے باوجود یہاں گاڑی نہیں جاتی۔ بلکہ گاڑی کی جہاں آخری حد ہے اس کے بعد پیدل ڈھائی کلو میٹر اور د‘و ڈھائی گھنٹے کا نہایت دشوار سفر ہے جو پتھریلے اور خطرناک پہاڑی راستوں سے بھی گزرتا ہے اور دریا کنارے ریت پر بھی اس کا کافی حصہ ہے۔ ایک دن ہم عصر سے پہلے گھر سے نکلے۔ یہ تو ہمیں اندازہ تھا کہ دشواری اور وقت کی کمی کی وجہ سے ہم نانگ سوق تک نہیں پہنچ سکیں گے لیکن اس راستے پر جہاں تک جا سکیں وہ بھی بہت تھا اور ہماری اصل منزل یہی راستہ تھا۔ نانگ سوق تک رسائی بہت مشکل ہونے اور ضروری چیزیں مشکل سے پہنچنے کے باعث گاؤں والوں کی توجہ اسے ایک آرگینک ولیج بنانے کی طرف دلائی گئی اور یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا۔ یہ بلتستان کا پہلا آرگینک ولیج ہے۔
سکردو کے تاریخی قلعے ''کھر فوچو‘‘ سے کچھ پہلے گاڑی کی آخری حد تھی۔ یہ قلعہ بلندی اور دشوار چڑھائی پر ہے۔ اس کے نیچے سے گزرتے ہوئے ہم نے راجہ کی رانی کا محل بھی دیکھا جو قلعے سے کم بلندی پر تھا اور جس کے بارے میں ایک داستان بھی چلی آتی ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ گلگت سکاؤٹس اور بلتی مجاہدین نے 14اگست 1948ء کو کھرفوچو قلعہ فتح کیا۔ پاکستان بننے کے ٹھیک ایک سال بعد۔ نانگ سوق کا راستہ بہت خطرناک اور بے پناہ خوبصورت ہے۔کافی نیچے پہاڑی دیوار سے دریائے سندھ ٹکراتا ہے۔ سامنے سکردو کی وادی اور شہر پھیلا ہوا ہے اور ہر موڑ پر نیا منظر نظر آتا ہے۔ یہ راستہ ایسا ہے کہ ایک قدم غلط پڑا تو سیدھے نیچے کھائی میں گئے۔ کھائیوں کو عبور کرنے کیلئے جابجا لکڑی کے پل ہیں جن پر ایک وقت میں دو آدمیوں سے زیادہ کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ ایک گھنٹہ اس بلند پہاڑی راستے پر چلنے کے بعد راستہ نیچے اترنے لگا۔ اور کچھ دیر بعد ہم دریا کے کنارے ریت پر تھے۔ یہ جگہ کمال خوبصورت ہے اور دریا بھی اپنا پُرشور بہاؤ بھول کر یہاں پُرسکون ہے۔ سفید ریت‘ ساحل‘ دریا‘ کھلی وادی‘ ہرے درخت‘ سکون اور سکوت۔ اس منظر کیلئے الفاظ کم پڑتے ہیں۔
توکیا حسن کے لیے ہمیشہ الفاظ کم نہیں پڑ جاتے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved