تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-12-2023

پاکستان زندہ باد!

سیاست کی باریکیاں‘ خاص طور پر پاکستانی سیاست کے اتار چڑھائو نجانے کب سے ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں اور ہر بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دائرے کا ایک ایسا سفر جاری ہے کہ جو نہ ختم ہوتا ہے اور نہ اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ سجھائی دیتی ہے۔ گھوم پھر کر ہر بار وہیں پر جا نکلتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ ملکی تاریخ میں ابھی تک تو کوئی ایسا لمحہ‘ ایسا منظر یا ایسی گھڑی نہیں دیکھنے کو ملی کہ جب اپنی مرضی اور مفادات کے تحت آزادانہ فیصلے کیے گئے ہوں۔ کون اس سے انکار کر سکتا کہ جب ایک سے دوسرے‘ ہر در پر کشکول پھیلایا جاتا ہو تو ایسے میں سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لی جا سکتی۔ ایسے میں وجود پر وہ اداسی اور بے چینی طاری ہو جاتی ہے کہ قدم اٹھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور یہ تو پھر ملک اور ریاست کے معاملات ہیں۔ قرض در قرض دلدل میں دھنسا ہوا ملک اپنی پسند‘ ناپسند اور اپنے مفاد کے مطابق فیصلے کیسے کر سکتا ہے؟ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ وہی قوم آگے بڑھتی اور اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو خودداری‘ داخلی استحکام اور خود کفالت کی دولت سے مالا مال ہو۔
دو روز کے بعد ملک کی تاریخ کے سیاہ ترین دن کی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔ سولہ دسمبر کی صورت میں یہ روزِ سیاہ اپنی تمام سوگواری کے ساتھ دوبارہ طلوع ہو گا۔ یہ دن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ایسا سبق دے گیا ہے کہ جس کی یاد اور کسک ہر اس پاکستانی کی جسم و جان میں سرایت کر چکی ہے جسے یہ دھرتی اپنی ماں کی طرح مقدس اور رحم دل لگتی ہے، جو اپنی اس دھرتی کی گود میں اسی طرح سر رکھ کر مسرت و اطمینان محسوس کرتا ہے جس طرح اسے اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر راحت ملتی ہے۔ یہ ایک ایسا سرور ہے جس کی شدت اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب ہم اپنے وطن سے دور ہوتے ہیں۔ اس وقت سبز پاسپورٹ اور سفید و سبز ہلالی پرچم اسی طرح راحت دیتا ہے کہ جیسے کوئی کھویا ہوا بچہ مدتوں بعد والدین کے سامنے آ جانے پر والدین کو راحت ملتی ہے۔
سوشل میڈیا کا عذاب بھی سولہ دسمبر کی تلخیوں کو یادوں سے محو نہیں ہونے دیتا۔ ہر سال بھارت اس موقع پر کوئی نہ کوئی شرارت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اسلئے اگر کوئی سولہ دسمبر کے روزِ سیاہ کو بھولنا بھی چاہے تو دشمن ہمیں یہ لمحہ‘ یہ گھڑی اور یہ دن بھولنے نہیں دیتا، ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ ایک نعمت بھی ہے کہ یہ دن ہمیں یاد رہتا ہے کہ کیونکہ جب تک یہ دن‘ یہ سانحہ ہمیں یاد رہے گا‘ ہمیں ہر وقت یاد دلاتا رہے گا کہ ہم پھر سے وہی غلطی نہ کریں، دوبارہ اسی ضد کا شکار ہو کر ایسا کوئی فیصلہ نہ کریں کہ جس کی ابھی تک سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ کوئی جسمانی سزا نہیں بلکہ وہ کچوکے اور وہ زخم ہیں جو ہر پاکستانی کو ہمہ وقت چھلنی رکھتے ہیں۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکے تھے بلکہ امن کو جگہ دی تھی۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم پہلے بھی پُرعزم تھے‘ بعد میں بھی پُرعزم رہے اور اب بھی پُرعزم ہیں۔ اس کا ایک ثبوت ہم نے مئی 1972ء میں وادیٔ لیپا میں ہوئی ایک شدید اور بڑی جھڑپ میں اس طرح دیا کہ وادیٔ لیپا کا ایک حصہ بھی دشمن سے قبضے میں لے لیا اور اس کے دو میجر‘ تین کیپٹن اور 63 دیگر فوجی اور عہدیداروں کو قیدی بھی بنا لیا۔ ایک عظیم سانحے کے بعد یہ قوم میں زندگی کی بھرپور رمق کی علامت تھی۔ یہی پاکستان کی فوج کی پہچان اور اس کا جذبہ تھا کہ جس کا مظاہرہ ایک بڑی شکست کے صرف پانچ ماہ بعد کیا گیا۔ اس جھڑپ میں کرنل حق نواز کیانی (ستارۂ جرأت) اور میجر صابر شہید ہوئے اور فتح کا سہرا اس وقت کے میجر (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) جمشید گلزار کے سر باندھا گیا۔ اس سے ہماری فوج اور عوام‘ دونوں کا مورال بلند ہو گیا اور اس قوم نے بتا دیا کہ ہماری کچھ غلطیوں کی وجہ سے بھلے مشرقی پاکستان میں ہمیں بے بس کر دیا گیا تھا لیکن دیکھ لو! محض پانچ ماہ بعد ہی ہم نے مٹھی بھر جوانوں کی مدد سے دو ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع لیپا وادی کی چوٹی کو قبضے میں لے کر اپنے حریف کو ناکوں چنے چبوا دیے۔
گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں ہماری فوج کے جو جوان دہشت گردوں نے شہید کیے ہیں‘ ان کی شہادت پوری قوم کو خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ یہ جوان ہمارے وجود کا حصہ تھے‘ ہمارا جسم تھے۔ دفتر خارجہ نے اس دہشت گردی پر افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا جبکہ افغان عبوری حکومت کو مضبوط ڈیمارش بھی پیش کیا گیا۔ سیکرٹری خارجہ نے عبوری افغان حکومت کے ناظم الامور کو طلب کیا اور کہا کہ وہ فوری طور پر افغان عبوری حکومت کو آگاہ کریں کہ حالیہ حملے کے مرتکب افراد کے خلاف مکمل تحقیقات اور سخت کارروائی کی جائے۔ افغان حکومت سے اعلیٰ سطح پر دہشت گردی کے واقعے کی مذمت اور تمام دہشت گرد گروہوں‘ ان کی قیادت اور پناہ گاہوں کے خلاف فوری طور پر کارروائیاں کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جواب میں افغانستان کی عبوری حکومت نے اس مسئلے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دہشت گردوں کا تعلق بھلے کسی بھی علاقے سے ہو‘ اس واقعے میں ملوث ہاتھ دور ہی سے نظر آ رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کس نے اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، کون ہے جو ان افراد کو ٹریننگ دے رہا اور انہیں سرحد کے اِس پار حملوں کے لیے بھیج رہا ہے۔ دشمن کا چہرہ دیکھے بغیر بھی ہم اسے اس کی قامت سے پہچان لیتے ہیں۔ مادرِ وطن کی خاطر اپنی جان دینے والے ان بیٹوں کے خونِ ناحق کا بدلہ ہم سب نے مل کر لینا ہے۔ ہم نے پاکستان زندہ باد کے نعروں کے ساتھ اپنے دشمن‘ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو‘ کا مقابلہ کرنا ہے، اسے بتانا ہے کہ ہماری داخلی کمزوریوں سے اب تم اپنا مفاد کشید نہ کر سکو گے۔ اگر مقامی طور پر سیاسی بے چینی موجود ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمہیں کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے۔ ملک کی نطریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لیے پاکستانی فوج اور عوام‘ شانہ بشانہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں اور سب مل کر تمہارا مقابلہ کرتے ہوئے تمہیں اسی طرح شکست سے دوچار کریں گے جس طرح ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کے محض پانچ ماہ بعد ہی وادیٔ لیپا میں تمہیں شکست کی دھول چٹائی تھی۔
اب ہم سے پھر غلطیاں ہو رہی ہیں۔ اب پھر سیاسی تنائو کا ماحول ہے، ضد اور انا شاید عوام کی امیدوں کی راہ میں حائل ہونے جا رہی ہے مگر اب ماضی کے اسباق سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ہوشمندی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ چھوٹی‘ بڑی غلطیاں تو ہر کسی سے سرزد ہو جاتی ہیں مگر کہیں بھی ان غلطیوں کی بنیاد پر قطع تعلق نہیں کیا جاتا کیونکہ اپنے وجود کے کسی حصے کے بغیر کوئی وجود قائم نہیں رہ سکتا۔ گھر خاندان کے سبھی افراد کے ایک ساتھ اور اکٹھے رہنے سے بنتا ہے وگرنہ وہ مکان ہی کہلاتا ہے۔کسی ایک کی ضد اس ہنستے بستے گھر کو مکان نہ بنا دے۔ اگلا ہر قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے۔
چارسدہ سے کوہاٹ تک ہونے والے ہر ورکر کنونشن میں شرکا کی جانب سے لگائے گئے دوسرے فلک شگاف نعروں کے ساتھ جو نعرہ سب سے زیادہ گونجتا رہا‘ وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ تھا۔ لوگوں کے ان نعروں پر جذبہ حب الوطنی کا ایسا جوش و خروش دیکھنے میں آیا جس نے دل و روح میں ایک تازگی بھر دی۔ سازشی عناصر ایک بار پھر اس نعرے سے خائف ماحول کو افسردہ کرنے کے درپے ہو چکے ہیں۔ ان کی سازشوں سے نہ صرف خبردار رہنا ہے بلکہ ان کا بروقت تدارک بھی کرنا ہے۔ جب تک الیکشن میں لوگ اپنے ووٹ سے پُرامن تبدیلی کو راہ نہیں دیں گے‘ سیاسی تنائو برقرار رہے گا، اس تنائو کو مزید کھینچنے کے بجائے اسے ختم کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved