اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام آباد یا پنجاب نے چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کے حقوق غصب کیے ہوئے ہیں یا اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو نہ تو یہ زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی عقل اس مفروضے کو تسلیم کرے گی۔ آج ملک کی چاروں بڑی اور فیصلہ ساز شخصیات کا تعلق بلوچستان سے ہے اس لیے آج بلوچ عوام کے لیے انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ برسوں تک ایک مخصوص طبقے کی جانب سے یہ بیانیہ عوام کے کانوں میں انڈیلا جاتا رہا کہ وفاق اور پنجاب نے چھوٹے صوبوں کو دبا کر رکھا ہوا ہے، ان کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے اور عوام کو بنیادی حقوق اور سہولتوں سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس قسم کے بیانیے سے صوبوں میں نفرت پیدا کرنے کی مذموم کوششیں بھی کی گئیں مگر کسی نے مقامی حکمرانوں، وڈیروں اور سرداروں سے یہ پوچھنے کی جسارت نہ کی کہ آپ نے اپنے اپنے علا قوں میں اب تک کتنے سکول، کالج، سڑکیں، پل اور ہسپتال وغیرہ تعمیر کرائے ہیں؟ آپ نے اپنے قبیلے کی سوشل ویلفیئر کے لیے 76 برسوں میں کیا خدمات انجام دی ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک مرکزی حکومتوں میں سردار، وڈیرے اور ان کے نائبین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے رہے ہیں جبکہ ظاہری بات ہے کہ صوبائی حکومتوں میں بھی اقتدار کی مسندوں پر یہی افراد براجمان رہے، اس کے با وجود یہ پروپیگنڈا کیا جانا کہ چھوٹے صوبوں کو ان کے وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے‘ غیر منطقی بات ہے۔ چشم فلک تو یہ منظر بھی دیکھ چکی کہ بلوچستان کے ایک سیکرٹری کے گھر سے نیب نے 60 کروڑ روپے سے زائد رقم کیش کی صورت میں برآمد کی تھی جبکہ اس کیس میں نیب نے سیکرٹری خزانہ پر ایک ارب سے زائد کی کرپشن کا کیس بنایا تھا۔ پیسہ لانچوں میں بھر کر بیرونی ممالک پہنچانے کی کہانیاں بھی اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہ تو دیگ کے چند دانے ہیں‘ ورنہ ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ کانوں کو ان پر یقین نہیں آتا۔ بلوچستان کے فنڈز اور زمینی صورتِ حال میں ذرہ برابر بھی مطابقت نہیں ہے‘ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے ترقیاتی فنڈز کے اربوں‘ کھربوں روپے کتنے اور کون کون سے ہاتھوں نے ہڑپ کیے ہوں گے۔
گزشتہ تین‘ چار دہائیوں میں جب ہزاروں‘ لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے صوبوں کے جوان کام کاج کے لیے خلیجی ممالک میں جانا شروع ہو ئے تو وہاں رہتے ہوئے وہ جان گئے کہ ان کے وسائل لوٹ کر خلیجی ممالک میں کئی کئی منزلہ پلازے اور جائیدادیں بنانے والے کون ہیں؟ کھربوں روپوں کے وہ فنڈز جو گائوں‘ قصبے‘ تحصیل‘ ضلع کے کسی سکول‘ ہسپتال‘ سڑک‘ پل‘ ٹرانسپورٹ‘ نہروں اور پانی و گیس کی فراہمی کے منصوبوں کیلئے وفاق نے ان کے حوالے کیے تھے‘ وہ وڈیروں، سرداروں اور سیاستدانوں کے خلیجی ممالک میں وِلاز خریدنے اور پلازے بنانے کے کام آ رہے ہیں۔ آج جب ملک کے اہم اور کلیدی عہدوں پر بلوچستان کے افراد فائز ہیں تو فنڈز کی فراہمی اور فراوانی، گیس، بجلی اور پانی کی فراہمی سمیت تمام بند دروازوں کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے‘ تو وہ آگے بڑھ کر اپنے صوبے کے عوام کے لیے بجٹ فراہم کریں۔ اس و قت پاک بحریہ نے گوادر، تربت اور اوماڑہ میں سکول، کالج اور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کر رکھے ہیں، جو دیکھنے لائق ہیں۔ یہ ادارے بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔ اگر بلوچستان کی حکومتوں نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے سرکار کے وقف کردہ بجٹ کا پچیس فیصد بھی درست انداز میں خرچ کیا تو بلوچستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل ہی بلوچستان میں سازشی عناصر متحرک تھے مگر ان کی سازشوں کے باوجود جب بلوچستان کی اکثریت نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو کچھ سرداروں کو یہ کہہ کر ورغلایا گیا کہ تاریخی طور پر قلات ایران کا حصہ رہا ہے‘ اس لیے پاکستان کے بجائے ان علاقوں کا ایران کے ساتھ الحاق ہونا چاہیے لیکن اس وقت کی ایرانی قیادت نے پاکستان کے وجود کو سب سے پہلے تسلیم کرتے ہوئے ان سازشی عناصر کو ٹکا سا جواب دیا۔ ایران سے مایوس ہونے کے یہ افراد بھارت کی جانب دیکھنے لگے تاکہ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور پنڈت نہرو سے مدد مانگیں لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی مدد سے انکار کر دیا۔ یہاں سے مایوس ہونے کے بعد یہ افراد افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے پاس چلے گئے اور ظاہر شاہ نے ان کی بھرپور مدد کرتے ہوئے بلوچستان میں گوریلا جنگ شروع کرا دی۔ قائداعظم محمد علی جناح کو بلوچستان کے لوگوں سے خاصی امیدیں تھیں۔ مشہور چودہ نکات میں بھی قائداعظم نے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم جب نوزائیدہ مملکت کے سربراہ بنے تو اُنہوں نے بلوچستان کے معاملات اور اقتصادی ترقی کے کاموں کو براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھا۔اپنی زندگی کے آخری ایام بھی انہوں نے بلوچستان میں گزارے جبکہ وصیت میں اپنی دولت کا ایک کثیر حصہ قبائلی علاقوں کی تعلیم و ترقی کے لیے وقف کیا۔ جب ظاہر شاہ کی اشیرباد سے بلوچستان میں شورش برپا کی گئی تو پاکستانی فوج میدان میں اتری اور اپنے خون سے ظاہر شاہ اور نام نہاد قوم پرستوں کی مشترکہ بغاوت کو ناکام بنا دیا۔
یہ وہ موقع تھا جب بلوچستان کے معاملے میں ایک تاریخی غلطی سرزد ہوئی۔ ہوا یہ کہ اس کے بعد سے بلوچستان کے عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے ہمیشہ وہاں کے سرداروں اور مذہبی رہنمائوں کے ساتھ ہی معاملات طے کیے گئے۔ نجانے کس نے فیصلہ سازوں کو یہ ذہن نشین کرا دیا کہ چھوٹے صوبوں میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں اور جو کچھ بھی ہے‘ بس یہی وڈیرے، سردار اور خان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مقامی بااثر افراد کو کھل کھیلنے کی چھوٹ دے دی گئی اور انہوں نے مقامی افراد کو جس طرف چاہا‘ اس طرف ہانک دیا۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب بلوچستان کے کسانوں نے ''ششک‘‘ نام کا ٹیکس دینا بند کیا تو سردار کاشتکاروں کے خلاف ہو گئے۔ ششک کی رو سے ہر سردار اپنے علاقے کے کاشتکاروں سے زرعی پیداوار کا چھٹا حصہ وصول کرتا تھا، کسان اس کے علاوہ حکومت کو بھی ٹیکس دیتے تھے۔ 1972ء کی ربیع کی فصل پر کسانوں نے جب ششک دینے سے انکار کیا تو مقامی سردار یکجا ہو گئے اور 4 جون 1972ء کو مسلح لشکروں کے ساتھ غریب کسانوں اور کاشتکاروں پر چڑھ دوڑے۔ کسانوں کے کھیت اور گھر جلا دیے گئے جبکہ کئی کسان بھی اس تحریک میں مارے گئے۔ ان لشکروں نے مکران، کچھی، راڑہ شم، چاغی،جھائو اور آواران میں غریب کاشتکاروں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے وہ آج کے بلوچ نوجوانوں کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ 1976ء میں بھٹو نے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا مگر ایک تو اس کا غلط طریقہ کار تھا، دوم‘ بغیر کسی متبادل پلان کے اس اعلان سے منفی نتائج برآمد ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا وڈیرہ اور سردار زیادہ طاقتور ہو چکا ہے اور اب وہ صرف وڈیرہ اور زمیندار ہی نہیں بلکہ صنعتکار، سرمایہ دار اور پالیسی ساز بھی بن چکا ہے۔ دوسری جانب زمانے کی کروٹ سے حقائق پر سے پرتیں ہٹتی جا رہی ہیں اور اب عام لوگ بھی یہ باتیں بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ ان کی محرومیوں کا ذمہ دار وفاق نہیں بلکہ یہ وڈیرے اور سردار ہیں جو ہر دور میں حکومت میں شامل رہتے ہیں اور بے دست و پا ہونے کا رونا بھی روتے رہتے ہیں۔ بلوچستان کی پشتون بیلٹ میں بیداری کی ایک لہر دیکھی جا رہی ہے اور عوام میں شعور آ چکا ہے کہ جب تک وہ خود سرداروں کی اسیری سے آزاد نہیں ہوں گے‘ ان کے حقوق کی پامالی اسی طرح جاری رہے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved