جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ اِس دارِ فانی میں کریں گے اُس کا پورا حساب دینا ہوگا۔ حساب کتاب یعنی محاسبے کے بغیر آخرت کا تصور محال اور لاحاصل ہے۔ بہت سوں کے ذہن میں یہ تصور جاگزیں رہتا ہے کہ جو کچھ بھی کریں گے صرف اُس کا حساب لیا جائے گا۔ جی نہیں! جو کچھ نہیں کریں گے اُس کا بھی حساب دینا ہوگا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ کریں گے اُس کا حساب دیتے وقت بھی بنیادی نکتہ یہ ہوگا کہ ایسا کیوں کیا اور وہ کیوں نہ کیا جو کرنا چاہیے تھا!
ہمیں قدرت نے جن اوصاف سے نوازا ہے وہ تمام ہمارے پاس امانت ہیں۔ امانت لوٹانے کے لیے ہوا کرتی ہے؛ تاہم اوصاف کا معاملہ مختلف ہے۔ ہمارا ہر وصف اصلاً اِس بات کے لیے ہے کہ ہم اُسے بروئے کار لائیں اور وہ بھی اس طور کہ حق ادا کرنے کی سعی دکھائی دے۔ اپنے اوصاف کو اوصافِ حمیدہ میں تبدیل کرنے کی سعی ہم پر فرض ہے۔ ہم اپنے اندر‘ خدا کے کرم سے‘ جو بھی قابلیت پیدا کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر اِس لیے ہوتی ہے کہ اُس کے ذریعے ہم اپنا اور دوسروں کا کچھ نہ کچھ بھلا کریں۔ اگر کوئی پورے خلوصِ نیت کے ساتھ صرف اپنے لیے بھی کچھ کرے تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں کیونکہ اِس صورت میں بھی دوسروں کے لیے کچھ نہ کچھ خیر کا سامان ہو ہی جایا کرتا ہے۔
بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی بھی معاملے میں ذہن کو بروئے کار لانے سے یوں گریز کرتے ہیں گویا ذہن استعمال کرنے سے امانت میں خیانت واقع ہوجائے گی! اُن کے ذہن میں شاید یہ تصور راسخ ہوچکا ہوتا ہے کہ قدرت نے اُنہیں جو ذہن عطا فرمایا ہے وہ امانت ہے اور جیسا ملا ہے ویسا یعنی ''پیٹی پیک‘‘ واپس کرنا ہے! ذہن کا وجود صرف اِس لیے ہوتا ہے کہ اُسے بطریقِ احسن بروئے کار لایا جائے اور اس معاملے میں خِسّت (بُخل، کنجوسی) کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ یقینا آخرت میں جوابدہ ہوں گے۔
وقت کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ کسی بھی چیز کو بروئے کار نہ لایا جائے تو وہ تبدیلی رونما نہیں ہوگی جو اُس کے استعمال کیے جانے کی صورت میں پیدا ہوسکتی تھی۔ پھر بھی اِتنا ہے کہ استعمال نہ کیے جانے پر کسی بھی چیز کا وجود برقرار رہتا ہے۔ وقت کا معاملہ یوں مختلف اور منفرد ہے کہ اِسے بروئے کار لائیے یا نہ لائیے‘ دونوں ہی صورتوں میں یہ گزر جائے گا۔ جس چیز کو ہر حال میں گزر ہی جانا ہے‘ ختم ہو جانا ہے اُسے بروئے کار لانے میں کیا قباحت ہے؟ وقت کا اوّل و آخر تقاضا یہ ہے کہ اِسے کسی نہ کسی طور بروئے کار لایا جائے۔ جو لوگ وقت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں اصول پسند ہوتے ہیں اور منصوبہ سازی بھی کرتے ہیں اُنہیں سراہا جانا چاہیے۔ ایسے لوگ آسانی سے شناخت کیے جاسکتے ہیں کیونکہ اِن کی زندگی دوسروں سے مختلف اور بہتر ہوتی ہے۔
انگریزی کے عالمی شہرت یافتہ مصنف اور نقاد ڈی ایچ لارنس (D. H. Lawrence) کہتے ہیں ''زندگی واپس لے جانے کا معاملہ نہیں‘ اِسے خرچ کیجیے‘ فرق پیدا کرنے پر توجہ دیجیے‘‘۔ جی ہاں! فرق پیدا کرنے پر توجہ دینا لازم ہے؛ تاہم اِس سے پہلے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ زندگی واپس لے جانے کا معاملہ نہیں۔ زندگی یعنی وقت! ہمیں جو زندگی عطا ہوتی ہے وہ وقت سے ہٹ کر کیا ہوسکتی ہے؟ ہم جب تک روئے ارض پر رہتے ہیں‘ تعقل کی روشنی میں کہا جائے تو تب تک زندگی ہم سے صرف ایک تقاضا کرتی ہے‘ وہ یہ کہ وقت کو محض بروئے کار نہیں لانا بلکہ اِس طور بروئے کار لانا ہے کہ اِس کے نتیجے میں کچھ مثبت فرق پیدا ہو، دنیا بہتری کی طرف جائے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کی پشت پر صرف ایک مقصد ہوتا ہے ... کچھ نہ کچھ ایسا حاصل کرنا جس سے زندگی کا معیار بلند ہو، کچھ بہتری آئے۔
قدرت نے ہمیں وقت کی شکل میں جو نعمت عطا فرمائی ہے اُس کا بھی دیگر نعمتوں کی طرح کوئی جواب نہیں؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ نعمت دیگر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ نعمت صرف اس لیے عطا کی گئی ہے کہ ہم خود بھی بامعنی انداز سے جئیں اور دوسروں کے لیے بھی ایسا کرنے کی گنجائش پیدا کریں۔ اگر ہم وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر متوجہ نہ ہوں تو ہمارا سخت محاسبہ ہوگا۔
روئے ارض پر کسی بھی انسان کے لیے وقت سے بڑی حقیقت کوئی نہیں۔ وقت ہی کے دائرے میں گھومتے ہوئے وہ روئے ارض پر زندہ رہتا ہے۔ وقت کی بہتر تقسیم و تطبیق ہی اُس کی زندگی میں معنویت پیدا کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہے کہ وقت کی نوعیت اور حقیقت کو سمجھنے کے باوجود ہم اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچنے کی زحمت کم ہی گوارا کرتے ہیں؟
وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے، موزوں ترین انداز سے برتنے کے لیے سنجیدگی بنیادی شرط ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ وقت ہم سے ہمہ وقت سنجیدگی ہی کا تقاضا کرتا ہے۔ سنجیدہ ہوئے بغیر ہم وقت سے کماحقہٗ مستفید ہونے کی تیاری نہیں کر پاتے۔ سنجیدگی پیدا کرنے کا معاملہ مگر رُلتا رہتا ہے کیونکہ عام آدمی سنجیدہ ہونے میں اچھی خاصی قباحت محسوس کرتا ہے۔ سنجیدگی انسان سے بہت کچھ مانگتی بلکہ چھین لیتی ہے۔ جس طور کوئی مؤثر دوا کڑوی ہوتی ہے اُسی طور سنجیدگی بھی زندگی پر تھوڑی بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ عمل خیر ہی کے لیے ہوتا ہے مگر عمومی سطح پر لوگ برداشت نہیں کر پاتے۔ نیز یہ کہ سنجیدگی کے ساتھ جینے کی صورت میں بہتری تیزی سے نمودار نہیں ہوتی بلکہ کچھ وقت لیتی ہے اور انسان کو آزماتی بھی ہے۔ بہت سوں کو یہ انتظار سوہانِ روح لگتا ہے۔ لوگ فوری نتائج چاہتے ہیں۔ ان سے صبر ہو ہی نہیں پاتا۔ فوری نتائج کی شدید خواہش انسان کو عارضی نوعیت کی سوچ کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے سنجیدگی بنیادی شرط ہے۔ سنجیدہ ہوئے بغیر انسان وقت کو مؤثر ترین طریقے سے بروئے کار لانے کی ذہنیت کو پروان نہیں چڑھاسکتا۔ عمومی سطح پر ہم ایسے کام پسند کرتے ہیں جن کے نتائج فوری طور پر ظاہر ہوجائیں۔ ہم میں سے بیشتر اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹھوس نتائج کے لیے ٹھوس اعمال ناگزیر ہیں اور اِس کے لیے زیادہ وقت کا لگنا لازم ہے۔ ایسے میں تحمل بڑی چیز ہے مگر وہی نہیں ہو پاتا۔ لوگ بہت سے معاملات میں جس طرزِ فکر و عمل کو بالکل درست سمجھتے ہیں اُسے اپنانے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ انتظار نہیں ہو پاتا، تحمل سے کام لینا دل و جاں پر گراں گزرتا ہے۔زندگی کو نعمت اور امانت سمجھنے کی ذہنیت پروان چڑھانے والے بھیڑ سے الگ ہو جاتے ہیں کیونکہ عمومی اور سطحی ذہنیت کے حامل افراد اُنہیں پسند نہیں کرتے یا اُن کے ساتھ چلنے میں الجھن محسوس کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاصی بے ڈھنگی زندگی بسر کرنے والوں کو منظم اور معقول انداز کی زندگی بسر کرنے والے بُرے تو نہیں لگتے اور اُن کا احترام بھی ملحوظِ خاطر رہتا ہے؛ تاہم اُن سے ہم رکاب رہنے میں الجھن محسوس کی جاتی ہے کیونکہ ایسا کرنے میں بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے اور عمومی ذہنیت کے ساتھ یہ سب ممکن نہیں ہو پاتا۔
جو سانسیں آپ کو عطا کی گئی ہیں وہ امانت ہیں اور یہ امانت ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے لیے ہے۔ ایک ایک سانس کو پوری دیانت کے ساتھ بروئے کار لانا آپ کا فرض ہے کیونکہ اِس کا حساب دینا ہے۔ یہ دنیا آپ کے لیے ہے اور آپ اِس دنیا کے لیے ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ سوچ سمجھ کر جیا جائے۔ آخرت کو سب کچھ سمجھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہاں کی زندگی کو اپنایا نہ جائے اور رُوکھے پن کے ساتھ جیا جائے۔ یہاں بھرپور طور پر جینا ہے کیونکہ اِسی طور سانسوں کا حق ادا کیا جاسکتا ہے اور آخرت میں جوابدہی کے لیے بہتر طور پر تیار ہوا جاسکتا ہے۔ جب جینا ہی ٹھہرا تو سنجیدگی بھی لازم ہے اور جوش و خروش بھی۔ سنجیدگی ناگزیر طور پر منہ بسور کر جینے کی طرف نہیں دھکیلتی۔ تو پھر زندگی کو گلے لگائیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved