سپریم کورٹ کے بے مثال چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے الیکشن کمیشن کو فوراً انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا‘اور اس کی تعمیل بھی ہو گئی‘یوں ریٹرننگ افسروں کی تقرری کے بہانے انتخابات کے التوا کا جو خدشہ پیدا ہوا تھا‘ وہ دم توڑ گیا یا یہ کہیے کہ اُس کا دم نکال دیا گیا۔سپریم کورٹ کے بینچ میں ایک سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن شامل نہیں تھے‘لیکن جناب چیف جسٹس نے واضح کر دیا کہ یہ شمولیت ان کی عدم دستیابی کے باعث ممکن نہیں ہوئی۔ اس لیے سنیارٹی لسٹ کے مطابق ان کے بعد آنے والے جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ بن گئے۔چیف جسٹس کی یہ وضاحت بھی اپنی مثال آپ تھی کہ اس سے پہلے عدلیہ کے کسی سربراہ نے اس طرح کی تفصیل بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں یہ بدعت پختہ ہوئی کہ چیف جسٹس اپنے ساتھ ایک‘ دو جونیئر جج صاحبان کو بٹھا کر ہر طرح کے فیصلے صادر فرماتے رہتے تھے۔جسٹس ثاقب نثار نے اسے نقطہ عروج پر پہنچا دیا‘ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی اس سے ''انحراف‘‘ کو گناہِ کبیرہ سمجھا۔ سینئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ کو اہم امور کی سماعت کرنے والے بنچوں سے الگ رکھا گیا‘ اور بنچوں کی تشکیل کے حوالے سے کسی قاعدے یا ضابطے کو اپنانے پر آمادگی ظاہر نہیں کی گئی‘ اور تو اور سپریم کورٹ کے ججوں کا کوئی اجلاس بھی منعقد نہ ہو سکا۔یہاں تک کہ اہم آئینی اور سیاسی درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواستیں اور التجائیں بھی رد کی جاتی رہیں‘ججوں کے درمیان تقسیم کی خبریں عام ہوتی رہیں‘اور ان کے درمیان کچھاؤ واضح طور پر محسوس کیا جانے لگا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے منصب سنبھالتے ہی پروسیجر ایکٹ کے بارے میں درخواستوں کی سماعت کے لیے تمام ججوں کو ایک ساتھ بٹھایا‘ اور کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کی اجازت بھی دے دی۔قاضی صاحب سے جسٹس اعجاز الاحسن کو شکایت پیدا ہوئی تو انہوں نے خط لکھ کر اظہار کر دیا۔قاضی صاحب خود بھی اس طرح اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے تھے‘ لیکن اب کے معاملہ مختلف یوں ہوا کہ انہوں نے جوابی خط بھی تحریر کیا‘ اور اپنا نقطہ نظر اچھی طرح واضح کر دیا۔ یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ بنچوں کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار سے وہ خود ہی دستبردار ہو گئے تھے‘ اور انہی کے اقدامات کی بدولت پروسیجر ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کالعدم ہو سکا۔اگر وہ اس کے لیے فل کورٹ تشکیل نہ دیتے‘ اور بذاتِ خود اپنے اختیارات سے دستبرداری کا اعلان نہ کرتے تو ''آمریت‘‘ بدستور قائم رہتی‘ کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا۔
جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف دائر کیے جانے والے ریفرنسز کی سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت کے حوالے سے جب انہوں نے درخواست کی کہ کارروائی کو خفیہ نہ رکھا جائے تو بے دھڑک اس کی کوریج کی اجازت دے دی گئی۔اس کا مطلب واضح ہے کہ قاضی صاحب کچھ چھپانا یا دبانا نہیں چاہتے۔برسوں سے فائلوں میں دبی درخواستیں بھی اب زیر سماعت آ رہی ہیں‘فیض آباد دھرنا کیس اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔جسٹس صدیقی کے معاملے میں لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید اور بعض دوسرے افسران کو نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں کہ وہ آ کر بتائیں کہ اُنہیں ایک مقدمے میں اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کے لیے جج صاحب پر دبائو ڈالنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ قاضی فائز عیسیٰ شفافیت اور کھلے پن کی روایت قائم کر رہے ہیں‘ اگر اسے برقرار کھا گیا تو جہاں پاکستان کا نظام عدل مستحکم ہو گا‘ وہاں دستور کے تقاضوں کو نظر انداز کرنے والوں کی بھی شدید حوصلہ شکنی ہو گی۔
قاضی صاحب انتخابات8فروری کو منعقد کرانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے یک رکنی بنچ نے ریٹرننگ افسر اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسر مقرر کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کا اعلان معطل کیا‘ تو ملک بھر میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ الیکشن سے60 روز پہلے ان افسران کا تقرر لازم ہے کہ اس کے بعد الیکشن شیڈول کا اعلان کیا جانا ہے‘58 دن بعد انتخابات کا انعقاد ممکن ہو پاتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جب انتظامی افسران کا تقرر کیا تو تحریک انصاف کے ایک رہنما لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے‘ اور استدعا کی کہ انتظامی افسروں کا تقرر کالعدم قرار دیا جائے۔ فاضل جج نے آئو دیکھا نہ تائو‘ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اس بات کا اعلان کیا جا چکا ہے کہ انتخابی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے عدالتی عملہ دستیاب نہیں ہو گا۔ اس کی ایک بنیاد تو یہ بتائی گئی تھی کہ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اس سے اضافہ ہو جائے گا‘ اس انکار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی(اور ہے) کہ2013ء کے عام انتخابات میں جب عدالتی افسروں نے انتخابی ذمہ داریاں ادا کیں‘ تو تحریک انصاف نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری پر ان کے ذریعے مداخلت کا الزام بھی لگایا گیا۔جناب عمران خان کے علاوہ آصف علی زرداری بھی پھبتیاں کسنے میں پیش پیش رہے۔ جب اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اپنے عملے کی فراہمی سے انکار ہوا تو پھر الیکشن کمیشن آسمان سے تو عملہ بلوا نہیں سکتا تھا۔ اسے انتظامی افسروں ہی کا تقرر کرنا تھا‘2018ء کے انتخابات کا انعقاد بھی ان ہی کے ذریعے ممکن ہوا تھا‘ لیکن اب اس پر ہاہا کار مچاتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا‘ تو فوراً حکم امتناعی جاری ہو گیا۔اس کے بعد یک رکنی بنچ نے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا کہ وہ باقاعدہ سماعت کے لیے بڑا بنچ تشکیل دے دیں۔ اگر سماعت بڑا بنچ کرتا‘ تو انتخابی شیڈول کا اعلان بروقت نہ ہو پاتا۔ ریٹرننگ افسروں کا تقرر کیے بغیر نہ شیڈول جاری ہو سکتا تھا‘ نہ اس پر عملدرآمد ہو سکتا تھا نتیجتاً انتخابات کی تاریخ متاثر ہو جاتی۔چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ پہنچے‘ جناب چیف جسٹس سے ملاقات کی‘ تو فوراً نوٹس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا دن ڈھلے الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف درخواست دائر کی‘ اور غروبِ آفتاب کے بعد اس کی سماعت شروع ہو گئی۔جناب چیف جسٹس موسم سرما کی تعطیلات کے دوران بیرون ملک جا رہے تھے‘ اس لیے فوری سماعت لازم تھی۔نو بجے سے پہلے یہ فیصلہ صادر ہو چکا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم ہے۔ یہ ہدایت بھی کر دی گئی کہ اس معاملے میں کوئی اقدام نہ کیا جائے یعنی لارجر بنچ بھی رخصت۔الیکشن کمیشن کو فی الفور شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا گیا جس کی تعمیل کر دی گئی۔ ایک بار پھر واضح کر دیا گیا کہ8فروری کو انتخابات ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتیں تیاری کریں۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اب عدالتوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کے کام میں غیر ضروری مداخلت نہیں ہو گی اسے اپنا کام کرنے دیا جائے گا‘ انتخابات کے بغیر عوام کا حق ِ حکمرانی روبہ عمل نہیں آ سکتا یہ دستور کا ابتدائی اور انتہائی تقاضا ہے۔انتخابات کے بغیر ہمارا نظم اجتماعی استوار نہیں ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا شکریہ کہ اس نے قوم کو یقین کا تحفہ دے دیا ہے:
یقیں محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
سپریم کورٹ نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے‘ اب ''عمل پیہم‘‘ اور ''محبت‘‘ کے دعویدار بھی حرکت میں آئیں‘ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور سیاست کو کھیل سمجھ کر کھیلیں‘ جنگ سمجھ کر ایک دوسرے کے درپے نہ ہوں۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ '' دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved