کاروبار‘ منڈیاں‘ تجارت‘ ان سب میں خرید و فروخت کے لیے سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی اور نظام بھی ہو‘ منافع یا عوامی فلاح‘ جو بھی مقصد ہو‘ دَھن دولت ہی کام دے گا۔ جس نظام نے ہمیں اپنی جکڑ میں لیا ہوا ہے اس کی ابتدا‘ ترقی اور ترویج سرمایے سے ہوئی۔ سرمایہ ہوگا تو بات آگے بڑھے گی۔ اگر نہیں تو پھر آپ بھیک مانگیں گے۔ کشکول ہاتھ میں ہوگا اور سیاست چمکانے کے لیے عوام کے سامنے اس کشکول کو توڑنے کی باتیں کریں گے۔ یہ مثال فقط اس لیے دی ہے کہ جس طرح معیشت کا پہیہ گھمانے کے لیے سرمایے کی ضرورت ہے‘ اسی طرح جمہوری نظام کو چلانے کے لیے سیاسی سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ یہی سوال کئی دہائیوں سے دانشور اٹھاتے رہے ہیں کہ جمہوریت کیسے کامیاب طریقے سے اور کس نوعیت کے معاشروں میں چلتی ہے اور کس طرح کے سماجوں میں یہ زمین سے اوپر اٹھ پاتی۔ عملی طور پر اس کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں‘ سنتے بھی رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ پڑھتے بھی ہوں گے کہ مغربی دنیا نے ترقی کی ہے‘ خوش حالی وہاں آئی‘ ایجادات وہاں ہوئی ہیں۔ عوام آسودہ ہیں اور قانون اور انصاف کی فراہمی عام سی بات ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایسی حکومت کا قیام ہے جو عوام کی تائید‘ حمایت اور خواہش کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور جب عوام کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے تو وہ متبادل قیادت کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔ اس میں نہ کوئی جھگڑا‘ نہ کوئی جنگ‘ نہ کوئی کشمکش ہے۔ انتخابی اداروں پر بھی اعتماد اور شفافیت اتنی کہ کوئی انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگائے تو وہ ادارے خود نہیں‘ ان کے ملازمین اپنی توہین کے ازالے کے لیے عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ آج کل امریکی ریاست جارجیا میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمہ چل رہا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کا بے بنیاد الزام لگایا تھا۔ دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے مگر قیاس یہی ہے کہ ہر جانے کی صورت لاکھوں ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ ہمارے انتخابی کمیشن نے بھی ایک جماعت اور اس کے رہنمائوں کے خلاف الزام کے جواب میں خود مقدمہ قائم کر رکھا ہے۔ کیا خوب ہے کہ جب انہیں خود ایسا اختیار حاصل ہے تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کیا ضرورت ہے؟ اصل بات سیاسی سرمایے کی ہے۔
سیاسی سرمایے کی بنیاد ساکھ‘ باہمی عزت و احترام‘ شخصی کردار‘ کارکردگی‘ قانون کی پاسداری‘ سچائی اور صاف گوئی ہیں۔ اس میں ایک اور وصف بھی شامل کر لیں۔ وہ ہے باہمی تعاون‘ مل جل کر قومی مفادات کو آگے بڑھانے کا جذبہ اور لوگوں کی فلاح اور سماجی ترقی کو ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی روایت۔ ایسا سیاسی سرمایہ پیدا کرنے میں اُن لوگوں‘ اداروں اور گروہوں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو سیاست دان‘ سیاسی جماعتیں اور سیاسی تحریکیں کہلاتے ہیں۔ اگر ان کے پاس سیاسی سرمایہ‘ جس کے کئی پہلوؤں کا ذکر پہلی سطور میں کر چکا ہوں‘ نہیں ہو گا تو پھر جمہوری سیاست بھی نہیں ہو گی۔ زبان سے بے شک آپ عوام اور جمہوریت کی مالا جپتے رہیں‘ آپ کی ایسی جمہوریت کو پرکھنے والے اسے کوئی اور نام دیں گے۔ ہمارے جیسے ممالک میں ہو یہ رہا ہے کہ جیسے کسی زمانے میں معاشی بازاروں میں کھوٹے سکے چلائے جاتے تھے‘ ہماری جمہوریت میں بھی ایسے ہی سکے بلکہ سکہ بند قسم کے بناوٹی مہرے چلائے جاتے ہیں۔ خیر کھرے اور کھوٹے کی تمیز کرنا عوام کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں مگر جہاں بیانیے تراشے جاتے ہیں‘ مکالمہ کرنے اور ابلاغِ عامہ میں تشہیر کی قوت ہے‘ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو بے وقوف بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اصل معاشی سرمایہ کاری قد آور شخصیات بنانا‘ ان کی خوبصورت تصویر کشی کرنا اور سب سے بڑھ کر ان کی شکلیں اور گفتگو عوام کے سامنے پیش کرنا سیاسی حکمت عملی کاحصہ ہے۔ ہماری سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک نہیں‘ کئی مثالیں دے سکتا ہوں کہ جب سیاسی سرمایہ پلے نہ ہو تو پھر سازش‘ دھڑے بندی اور حکمران طبقات کا باہمی گٹھ جوڑ اس کا متبادل بن جاتا ہے۔ دور کیوں جائیں‘ اپنی پچاس سالہ سیاسی تاریخ پر غور کریں۔ سیاسی سرمایہ کاری کے لیے خلوص‘ صاف گوئی‘ ایمانداری‘ دیانت داری اور ملکی مفاد کے تحفظ کی ضمانت کی ضرورت تھی۔ عوام سے ذرا پوچھ لیں کہ ہماری سیاست میں غالب دھڑوں اور بڑے بڑے نامور سیاسی گھرانوں کے بارے میں انہیں کس قدر اعتماد ہے کہ وہ ایمانداری اور امانت داری کی اقدار پر کتنا پورے اُترتے ہیں۔
سچ بات تو یہ ہے ‘ جسے میں کڑوا نہیں بہت میٹھا سمجھتا ہوں‘ کہ ہمارے حکمرانوں نے سیاسی سرمایہ کاری کے بجائے سیاست میں سرمایہ کاری کرکے اپنی دکانیں‘ کارخانے‘ کمپنیاں اور کئی ممالک تک پھیلے کاروبار چمکائے ہیں۔ ہم جانتے ہیں اور وہ بھی جانتے ہیں‘ عوام بھی جانتے ہیں۔ اور کس کس کا نام لیں‘ جنہیں ان کے کردار کے بارے میں معلوم نہیں‘ مگر جب سب کے وارے نیارے ہیں تو کیا تبدیلی آئے گی۔ جنہوں نے تبدیلی کی بات کی ان کا حشر آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ اس نظام کی گرفت جس کی جڑیں کہیں اور بھی ہیں‘ تو کون آزادی حاصل کرنے کی بات کرے گا۔ کیا کیا باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہوتی تھیں۔ کتنے مقدمے ایک دوسرے کے خلاف بنائے‘ کیا کیا کھیل کھیلے گئے مگرجب بڑا خطرہ محسوس ہوا‘ بقا کے تقاضوں نے سب کو اکٹھا کردیا۔ سولہ جماعتوںکا اتحاد کبھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا اور جو اس وقت ہو رہا ہے‘ اس کے بارے میں ہم کیا بات کریں۔ آپ خود سمجھ دار ہیں۔
جو نظام چلایا جاتا رہا ہے اور اب چل رہا ہے‘ اس کا سیاسی سرمایہ بہت ہی محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ غالب سیاسی گروہوں پر عوام کا اعتماد نہیں۔ سچ پوچھیں تو ان کی کوئی ساکھ نہیں اور ان کے سیاسی اور غیرسیاسی کرشموں کے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں اور جو رائے عامہ ان کے بارے میں ہے‘ ہم اس صفحہ پر نہیں بیان کر سکتے۔ آنے والے انتخابات کی بے رنگی تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ صرف پچیس دن باقی رہ گئے ہیں‘ کہیں کوئی جوش و جذبہ‘ کہیں عوام میں کوئی معمولی سی دلچسپی بھی نظر نہیں آتی۔ گھڑ دوڑ میں ایک ہی مالک کے گھوڑے دوڑائے جائیں اور مقابلے میں مخالفوں کو نہ آنے دیا جائے تو کون ایسے تماشوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔ اعتبار اٹھ چکا ہے۔ خود ہی اب ایک دوسرے کی طرف اشارے کرکے کہہ رہے ہیں کہ منتخب کیے جا چکے ہیں۔ ایسا کہنے والے اپنے لیے بالکل وہی چاہتے ہیں مگر شاید جو انہیں ملا ہوا ہے‘ اسی پر اکتفا کریں۔ سیاسی نورا کشتی میں کوئی حزبِ اختلاف تو بنانا ہو گی۔ یہ سب آپس میں یہ کھیل کھیلتے رہیں مگر عوام اس میں شریک نہیں۔ تماشا دیکھنے نہیں آئیں گے۔ خاموشی بھی مزاحمت کی ایک صورت ہوتی ہے۔ ہم بھی اُس دن رائے دہندگان کی قطاروں کا معائنہ کرنے جائیں گے۔ چونکہ ہم ہیں ہی تماش بین۔ یہ انوکھا تماشا ہم ضرور دیکھیں گے۔ شام کو کھوکھلے نتائج بھی‘ جذبوں سے خالی تبصرے بھی اور جیتنے والوں کے پھیکے جشن بھی۔ عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ نہ ہو تو ہوا میں جمہوریت نہیں‘ سازشی ٹولے ہی پروان چڑھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved