6 دسمبر 2023ء کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایک قومی کنونشن منعقد ہوا، اس میں مختلف مکاتب فکر اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سرکردہ علماء بہت بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کا مقصد اہلِ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی، اُن کے موقف کی تائید و حمایت اور اسرائیل اور امریکہ کے زیرِ قیادت مغربی حکومتوں کی پالیسیوں سے نفرت کا اظہار تھا۔ میں نے اس میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا:
''11 نومبر کو ریاض میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ کا مشترکہ سربراہی اجلاس منعقد ہوا، اس میں تمام مسلم ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت شریک ہوئے، امت مسلمہ کو اُن سے کافی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ اسرائیل اور اُس کے حامی ممالک کے خلاف معاشی، سیاسی اور سفارتی اقدامات کا اعلان کریں گے اور اہلِ فلسطین کی نصرت و تائید کے لیے مستحکم، دیرپا اور نتیجہ خیز فیصلے کریں گے، لیکن: ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘، اُس سربراہی اجلاس کے بطن سے جنگ بندی کی ایک کمزور اور بے نتیجہ سی قرارداد سامنے آئی جس نے امت مسلمہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، ہم اس وَھْن، جُبْن، کم ہمتی اوردینی و ملّی بے حمیتی کی مذمت کرتے ہیں اوراس پر انہیں ملامت کرتے ہیں، اس کمزور موقف نے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔
امریکہ اور اہلِ مغرب ہمیشہ ہمیں حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، حقوقِ اَطفال، پریس کی آزادی، بلکہ حقوقِ حیوانات اور جنگلی حیات کے تحفظ کا درس دیتے رہتے ہیں اور ہمارے جیسے ممالک کے خلاف ان حقوق کی پامالیوں پر انضباطی کارروائیوں، تجارتی پابندیوں اور یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات پر درآمدی ڈیوٹی میں جی ایس پی پلس کی شکل میں جو خصوصی رعایت دیتی ہے‘ اُسے واپس لینے کی دھمکی دی جاتی ہے اور ہماری حکومتیں لرزہ بر اندام رہتی ہیں۔ لیکن آج اسرائیل غزہ میں ان تمام حقوق کو پامال کر رہا ہے، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کیا جا رہا ہے، جمعرات کی صبح تک ان شہداء کی تعداد بیس ہزار اورزخمیوں کی تعداد پچاس ہزار سے متجاوز ہے۔ جنگی قوانین کے تحت بوڑھوں، عورتوں اور بچوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا، مگر اسرائیل غزہ میں ان تمام جنگی حقوق کو پامال کر رہا ہے، غزہ کے پورے تعمیراتی ڈھانچے کو مسمار کر دیا گیا ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مہاجرین کی پناہ گاہوں، عالمی ادارۂ صحت کے زیر اہتمام ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں تک کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، مگر امریکہ اور مغربی اقوام ان تمام جرائم میں اسرائیل کی پشت پناہ بنی ہوئی ہیں۔ جن اقدار کے وہ علمبردار تھے، آج فلسطین میں وہ ساری اقدار پامال ہو رہی ہیں اور امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت اسرائیل کا پشتیبان بنا ہوا ہے، یہ ان کے قول وفعل کا واضح تضاد ہے۔
فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک میں بڑی تعداد میں ریلیاں نکالی جاتی رہی ہیں، احتجاجی اجتماعات منعقد ہوئے ہیں، لیکن جمہوریت کے علمبرداروں کے نزدیک اپنے عوام کا احتجاج بھی کوئی معنی نہیں رکھتا، ان کے نزدیک اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر تمام اصولوں کو قربان کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان نظر سے گزرا: ''اسرائیل طاقت کا اندھا دھند اور بلاامتیاز استعمال کر کے اپنی عالمی حمایت کو کھو رہا ہے‘‘۔
یوں تو امریکہ اور اہلِ مغرب اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہیں، جمہوریت کے پرستار ہیں، لیکن اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل رکن ممالک کو ویٹو پاور (حقِ استرداد وتنسیخ) یعنی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور فیصلوں کو ردّ کرنے کا یکطرفہ اختیار دے رکھا ہے، اگر اقوامِ متحدہ کے رکن ایک سو بانوے ممالک ایک طرف ہوں تو ایک ملک ان سب کے اجماعی فیصلے کو ردّ کرنے کا حق رکھتا ہے؛ چنانچہ امریکہ نے کئی بار یکطرفہ طور پر غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ردّ کیا ہے، یہ جمہوریت کی سراسر نفی ہے اور اس حقِ استرداد و تنسیخ نے جمہوریت کی جعلی تقدیس کی نفی کر رکھی ہے، یعنی پوری دنیا کی رائے عامہ حتیٰ کہ اس ملک کی اپنے عوام کی اکثریتی رائے بھی ایک طرف ہو، تب بھی ویٹو پاور رکھنے والا ایک ملک پوری دنیا کی رائے عامہ کو بے اثر کر سکتا ہے۔ یہ جمہوریت کی کون سی تعریف اور کون سی قسم ہے، الغرض ویٹو پاور کے اختیار نے پوری اقوامِ متحدہ کو بے اثر اور مفلوج کر رکھا ہے۔ آج اقوامِ متحدہ کی بے توقیری اور امنِ عالَم کے تحفظ کے لیے بے وقعتی اُس مجلس اقوام (League of Nations) کے مقام پر آکھڑی ہوئی ہے جسے ختم کر کے اقوامِ عالَم نے 1945ء میں اقوامِ متحدہ کا ادارہ قائم کیا تھا۔ اب نہ یہ ادارہ جنگیں روکنے اور عالمی سطح پر امن قائم کرنے میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہے اور نہ اپنی قراردادوں پر عمل کرا سکتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی استصوابِ رائے (Plebiscite) کی قرارداد آج بھی اقوامِ متحدہ کا منہ چڑا رہی ہے، بھارت اُسے پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا اور ببانگ دہل مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنا اٹُوٹ انگ قرار دیتا ہے۔
کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، لیکن ان کے علم میں ہے کہ اسرائیل غزہ میں جس بربریت کا مظاہرہ اور ننگی جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے، اسے مسیحی ممالک کی حکومتوں کی مکمل پشت پناہی اور حمایت حاصل ہے۔ انہیں چاہیے کہ عالمی مسیحی برادری کو غزہ کے پورے تعمیراتی اور شہری خدمات کے ڈھانچے کی بحالی کے لیے فنڈ قائم کرنے کی اپیل کریں اور کہیں: وہ اپنی حکومتوں کو انسانیت کے خلاف ان مظالم کی پشت پناہی سے روکیں۔
تیسری دنیا کے ممالک میں ایک صحافی کا خدانخواستہ قتل ہوجائے‘ جو کہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے‘ تو امریکہ اور یورپی ممالک آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں، جبکہ غزہ میں درجنوں صحافی شہید ہوئے،لیکن مغربی ممالک سے کوئی توانا احتجاج سامنے نہیں آیا۔ بیسویں صدی میں جب مغرب میں بعض دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور فلسفیوں کے ضمیر زندہ تھے،تو اُن کا توانا کردار سامنے آتا تھا۔ 1970ء کے عشرے کے شروع میں ویتنام میں امریکی جنگ زوروں پر تھی تو برطانیہ کے لارڈ برٹرینڈ رسل نے ماہرین قانون اور نامی گرامی سکالرز اور فلاسفر پر مشتمل ایک ''غیر سرکاری عالمی عدالتِ انصاف ‘‘قائم کی تھی تاکہ ویتنام میں امریکی جنگی جرائم پر اس کا ٹرائل کیا جائے، اس میں پاکستان سے محمود علی قصوری اس عالمی عدالت کے رکن تھے، یہ ایک علامتی اقدام تھا، اس کے نتیجے میں امریکہ کے اندر بھی اس جنگ کے خلاف ردّعمل آیا اور بالآخر امریکہ کو ویتنام سے ناکامی کی ''دستارِ فضیحت‘‘ اپنے سرپہ سجائے نکلنا پڑا اور ویتنامی جنگ آزادی کے ہیرو ''ہوچی منھ‘‘ کی قیادت میں شمالی اور جنوبی ویتنام متحد ہوکر ایک قوم بنے اور آج ویتنام معاشی اعتبار سے ایک مستحکم ملک ہے۔ مگر مقامِ افسوس ہے کہ آج اہلِ مغرب کے دانشوروں اور اہلِ فکر و نظر کا ضمیر بھی اپنی ملکی اور قومی عصبیتوں کا اسیر ہے اور فلسطین کے مظلومین کے بارے میں اس طرح کی کوئی آزادانہ مؤثر تحریک سامنے نہیں آئی۔
مسلم اور عرب ممالک حماس کے مجاہدین کی عملی مدد کو تو نہیں پہنچے، نہ کوئی ایسے آثار ہیں کہ انہوں نے سامانِ حرب کی صورت میں ان کی کوئی مدد کی ہو، لیکن وہ کم از کم یہ تو کر سکتے تھے کہ کنٹینروں پر مشتمل موبائل ہسپتالوں کا ایک بڑا کارواں (Convoy) روانہ کرتے، جس میں ادویات کا وافر ذخیرہ بھی ہو، آپریشن تھیٹرز بھی ہوں، لیبارٹری کا پورا سامان اور آلات بھی ہوں، میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف کی پوری جماعت ہو، نیز اس کے ساتھ ساتھ خیموں، اشیائے خوراک، ایندھن کا پورا سامان ہو اور لاکھوں افراد کے لیے ایک عارضی خیمہ بستی بنائی جائے، جس کا تحفظ اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے مسلم ممالک کی مسلح افواج کریں، اس سلسلے میں این جی اوز اور رفاہی ادارے بھی اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں، اس کے لیے غزہ میں ایک محفوظ علاقہ (Safe Zone) قائم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ بڑی بڑی ریلیوں اور جلوسوں کی اہمیت بھی مسلّم ہے، کیونکہ اس سے غزہ کے مظلوم اور مجبور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے، لیکن دکھ کے مداوے اور درد کے درماں کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ ہمارے علم کے مطابق پاکستان کے بھی کئی ایسے رفاہی ادارے ہیں جو اس میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔
علماء یہ فتویٰ دے رہے ہیں: قرآنِ کریم کی اس آیۂ مبارکہ کی روشنی میں جہاد فرض ہو چکا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے، حالانکہ عاجز و بے بس مرد، عورتیں اور بچے (اللہ کی بارگاہ میں) پکار پکار کر دعائیں کر رہے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس ظالموں کی بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنی بارگاہ سے کوئی کارساز عطا فرما اوراپنے پاس سے کوئی مددگار عطا فرما‘‘ (النسآء: 75)۔ ایسے حالات میں جہاد کا اصول یہ ہے: ''اَلْاَقْرَب فَالْاَقْرَب‘‘، یعنی جو اُن کے قریب ہیں، اُن پر پہلے فرض ہے اور پھر اُن کی نصرت ناکافی ہو تو درجہ بدرجہ سب پر فرض ہے۔ لیکن فلسطینیوں کے پڑوسی مسلم ممالک اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور عالمی قوانین ایسے ہیں کہ دور دراز سے مسلّح مجاہدین کا پہنچنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ بیچ میں دوسرے ممالک کی حدود آتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ فلسطین کے پڑوسی ممالک مصر، شام، لبنان اور اردن ہیں، لیکن ان کے حالات و خیالات سب کو معلوم ہیں، عملی مدد تو دور کی بات ہے۔ مسلم ممالک اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں غزہ کے تعمیراتی اور شہری خدمات کے ڈھانچے کی بحالی کے لیے کسی فنڈ کے قیام کا بھی اعلان نہیں ہوا، مشترکہ قرارداد میں صرف مذمتی بیان اور جنگ بندی کی اپیل پر اکتفا کی گئی ہے، مولانا الطاف حسین حالی نے امت مسلمہ کی حالتِ زارپر ایک طویل منظوم مناجات لکھی ہے، اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے٭ اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے٭ ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی٭ دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے٭ ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر٭ مدت سے اسے دورِ زماں سمیٹ رہا ہے٭ روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چَراغ آج٭ بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے٭ فریاد ہے اے کشتیِ امت کے نگہباں٭ بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے٭ اے خاصّہ خاصّانِ رُسُل وقتِ دعا ہے٭ امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved