پاکستان ایک دوسرے شیخ مجیب الرحمن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
آج 16دسمبر ہے۔ 52برس پہلے ہماری قومی زندگی کا ایک المناک باب اسی تاریخ کو رقم ہوا۔ اس تاریخ کو شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ آج ایک بار پھر اس نام کی صدائے بازگشت سنی جا رہی ہے۔ ہم اس نام کو عبرت کے لیے تو یاد کر سکتے ہیں مگر اس کردار کا احیا نہیں چاہتے۔ لوحِ تقدیر پر ہر شے قدرت نہیں لکھتی۔ اس نے قلم ہمارے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ ایک بار ہم نے چاہا تو اس پر محمد علی جناح کا نام لکھ دیا۔ ایک بار شیخ مجیب الرحمن کا۔ دونوں کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ قلم آج بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ آج پھر کچھ لکھا جا رہا ہے۔ کیا ہمارے کان صریرِ خامہ کو سن رہے ہیں؟
شیخ مجیب الرحمن جیسے کردار پیدا ہوتے ہیں یا پیدا کیے جاتے ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ یہ نفسیات کی پرانی بحث ہے کہ جرم کا تعلق حالات سے ہے یا فرد کی حیاتیاتی ساخت سے۔ سماجی نفسیات کا علم اس سوال کو اجتماعی دائرے میں دیکھتا ہے۔ یہ علم بتاتا ہے کہ کسی سماج کا نظامِ اقدار مضبوط ہو تو مجرمانہ نفسیات کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے۔ وہ ایک فرد سے صادر ہونے والے شر کو محدود کر دیتا ہے۔ پھر سماجی ماحول جرم کے لیے سازگار نہیں رہتا۔
ریاست بھی اگر مستحکم ہو اور اس کی آنکھیں کھلی ہوں تو کوئی مجرمانہ ذہن اس کو غیرمستحکم نہیں کر سکتا۔ مجرمانہ صفات کے حامل‘ ممکن ہے کسی اعلیٰ منصب تک پہنچ جائیں لیکن نظام اتنا چوکنا ہوتا ہے کہ اس کی آنکھ دیکھ لیتی ہیں اور اس کو غیر مؤثر بنا دیتی ہیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں پاتا۔ دورِ حاضر میں اس کی ایک مثال ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے۔ وہ امریکہ کے سب سے اہم منصب تک پہنچ گیا مگر نظام کی گرفت اتنی سخت تھی کہ ریاست کو اس کے شر سے بچا لے گئی۔ امریکہ کی قوت کا راز یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کی صلاحیتوں کو اپنے دامن میں سمو سکتا تھا۔ اسی لیے اسے Melting Pot کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے سفید فام برتری کا عَلم لہرایا جس کا مطلب امریکہ کی سماجی تکثیریت کو برباد کرنا تھا۔ نظام نے اپنی قوت سے اس کا بر وقت مداوا کر لیا۔
شر کبھی حیاتیاتی ساخت میں ہوتا ہے اور کبھی حالات اور لوگ بھی مجرم بنا دیتے ہیں۔ ہماری ریاست شیخ مجیب الرحمن کے 'شر‘ کا تدارک نہیں کر سکی۔ وہ اسے اپنے نظم میں سمو نہیں سکی۔ درست تر مفہوم میں ایک ناراضی کو 'شر‘ بننے میں وقت لگا ‘کہ کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا۔ اربابِ حل و عقد کی بصارت کو اقتدار کے نشے نے اس طرح دھندلا دیا کہ وہ ایک جائزمطالبے کو فتنہ بنتے ہوئے دیکھ نہ سکی۔ ایک وقت کے بعد وہ اتنا توانا ہو گیا کہ اس کو روکنا ریاست کے لیے ممکن نہ رہا۔
ریاست جب غیرجمہوری ہوتی ہے تو عوام کے ساتھ اس کا تعلق قائم نہیں رہتا۔ وہ صرف جبر کے زور پر قائم ہوتی ہے۔ جبر ریاست کے خواص میں سے ہے۔ عام طور پر اسے واقعہ نہیں بننے دیا جاتا۔ ریاست یہ رعب قائم رکھتی ہے کہ وہ جبر کر سکتی ہے‘ لیکن وہ اس کے استعمال سے گریز کرتی ہے۔ ریاست اور عوام کا تعلق وہی ہوتا ہے جسے حضرت معاویہؓ نے بیان کیا تھا۔ ان سے کامیاب حکمرانی کا راز پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: 'ریاست اور عوام ایک دھاگے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ عوام کھینچتے ہیں تو میں اسے ڈھیلا کر دیتا ہوں۔ عوام ڈھیلا چھوڑتے ہیں تو میں اسے کھینچ لیتا ہوں‘۔
یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جس کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو۔ شیخ مجیب الرحمن کو اس حکمران طبقے نے جنم دیا جو عوام کے جذبات سے بے خبر تھا۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ کیسے مشرقی پاکستان کا احساسِ محرومی ایک سونامی میں ڈھل گیا۔ وہ عوامی سمندر میں اٹھنے والے مدو جزر کو سمجھ ہی نہ سکا۔ اس کو گمان تھا کہ ریاست سر تا پا طاقت اور جبر ہے اور اس جبر سے عوامی سونامی کو بھی روکا جا سکتا ہے۔ عوام تو عوام‘ اسے مشرقی پاکستان کے جغرافیے کا اندازہ ہو سکا نہ بھارت کے عزائم کا۔ تحریکِ پاکستان میں 'بن کے رہے گا پاکستان‘ کا نعرہ بلند کرنے والا نوجوان کب شیخ مجیب الرحمن بن گیا‘ ریاست کو خبر ہی نہ ہو سکی۔ واقعات کی گواہی یہ ہے کہ ایک مجیب الرحمن نے اَن گنت مجیب الرحمن پیدا کر دیے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن قدرت کے کارخانے میں نہیں ڈھلتے۔ یہ ریاست کے ذمہ دار ہیں جو لوحِ مقدر پر نام لکھتے ہیں۔ یہ اقتدار میں ہوتے ہیں اور اقتدار سے باہر بھی۔ باگ چونکہ ریاست کے ہاتھ میں ہوتی ہے‘ اس لیے حادثات کے ذمہ داروں میں سر فہرست نام اہلِ اقتدار کا ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ انہی کو کرنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہونا ہے یا کہیں اور؟ اکثریتی پارٹی کو اقتدار دینا ہے یا نہیں؟
52برس بعد‘ ایک بار پھر شیخ مجیب الرحمن کا ذکر چل نکلا ہے۔ یہ دن بھی قومی اُفق پر اچانک طلوع نہیں ہوا۔ یہ کم و بیش دس برس کی محنت کا حاصل ہے۔ جمہوری عمل اپنی ڈگر پر چل پڑا تھا۔ ووٹ سے قائم ہونے والی حکومت نے پانچ برس پورے کیے تھے اور پھر عوامی ووٹ نے ایک نیا فیصلہ سنا دیا۔ اس دور کا آغاز ہوا ہی تھا کہ عوامی جذبات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کا عمل پھر سے شروع کر دیا گیا۔ اس عمل کو مسلسل آگے بڑھایا گیا۔ اسی نے آج یہ دن دکھایا کہ ایک بار پھر شیخ مجیب الرحمن کا ذکر ہو رہا ہے۔
2013ء قومی وحدت کے حوالے سے ہماری قومی زندگی کا شاندار سال تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی صورت میں اقتدار کا حصہ تھیں۔ مرکز میں (ن) لیگ کی حکومت تھی تو سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی۔ بلوچستان میں چھوٹی جماعتوں کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا‘ دراں حالیکہ (ن) لیگ وہاں حکومت بنا سکتی تھی۔ وزیراعظم خود چل کر سیاسی مخالفین کے گھروں کو جا رہا تھا۔ نواز شریف صاحب نے دہشت گردی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسے بنیادی مسائل کے حل کے لیے پوری قوم کو متحد کر دیا تھا۔
اس کے بعد ملک میں اچانک ایک ایسا بھونچال آیا کہ دھیرے دھیرے سب کچھ بکھرتا چلا گیا۔ معاشی ترقی کے روشن امکانات پر اندھیرا چھانے لگا۔ سی پیک منصوبے کی سانس اکھڑنے لگی۔ ملک ایک سونامی کی لپیٹ میں تھا۔ چند برسوں میں سارا منظر بدل گیا۔ سرحدوں پر تشویش کے سائے لہرانے لگے۔ داخلی سیاست یہاں تک آ پہنچی کہ پھر سے شیخ مجیب الرحمن کا ذکر ہونے لگا۔
یہ ذکر ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ملک عام انتخابات کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ جب 1970ء کے انتخابات ہونے جا رہے تھے تو اس کے متوقع نتائج کے بارے میں پریشان کن پیش گوئیاں ہونے لگی تھیں۔ آج پھر اس سے ملتا جلتا منظر ہمارے سامنے ہے۔ ریاست اور اہلِ سیاست کو ابھی سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ متوقع نتائج کے بعد ان کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ اس سے پہلے یہ فیصلہ ہونا ضروری ہے کہ انتخابی عمل کو سب کے لیے قابلِ قبول کیسے بنانا ہے۔
اس بارے میں ابھی سے طے کرنا ہو گا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں ہم نے کوئی نیا شیخ مجیب الرحمن پیدا نہیں کرنا۔ یہ میں پہلے ہی عرض کر چکا کہ قومی زندگی میں اکثر شیخ مجیب الرحمن پیدا نہیں ہوتے‘ کیے جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved