بیشتر کایہ حال ہے کہ ہر معاملے میں کام چلاؤ ذہنیت سے کام لیتے ہیں۔ اُنہیں زیادہ سے زیادہ اِس بات سے غرض ہوتی ہے کہ جو کچھ سامنے ہو یعنی جو الجھن درپیش ہو بس وہ کسی نہ کسی طور ٹل جانی چاہیے۔ معاملات کو بحسن و خوبی نمٹانے کے بجائے اُنہیں کسی بلا کی طرح ٹالنے کی ذہنیت ہی انسان کو چھوٹا بناتی ہے۔ کوئی بھی معاملہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ اُس سے پوری توجہ اور محنت سے نپٹا جائے۔
معیاری زندگی ہم سے پوری توجہ چاہتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کو ڈھنگ سے حل کرنے کی صورت ہی میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ ہر وقت‘ ہر معاملے میں محض ''جُگاڑ‘‘ تلاش کرتے رہنا کسی بھی درجے میں قابلِ قدر ذہنیت نہیں۔ کسی کیمپ میں کچھ وقت گزارنے کے لیے جو ذہنیت درکار ہوتی ہے اُس کی مدد سے پوری زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ زندگی ہم سے توجہ، سنجیدگی، دیانت اور محنت‘ سبھی کچھ مانگتی ہے۔ یہ تقاضا کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ زندگی تو کسی بھی طور بسر کی جاسکتی ہے۔ جو لوگ اپنے معاملات کی درستی پر ذرا بھی متوجہ نہیں ہوتے وہ بھی جی ہی لیتے ہیں مگر مشاہدے کی بنیاد پر آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ کیا اُن کے جینے کو زندگی کہا جاسکتا ہے؟ کسی بھی ماحول میں کامیاب افراد کو آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اِتنا ہی نہیں بلکہ اُن سے کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ سیکھا بھی جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کوئی سیکھنے کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں۔ عمومی سطح پر کامیاب افراد کی زندگی کا جائزہ لینے اور اُن کی طرزِ فکر و عمل سے مستفید ہونے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ہر کامیاب انسان درس کی طرح ہوتا ہے۔ جس طور کسی سے کوئی درس لیا جاتا ہے بالکل اُسی طور کامیاب انسانوں سے بھی درس لیا جاسکتا ہے۔ یہ درس براہِ راست بھی ہوسکتا ہے یعنی اُن سے بات کرکے بھی بہت کچھ سیکھنا ممکن ہے اور بالواسطہ بھی یعنی اُن کی طرزِ فکر و عمل کا جائزہ لے کر، اُن کی کارکردگی سے تحریک پاکر بھی اپنے لیے کامیابی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے، کچھ کرنے کا عزم پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ کامیابی کے حقیقی خواہش مند ایسا کرتے ہی ہیں۔
کسی بھی بحرانی کیفیت نپٹنے کے لیے انسان‘ ہنگامی حکمتِ عملی کے طور پر‘ کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سخت مشکل صورتِ حال کا سامنا ہونے پر جو سوچ اپنائی جاتی ہے وہ پوری زندگی پر محیط نہیں ہوسکتی۔ جب معاملات معمول کے مطابق ہوں تب پیدا ہونے والی عمومی نوعیت کی الجھن ہم سے متوازن اور ٹھوس سوچ کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ دیرپا سوچ مختلف عوامل سے مل کر بنتی ہے۔ مطالعہ بھی کرنا پڑتا ہے اور کامیاب افراد سے مل کر مشاورت بھی ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تدبر کو بھی بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ کسی بھی انسان میں دیرپا سوچ خود بخود ابھرتی ہے نہ پنپتی ہے۔ یہ کئی عوامل کا ملا جُلا یا مشترکہ نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اس حوالے سے مطالعہ سب سے بڑھ کر ہے۔ مطالعے کے ذریعے انسان کسی بھی شخصیت، ملک، معاشرے، معاملے اور حالات سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور سیکھتا ہے۔ مطالعہ انسان کو بالغ نظری سکھاتا ہے۔ باقاعدگی سے پڑھنے والے ہر معاملے میں ایک خاص اور مستحکم نقطۂ نظر کے حامل ہوتے جاتے ہیں۔ یوں معاملات کو ٹھوس انداز سے دیکھنے کا شعور پروان چڑھتا ہے۔
جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو کامیاب ترین انسانوں سے واقف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اُن کی زندگی ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے، کسی بھی معاملے سے نپٹنے کی اُن کی ذہنیت ہمیں آگے بڑھنے کا شعور بخشتی ہے۔ کامیاب افراد سے مشاورت بھی کی جاسکتی ہے۔ بیشتر کامیاب افراد اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ کوئی اُن سے اُن کی کامیابی کا راز جاننے کی کوشش کرے، اُن سے مشاورت کرے، اپنے مسائل کا حل طلب کرے۔ اِس دنیا میں ایسے بھی انسان ہیں جو اپنی کامیابی پر اِتنا غرور کرتے ہیں کہ لوگوں سے ملنے اور اُنہیں اپنی کامیابی کے اَسرار میں شریک کرنے پر یقین نہیں رکھتے مگر یاد رکھیے کہ ایسے کامیاب انسان کم ہی ہیں۔ بیشتر کامیاب انسان دوسروں کو اپنے بارے میں بتاکر‘ اُنہیں اپنی کامیابی میں شریک کرکے خوش ہوتے ہیں۔ ہاں! اُنہیں تلاش کرکے اُن سے مستفید ہونے کے لیے تھوڑی زحمت برداشت کرنا پڑتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ محض اپنے ماحول کے کامیاب ترین افراد سے رابطہ ممکن تھا۔ باقی دنیا سے ملنے کے لیے کتابوں اور اخبارات و جرائد کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ اب یہ مشکل بھی دور ہوچکی ہے۔ انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو کسی دسترخوان کی طرح ہمارے سامنے سجادیا ہے۔ ہم جو چاہیں پڑھ سکتے ہیں‘ جس سے بھی چاہیں مل سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمارے لیے مزید آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ہم کسی بھی معاملے میں مطلوب راہ نمائی پاسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے معاملات میں ہمیں مطلوب معلومات خاصے اختصار کے ساتھ بھی میسر ہیں۔ شارٹ وڈیوز کے ذریعے بہت سے معاملات ہم تک یوں پہنچتے ہیں کہ ہم اپنی سوچ کو واضح سمت دے پاتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی کو سرسری طور پر لیتے ہیں۔ غالب اکثریت معاشی الجھنوں کو جواز بناکر کہتی ہے کہ گوناگوں معاشی الجھنوں کے ہوتے ہوئے انسان دیرپا سوچ کی طرف کیسے جاسکتا ہے۔ محض معاشی الجھنوں کو جواز بناکر زندگی جیسی نعمت کو برتنے کا ہنر سیکھنے سے گریز انسان کو چھوٹا بنادیتا ہے۔
معاشی الجھنیں سبھی کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔ سوال افلاس کا نہیں، تونگری بھی معاشی الجھنوں سے نجات نہیں دیتی بلکہ کبھی کبھی تو بہت بڑھادیتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہے کہ انتہائی مال دار طبقے کو کسی بھی سطح پر کوئی الجھن درپیش نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں ہے۔ سب کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ مال دار طبقے کے لوگوں کو بھی معاشی الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ ہاں‘ اِن الجھنوں کی نوعیت اور شدت مختلف ہوتی ہے۔ معاشی الجھنوں میں پھنس کر اپنے آپ کو محدود کرلینا دانش مندی نہیں۔ انسان کو تمام معاملات ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ زندگی کا میلہ کبھی رُکا ہے نہ رُکے گا۔ یہ بس یونہی چلتا رہے گا۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اِس کے جلو میں رہتے ہوئے کرنا ہے۔ ہمیں کہیں کہیں رُکنا ہے، سوچنا ہے، سمجھنا ہے، پیش رفت کی تیاری کرنی ہے۔ سوچنا بھی ناگزیر ہے اور سمجھنا بھی۔ ادراک ہی سے تفہیم کی راہ ہموار ہوتی ہے اور یوں تدبّر کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
دیرپا سوچ یہ ہے کہ انسان ہر اہم معاملے کی نوعیت سے واقف ہو، اُس کے بارے میں طویل المیعاد منصوبہ سازی کی تیاری کرے، وقتی حل کو زیادہ اہمیت نہ دے۔ کسی بھی صورتِ حال میں جو فوری حل ممکن ہو وہ اپنایا جائے؛ تاہم اُس پر اکتفا نہ کیا جائے اور معاملات کے معمول پر آتے ہی دیرپا حل کی بھرپور تیاری کی جائے۔ اگر وقتی حل ہی کو سب کچھ سمجھ لینے کی سوچ پوری دنیا میں اپنالی جائے تو تحقیق کی گرم بازاری ختم ہوجائے، جدت و ندرت رختِ سفر باندھ لے اور ہم لگی بندھی زندگی کے اسیر ہو رہیں۔ زندگی اُسی وقت بامعنی اور بامقصد ثابت ہوسکتی ہے جب یہ واضح شعور کے ساتھ بسر کی جائے۔ ہم عمومی سطح پر شعور کو زیادہ بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہیں اور اِس سے بڑی (بلکہ سب سے بڑی) دل خراش حقیقت یہ ہے کہ ہم شعور کو پروان چڑھانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ زندگی ایسی نعمت ہے جس کا حق ادا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہاں‘ خدا کا شکر ادا کرنے کی سَمت تھوڑا بہت سفر کیا جاسکتا ہے۔ اِس کی ایک نمایاں صورت یہ ہے کہ انسان دیرپا اور منظّم سوچ کے ساتھ جیے۔
انسان کی فکری ساخت بدلتی رہتی ہے۔ بدلنی ہی چاہیے کیونکہ دنیا بھی ہر آن بدل رہی ہے۔ جو کچھ بھی دنیا میں ہو رہا ہے وہ ہم پر اثر انداز تو ہوتا ہی ہے۔ ہماری فکری ساخت کو بھی دنیا کے ساتھ ساتھ بدلنا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی ساکت و جامد ہو رہے۔ انسان کی سوچ بھی بدلتی رہتی ہے مگر بنیادی فکری ڈھانچا نہیں بدلنا چاہیے۔ حالات کی روشنی میں نئے خیالات اپنانا بھی لازم ہوتا ہے۔ انسان بہت کچھ سوچتا ہے اور اپنی سوچ کا اظہار بھی کرتا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے بنیادی فکر سے دست بردار یا متنفّر ہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved