انتخابات ہوں گے یا نہیں آخرکار سپریم کورٹ نے اس گتھی کو سلجھا دیا۔سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو وقت پر انتخابات کروانے کا حکم دیا۔یعنی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 8 فروری کو انتخابات کروانااب لازم ہے۔معاملہ اُس وقت پیچیدہ ہوا جب لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے بیرسٹر عمیر نیازی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا انتخابات کیلئے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔ اس کے بعد اس معاملے کی مزید سماعت کیلئے لاہور ہائیکورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا جس نے 18 دسمبر کو کیس کی سماعت کرنا تھی۔ایسی صورت میں انتخابات کا معاملہ کھٹائی میں پڑجاتا کیونکہ بیوروکریٹس کو تو کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو اس معاملے پرمزید احکامات جاری کرنے سے روک دیاہے۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو یقینی طور پرانتخابات التوا میں جاسکتے تھے۔ یہ بات بیرسٹر علی ظفر نے بھی مانی ہے کہ تحریک انصاف کے لاہور ہائی کورٹ میں جانے سے ایسا تاثر جاسکتاہے کہ وہ انتخابات سے راہِ فرار اختیار کر رہی ہے۔ عام انتخابات 8 فروری کو ہونے کیلئے یہ ضروری تھا کہ الیکشن کمیشن 15 یا 16 دسمبر کوالیکشن شیڈول جاری کرتا‘ ایسی صورت میں تب انتخابی شیڈول 54 دن کاہوتاکیونکہ آئین کے تحت انتخابی شیڈول انتخابات کے 54 دن پہلے جاری کرنا ہوتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ سپریم کورٹ کو معاملہ سننا پڑا اور عدالت کھولنا پڑی۔ دوسری صورت میں پھر سے بڑا آئینی بحران پیدا ہوجاتا‘لیکن چیف جسٹس نے اس بحران کو ٹال دیا۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ چیف جسٹس سے ملے اور انہیں حالات سے آگاہ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے وہ پابند ہیں کہ وہ کام روک دیں۔بنیادی طور پر سپریم کورٹ نے جو انتخابات کا اعلان کروایا تھااور لاہور ہائی کورٹ نے جوفیصلہ دیا الیکشن کمیشن کیخلاف اور بیوروکریٹس کو کام کرنے سے روکا تو اس سبب انتخابات کے ملتوی ہونے کے خدشے بڑھ گئے تھے یہی وجہ تھی کہ چیف الیکشن کمشنرچیف جسٹس کو ملنے گئے جس پر چیف جسٹس نے فوری کیس کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بیوروکریٹس کو بحال کردیا۔انہوں نے پٹیشنر عمیر نیازی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ کسی ریٹرننگ افسر کے خلاف درخواست آئی تھی؟ الیکشن کمیشن نے بتایا کسی نے کوئی درخواست نہیں دی، عمیر نیازی اسی پارٹی سے ہیں جس نے انتخابات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، عمیر نیازی کہتے ہیں وہ بیرسٹر ہیں توانہیں سپریم کورٹ کے احکامات کا علم ہونا چاہیے تھا۔ بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی، عمیر نیازی جواب دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔اور یوں عدالت نے عمیرنیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔صرف یہی نہیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ نجانے عدلیہ کیسے حکم جاری کر رہی ہے، کیا یہ آرڈر دینے والے جج مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے؟سپریم کورٹ کے احکامات سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ عدالت انتخابات پر کسی صورت شب خون مارنے نہیں دے گی اور ہوا بھی یہی۔جب یہ خبر آئی کہ سپریم کورٹ انتخابات کے کیس کی سماعت کرے گی تو ماہرین نے سوال بھی اٹھائے کہ آیا سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت کرسکتی ہے یا نہیں؟سابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے یہ نقطہ اٹھایا کہ سپریم کورٹ کو فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ لاہور ہائی کورٹ نے پہلے ہی پانچ رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے‘ اس کے اوپر بالادست ہوکر سپریم کورٹ آئین کا کونسا آرٹیکل استعمال کرتی ہے۔کیا وہ آئین کا آرٹیکل 184استعمال کرتی ہے؟بنیادی طور پر لاہور ہائی کورٹ نے 18 دسمبر کو اس کیس کی سماعت کرنا تھی‘ ایسے میں قانونی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پہلے سے کسی عدالت میں زیر سماعت کیس کو کیسے سن سکتے ہیں‘ بہرحال اب معاملہ اس بحث سے نکل چکا ہے۔ سارا معاملہ خراب ہی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے ہوا اور اس کی ذمہ داری تحریک انصاف پر ڈالی گئی۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ انتخابات میں عدالتی عملہ تعینات کیا جائے۔ وہ بیوروکریٹس پر اعتماد نہیں کرتی۔یہ بات درست ہے کہ انتخابات کے شفاف ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عملہ غیر جانبدار ہو۔اگر ان لوگوں کو الیکشن پر تعینات کیاجائے جو پہلے سے حکومت کا حصہ ہیں تو پھر جانبداری پر سوال تو اٹھتے ہیں لیکن تحریک انصاف کو ہمیشہ ہر چیز پراعتراض ہوتا ہے اور وہ ہر کسی کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد بانی پی ٹی آئی نے دھاندلی کا راگ الاپا اور وہ کنٹینر پر چڑھ گئے‘لیکن وہ اپنے الزامات کو درست ثابت نہیں کرسکے تو پھر تحریک انصاف کواب بیوروکریٹس پر کیسے اعتماد ہوسکتا تھا؟لیکن اب سپریم کورٹ نے انتخابات کی راہیں ہموار کردی ہیں اور الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کے بعد انتخابی شیڈول کا بھی اعلان کردیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، ریٹرننگ افسران 19دسمبرکو پبلک نوٹس جاری کریں گے۔شیڈول کے مطابق عام انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی 20 تا 22 دسمبر کو جمع کرائے جاسکیں گے۔ امیدواروں کی ابتدائی فہرستیں 23 دسمبر کو جاری ہوں گی۔امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 24 تا 30 دسمبر ہو گی، کاغذات نامزدگی کیخلاف اعتراضات تین جنوری تک دائر کیے جا سکیں گے، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کیخلاف اپیلیں 10 جنوری تک سنی جائیں گی۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز کے نام مراسلہ بھی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ڈی آراوز اور ریٹرننگ افسروں کی ٹریننگ 17 سے 18 دسمبر ہوگی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مراسلے کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی ایک روزہ ٹریننگ 19 دسمبر کو بھی ہوگی۔
انتخابات کا باب کھل گیا ہے اور اس میں چیف جسٹس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔وہ چٹھیوں پرجارہے تھے اور اس سے پہلے پہلے انہوں نے اپنے آئینی فریضے کو بخوبی انجام دے کر جمہوریت کی لاج رکھی ہے اور انتخابات کے در کو آئین کی چابی سے کھول دیا ہے۔ اگر پھر بھی کسی نے انتخابات میں ابہام پیداکرنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ لازمی طور پر بند باندھے گی۔ پاکستان انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور 8 فروری کو عوام اپنی قسمت اپنے ووٹوں سے بدلیں گے۔ الیکشن کمیشن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کو شفاف بنائے کیونکہ یہ ایک بڑاچیلنج ہوگا اور وہ اس لیے کہ ایک طرف یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ایک جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے‘ دوسری جانب پیپلزپارٹی بھی پری پول رگنگ کی بات کر رہی ہے۔یہ بات توطے ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ان کی شفافیت پر وہ لوگ سوال اٹھائیں گے جو اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے‘ لیکن الیکشن کمیشن کو اپنی طرف سے انہیں پورا غیر جانبدار بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اب بلیم گیم کی سیاست سے باہر آجائیں اور انتخابات کی تیاری کریں۔اپنے منشور کومضبوط بنائیں اپنے بیانیے کے بل پر الیکشن کا معرکہ سر کرنے کی کوشش کریں۔ہار کی صورت میں وہ اداروں کو الزامات دینے کی بجائے اپنا محاسبہ کریں تاکہ وہ بھی اگلے انتخابات میں عوام کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوسکیں۔جس دن ہمارے سیاستدانوں نے مثبت رویہ اپنا لیا تو جمہوریت کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved