کھلتے رنگ کی دراز قامت صحت مند رفیق کی ماں کا غم سنبھالنا کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔میری امی کے بس کی بات تو ہرگز نہیں تھی۔ ہمارے سمن آباد موڑ والے آبائی گھر کے صحن میں میری امی کبھی اسے سنبھالتی تھیں‘کبھی اپنے آنسو پونچھتی تھیں۔ اور رفیق کی ماں پچھاڑیں کھاتی ہوئی کبھی ایک طرف گرتی تھی اور کبھی دوسری طرف۔اسے کسی طرح قرار نہیں آتا تھا۔اور اس دن قرار تھا بھی کسے۔ لیکن اس کے دکھ کے برابر ہم میں سے کسی کا دکھ نہیں تھا۔اس کا جملہ ہم سب کا دل چیرے جاتا تھا۔ اس کی زبان پر مسلسل ایک ہی جملہ تھا'' ہائے۔ میرا بیٹا بھی گیا‘میرا ملک بھی۔ ہائے میرا بیٹا بھی گیا‘میرا ملک بھی۔‘‘میرا بیٹا‘میر املک۔‘‘یہ شاید 17 دسمبر 1971 ء کی شام تھی۔میری عمر کم تھی لیکن میں باون سال پہلے کا وہ منظر اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے آج کی بات ہو۔ وہ ہماری دھوبن تھی اور ہر ہفتے ہمارے یہاں کپڑے دھو کر لاتی تھی۔وہ بہت کم گو تھی اور مختصر ہی بات کیا کرتی تھی۔ دس دن پہلے جب وہ کپڑوں کی گٹھڑی سر پر لادے ہمارے گھر آئی تھی تو اس کا چہرہ گہنایاہوا تھا۔ اس کے جوان‘ بڑے بیٹے محمد رفیق کے مشرقی پاکستان کے محاذ پر شہید ہونے کی اطلاع انہی دنوں آئی تھی۔محمد رفیق فوج میں سپاہی یا حوالدار تھا۔رفیق کی ماں اُس دن آئی تو اُس کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ وہ ڈگمگ قدموں سے چلتی سیڑھیاں چڑھی۔ہماری امی کو اطلاع دی کہ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔اس کے رخساروں پر نم لکیریں تھیں لیکن لب پر کوئی شکوہ نہیں تھا۔ وہ پچھاڑیں نہیں کھا رہی تھی اوراس کے مسلسل بہتے آنسو اس کے صبر میں کوئی شگاف نہیں ڈالتے تھے۔وہ بس یہی کہتی تھی ''جو اللہ کی رضا۔جو اللہ کی رضا۔‘‘عورتوں کے بیچ اس کا سر بلند تھا کہ وہ شہید کی ماں تھی۔
دس دن بعد 17دسمبر1971ء کو بھی وہ شہید کی ماں تھی لیکن اُس دن اُس کی ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ نہیں اٹھاتی تھیں۔ وہ پچھاڑیں کھاتی کبھی ایک طرف گرتی تھی اور کبھی دوسری طرف اور سنبھالی نہیں جاتی تھی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کی خبر نے اس کے صبر میں جابجا شگاف ڈال دئیے تھے۔اس کا صدمہ دہرا تھا۔ اس کا بیٹا‘ اس کا ملک۔''ہائے میرا بیٹا‘ میرا ملک۔ہائے‘ میرا بیٹا‘ میرا ملک۔‘‘ رفیق کی ماں سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ اس دن سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ میرے والد جناب زکی کیفی کا دکھ سب سے بڑا ہے۔ جو اس ملک کے دو لخت ہونے پر اپنا دو ٹکڑے دل لیے پھرتے تھے جس کے لیے انہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا‘فلک شگاف نعرے لگائے تھے۔ ہندو فسادیوں کا سامنا کیا تھا‘ اپنا آبائی وطن چھوڑا تھا۔ آبائی گھر چھوڑا تھا اور آباء کی قبریں چھوڑی تھیں۔ میں سمجھتا تھا کہ میری امی کا دکھ سب سے بڑا ہے جنہوں نے آسودہ زندگی چھوڑی تھی‘اپنے ماں باپ‘بہن بھائیوں کو چھوڑا تھا اور ان گھروں کو چھوڑا تھا جس میں وہ پیدا ہوئی تھیں اور جس میں بیاہ کر آئی تھیں۔16 دسمبر کو میرے ماں باپ کو قرار نہیں تھا‘ ان سے ایک جگہ بیٹھا نہیں جاتا تھا‘ سویا نہیں جاتا تھا اور کھایا نہیں جاتا تھا۔ہم بچے انہیں روتا دیکھ دیکھ کر روتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کے دکھ کی کوئی اور برابری نہیں ہے۔ لیکن 17 دسمبر کومجھے پتہ چلا کہ میرے ماں باپ کا دکھ سب سے بڑا نہیں تھا‘ہماری دھوبن‘ رفیق کی ماں کا دکھ ان سے بھی بڑا تھا۔
مجھے 16 دسمبر سے پہلے کے دن بھی‘ جنگ کے دن بھی اسی طرح یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو۔بلیک آؤٹ‘ خندقیں‘ سائرن‘جنگی جہازوں کی پروازیں۔ صحن میں ذرا سا آڑ میں کھڑے ہوکر جنگی طیاروں کو ایک دوسرے کا تعاقب کرتے دیکھنا اور اگلے طیارے کے نشانہ بننے پر دھوئیں کی موٹی سی لکیر چھوڑنا۔ واہگہ سرحد کی طرف سے توپوں کے دھماکے سننا یا ہم سے تین چار میل دور راوی کے پل پر طیارہ شکن توپوں کی آوازیں ہم تک پہنچنا۔ ہمارے گھر میں دو منزلوں کے بیچ ایک تہ خانہ نما جگہ سب سے محفوظ سمجھی جاتی تھی سو پوری جنگ میں یہیں سب کے بستر لگا لیے گئے تھے بلکہ ہماری پھوپھی بھی اپنے گھرانے سمیت یہیں آگئی تھیں کہ ان کا گھر مخدوش حالت میں تھا۔ میرے والد نے گھر میں بھنے ہوئے چنے کافی تعداد میں لاکر رکھ دیے تھے کہ نہ معلوم کس وقت کیا صورتحال ہوجائے۔ میرے والد اُن دنوں جنگی ترانے بھی لکھتے تھے اور ولولہ انگیز نظمیں بھی۔یہ ترانے ریڈیوپاکستان سے نشر بھی ہوتے تھے۔ لیکن مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ جناب زکی کیفی ریڈیو پاکستان لاہور سے واپس آئے تو بہت دکھ سے والدہ کو بتایا '' میں جن لوگوں سے ملتا ہوں‘ ان سب کے چہرے شراب کی حدت سے تانبے جیسے ہوتے ہیں۔‘‘ مجھے اس وقت کے صدر آغا یحییٰ خان قزلباش کی ریڈیو پر تقریریں یاد ہیں جو‘ ٹوٹی پھوٹی اردو میں‘نشے میں دھت بھاری سانسوں کے ساتھ بظاہر بڑی بہادری کی باتیں کرتا تھا۔مجھے اب تک یاد ہے کہ بری خبریں بھی آیا کرتی تھیں‘ خاص طورپر بی بی سی سے اور ان پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔لیکن وہ برُی خبریں ہی سچی خبریں تھیں۔جنگ کے وہ دن‘ وہ وقت کون بھول سکتا ہے۔
اور آج جب 16 دسمبر 2023 ہے‘ باون سال گزرنے کے بعد بھی میرا کلیجہ کٹتا ہے۔باون سال پہلے میرا دکھ ایک تھا اور وہ تھا سقوطِ مشرقی پاکستان کا دکھ اور ہزیمت کا دکھ۔ اس وقت تو بس یہ پتہ تھا کہ دشمن نے غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر ہمیں وہ زخم لگایا جو صدیوں مندمل ہونے والا نہیں۔لیکن آج کلیجہ قاش در قاش کاٹنے والی چھریاں کوئی ایک نہیں‘کئی ہیں۔ آج جب میں جانتا ہوں کہ سال ہا سا ل مشرقی پاکستان کے حوالے سے کیسی مہلک غلطیاں کی گئیں۔اب جبکہ مجھے خبر ہے کہ اس سانحے میں سیاسی اداکاروں کے کیسے بھیانک مقاصد تھے تھا‘ اعلیٰ سول افسروں کا کیا گھناؤنا کردار تھا‘اعلیٰ ترین فوجی افسر کس طرح عیاشیوں میں منہمک تھے۔فوج نے عمومی طور پر کیسی کیسی قربانیاں دی تھیں۔ لڑنے والے عام فوجی اور نچلے افسران کس طرح بدقماش اور بد مست لوگوں کی بھینٹ چڑھادئے گئے تھے۔ اور عام لوگ کس طرح اس سب سے بے خبر تھے۔بہت سی چھریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ عام پاکستانی کس طرح اے اے کے نیازیوں اور یحییٰ خانوں کے کرتوتوں سے ناواقف تھا اور ان پر بھروسا کرتا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ آج بھی پڑھ لیں تو پڑھی نہیں جاتی‘ ہر کچھ صفحا ت کے بعد آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ میں حمود کمیشن رپورٹ بند کرکے اپنے والد کی کلیات '' کیفیات‘‘ کھولتا ہوں۔ ان کے دل کی کیفیات ان نظموں میں ملتی ہیں جو سقوط ڈھاکہ کے دنوں میں اور اس کے بعد لکھی گئی تھیں۔رفیق کی ماں کی پچھاڑیںاور اس کا کاٹ ڈالنے والا جملہ ان نظموںمیںبین کرتے ہیں۔
برباد کیوں ہوا یہ گلستاں جواب دو
اے قاتلان غیرتِ ایماں جواب دو
کیا اس لیے سہاگ اجاڑے تھے قوم نے
کیا اس لیے تھی خون کی افشاں جواب دو
کس دل سے ملک و قوم کی تذلیل کی گئی
غداریوں کی کس طرح تشکیل کی گئی
اس غدر اس فریب میں کس کس کا ہاتھ ہے
کس کس طرح شکست کی تکمیل کی گئی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved