ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں بند ہو مٹھی تو لاکھ کی‘ کھل گئی تو پھر خاک کی۔ کیا سچی بات ہے! انسان جب تک اپنی بات اپنے ذہن میں‘ دل میں رکھتا ہے یعنی زبان پر لانے سے گریز کرتا ہے تب تک کچھ نہ کچھ بھرم رہتا ہے۔ بات جیسے ہی زبان پر آتی ہے، کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہونٹوں نکلی، کوٹھوں چڑھی۔ جیسے ہی انسان کی زبان پر کوئی بات آکر دوسروں تک پہنچتی ہے تو اُس کا سفر روکنا ممکن نہیں رہتا۔ داناؤں کا مشورہ ہے کہ انسان کو بہت سوچ سمجھ کر بلکہ ایک ایک لفظ کو اچھی طرح تول کر بولنا چاہیے۔ اِسی میں دانائی ہے، بلکہ یہی دانائی کا نچوڑ ہے۔ یونان کے عظیم فلسفی فیثا غورث نے کہا تھا ''بے معنی الفاظ کے استعمال سے کہیں بہتر ہے بامعنی خاموشی اختیار کرنا؛ یعنی جب بولنے کے لیے کچھ خاص نہ ہو تو انسان کو خاموش رہنا چاہیے، اِسی میں عافیت ہے‘‘۔
ہم زندگی بھر اظہار کو وجود کے ناگزیر جُز کی حیثیت سے برتتے رہتے ہیں۔ اظہار ہی کے ذریعے انسان دنیا کو بتا پاتا ہے کہ وہ کیا ہے، کیا بننا چاہتا ہے، کیا کرنا چاہتا ہے۔ بالکل درست! اظہار ہی سے تو انسان کی شخصیت کا‘ باطن کا اندازہ ہو پاتا ہے۔ جب کوئی انسان بولتا ہے تب معلوم ہو پاتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے، اُس کی قابلیت کس قدر ہے اور اُس کے ارادے کیا ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے اظہار سے بڑھ کر کوئی معاملہ نہیں ہوتا۔ آج ہمیں اپنے ماحول سمیت پوری دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ اظہار ہی کا تو کرشمہ ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو‘ اپنے علم و فن کو‘ اپنے جوہر کو‘ اپنے رجحان کو‘ اپنی ترجیحات کو ظاہر نہ کرے تو کسی کو کیسے معلوم ہو پائے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور اُس کا ارادہ کس طرف جانے کا ہے۔
یہ دنیا کیسی تھی‘ کہاں تھی یہ جاننا ہو تو چار‘ پانچ ہزار سال پہلے کا ریکارڈ یعنی تاریخ کی کتب کھنگالیے۔ جب انسان زیادہ سمجھتا نہیں تھا‘ مشاہدے سے زیادہ متحرک نہیں ہو پاتا تھا تب وہ عمیق غور و فکر کی صلاحیت کا حامل بھی نہیں تھا۔ جب سبھی ایک جیسے تھے تب دنیا بھی آسانی سے تبدیل نہیں ہو پاتی تھی۔ ہر شعبہ شدید پسماندگی کا شکار تھا۔ زندگی حیوانی سطح پر تھی یعنی پیٹ بھرنے اور کسی نہ کسی طور سر چھپانے کی گنجائش پیدا کرنے ہی کو زندگی سمجھ کر سکون کا سانس لیا جاتا تھا۔ تب پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا مسئلہ محفوظ رہنے کا بھی تھا کیونکہ درندوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ علاوہ ازیں آپس کے مناقشے بھی انسان کو الجھائے رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ کے حصول کی خواہش اور کوشش تو ہمیشہ سے رہی ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب دنیا ویران تھی، رنگینی برائے نام تھی، ترقی نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تھی، زندگی صرف الجھنوں سے عبارت تھی تب بھی انسان آپس میں لڑتے تھے تو پھر آج یہ سب کچھ کیوں نہ ہو جبکہ آج تو ہر طرف سہولتوں کا، آسائشوں اور اور تعیشات کا بازار گرم ہے۔ اب اگر مناقشوں کا بازار گرم ہے تو سبب کا سمجھنا کچھ دشوار نہیں۔
آج کی دنیا ہر اُس انسان کے لیے انتہائی درجے کی سہولتوں سے عبارت ہے جو نہ صرف یہ کہ اپنے اندر قابلیت کو پروان چڑھاتا ہے بلکہ اُس کے اظہار کا سلیقہ بھی رکھتا ہے۔ اظہار کا سلیقہ ہی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ مؤثر اظہار ہی انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ فلمیں لکھنے والے تو پہلے بھی بہت تھے مگر سلیم خان اور جاوید اختر نے مل کر جو کچھ لکھا وہ بالی وُڈ میں ایک نئی راہ کی بنیاد ڈال گیا۔ کیوں؟ دونوں انتہائی قابل ہونے کے ساتھ ساتھ اظہار کا سلیقہ جانتے تھے۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ کون سی بات کس طور بیان کی جانی چاہیے۔ اُن سے قبل فلمیں محض بیانیہ انداز سے لکھی جاتی تھیں۔ کرداروں اور مناظر کے بجائے کہانی کو فلمایا جاتا تھا۔ کرداروں کو ٹھوس انداز سے پیش کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی تھی اور مکالموں پر تو اور بھی کم زور دیا جاتا تھا۔ سلیم خان اور جاوید اختر نے مل کر نئے انداز سے فلمیں لکھنے کا رجحان پیدا کیا۔ اُنہوں نے فلم کی کہانی کو منظر بہ منظر قلم بند کرانا شروع کیا۔ وہ ہر منظر کو کہانی کی طرح لکھتے تھے۔ اُس کا ایک ابتدائیہ ہوتا تھا، پھر اُس میں اُٹھان پیدا ہوتی تھی اور آخر میں‘ فلم کے کلائمیکس کی طرح‘ منظر کا بھی کلائمیکس ہوتا تھا۔ یہ انداز لوگوں کو بہت پسند آیا۔ اور پھر موضوعات بھی اُنہوں نے وہ چُنے جو لوگوں کی نفسی ساخت سے کھیلتے تھے۔ حالات کی خرابی کے ہاتھوں نئی نسل بہت پریشان تھی اور اُس کے دل و دماغ میں غصہ بھرا ہوا تھا۔ ایسے میں امیتابھ بچن کو ''اینگری ینگ مین‘‘ کے طور پر پیش کرکے سلیم -جاوید نے لوگوں بالخصوص نئی نسل کی ایک بڑی نفسی ضرورت پوری کی۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوسکا کہ دونوں کو بات کہنے کا ڈھنگ آتا تھا اور وہ اپنی فلموں کا ہر منظر خاصی متوازن رفتار کا حامل رکھتے تھے۔ فلموں کے سکرپٹ رائٹرز پہلے بھی تھے مگر وہ فلم کی مجموعی رفتار کو متوازن رکھنے پر زیادہ متوجہ نہیں ہوتے تھے۔
ہم عمومی سطح پر زندگی بھر مختلف حوالوں سے اظہارِ رائے کرتے رہتے ہیں مگر الفاظ کے انتخاب اور محل پر زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ انسان کو سیکھنا ہی چاہیے کہ کب، کیا اور کتنا بولنا ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کب بولنا ہے اور کب نہیں بولنا ہے۔ عام طور پر اظہار کو صرف بولنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اظہار ہی ہے۔ کوئی محنت کرتا ہے تو یہ اُس کی سوچ اور شخصیت کا اظہار ہے۔ کوئی بے دیانت زندگی بسر کرتا ہے تو یہ اُس کے بُرے کردار کا اظہار ہے۔ کسی کو دوسروں کی پریشانی دیکھ کر سکون محسوس ہوتا ہے تو یہ اُس کے مزاج کی کجی یعنی اذیت پسندی اور بے حسی کا اظہار ہے۔ ہم زندگی بھر جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ اظہار ہی کے زُمرے میں آتا ہے۔ تو پھر کیا لازم نہیں کہ کچھ بھی بولتے وقت‘ کچھ بھی کرتے وقت ہم احتیاط برتیں، دانائی سے کام لیں، تحمل کو بروئے کار لائیں، دوسروں کی عزتِ نفس کا احساس کریں اور اپنی ساکھ کا خیال رکھیں؟
ہم جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر کسی کو ہم سے ہمدردی کے دو بول درکار ہوں اور ہم اُسے لتاڑ دیں تو؟ اگر کسی کا حق بنتا ہو کہ ہم اُس پر تنقید کریں اور کوتاہی کے ساتھ ساتھ اُس کے نتائج کا بھی احساس دلائیں اور ایسے میں ہم اُس سے نرم لہجے میں بات کریں، اُسے محض بہلائیں پھسلائیں تو؟ ظاہر ہے یہ روش معاملات کو صرف خراب کرے گی۔ رشتوں اور تعلقات میں خرابی بالعموم اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب لوگ بولنے کے معاملے میں احتیاط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور جو بھی منہ میں آئے بولتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں لب کشائی کرتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جو کچھ بھی کہا جائے گا وہ تیر کے مانند ہوگا جو کمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آتا۔ کمان سے نکلنے والے تیر کو کہیں نہ کہیں لگنا ہوتا ہے۔ اِسی طور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بھی کسی نہ کسی کے پردۂ سماعت سے ٹکراکر کوئی نہ کوئی اثر ضرور مرتب کرتے ہیں۔ اگر ہم محض بولنے پر توجہ دیں اور الفاظ کے ممکنہ اثرات کے بارے میں نہ سوچیں تو اِسے سادہ لوحی ہی کہہ سکتے ہیں مگر دنیا اِسے حماقت ہی سے تعبیر کرے گی۔
دنیا بھر میں بولنے اور لکھنے کا فن سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اِس حوالے سے متوجہ ہونے کا رجحان اب تک پروان نہیں چڑھ سکا۔ عام گفتگو میں بھی ہم محض بولنے کو کافی سمجھ لیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی نوعیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہم جو کچھ بھی اور جس طرح بولتے ہیں وہ ہماری شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ لکھنا ہو یا بولنا‘ دانائی شرطِ اول ہے۔ آپ کا اظہارِ خیال آپ کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔ اس معاملے میں محتاط رہنا آپ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ لاپروائی پر مبنی رویہ محض حماقت ہی تصور کیا جانا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved