دنیائے اسلام کے قابلِ فخر سپوت اور عظیم جرنیل صلاح الدین ایوبی نے مسجدِ اقصیٰ کو صلیبیوں سے واگزار کرانے کے لیے حملہ کیا تو صلیبی فوجوں کے ہاتھوں رملہ میں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوبی کی بیشتر فوج اس معرکے میں کام آ گئی، کچھ افراد دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے اور جو افراد بچ نکلے‘ وہ تتر بتر ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے تمام ذاتی محافظ اس جنگ میں مارے گئے۔ نومبر 1177ء کی اس جنگ میں خود صلاح الدین ایوبی نے اپنی جان بڑی مشکل سے بچائی اور دور ایک محفوظ غار میں پناہ لی۔ جب وہ غار سے باہر نکلا تو مسجدِ اقصیٰ کو مخاطب کر کے اونچی آواز سے بولا ''میرے پیارے بیت المقدس! میں جلد واپس آئوں گا‘‘۔ ایوبی نے اس شکست کے بعد واپس مصر کی راہ لی اور اگلے تین سال تک اپنی فوج کو منظم اور نئے فوجیوں کو بھرتی کرنے پر کام کیا۔ 1180ء میں اس نے دوبارہ حملے کا سوچا تو صلیبی بادشاہ بالڈون نے صلح کا پیغام بھیج دیا۔ اس وقت خشک سالی اور قحط کے سبب دونوں افواج جنگ لڑنے سے قاصر تھیں۔ صلاح الدین نے اس آفر کو قبول کر لیا اور جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا۔ کچھ علاقائی صلیبی سرداروں نے اس معاہدے سے انحراف کیا تو ان کی سرکوبی کی گئی اور صلاح الدین کو فتح ملی۔ آہستہ آہستہ شام، موصل اور حلب کے علاقے فتح کر لیے گئے جبکہ حشیشین کے خلاف بھی کارروائیاں جاری تھیں۔ 1186ء میں عیسائی حکمران رینالڈ ایک بڑی فوج کے ساتھ مدینہ منورہ پر چڑھائی کے ناپاک منصوبے سے نکلا۔ ایوبی کو خبر ملی تو فوری طور پر ا س کا پیچھا کیا اور حطین کے مقام پر اس کو پکڑ لیا جہاں ایک خونریز جنگ ہوئی۔ تیس ہزار صلیبی قتل اور لگ بھگ اتنے ہی قیدی بنے۔ رملہ کی شکست کے ٹھیک دس سال بعد صلاح الدین دوبارہ بیت المقدس کے باہر فوج لے کر کھڑا تھا اور اس بار پُرامن طریقے سے اس مقدس شہر کو فتح کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے مگر صلاح الدین ایوبی نے ثابت کر دیا کہ
جھپٹنا‘ پلٹنا‘ جھپٹ کے پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
ہر سال دسمبر کے آتے ہی پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس‘ یہ وہ زخم ہیں جو کبھی بھر نہیں سکتے۔پاکستان میں بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ جنرل اروڑہ نے 14 دسمبر 1971ء کو جنرل نیازی کو الٹی میٹم بھیجا تھا کہ '' اگر اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہتھیار نہ ڈالے گئے تو مکتی باہنی ،قادر باہنی اور مجیب باہنی کو پچاس لاکھ سے زائد بہاریوں اور مغربی پاکستان سے آئے ہوئے پچاس ہزار کے قریب سول اور پولیس ملازمین کے قتلِ عام کی کھلی چھٹی دے دی جائے گی‘‘۔ 16 دسمبر کو جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار تو ڈال دیے لیکن اپنا جذبہ دشمن کے حوالے نہیں کیا اور اس کا اظہار محض پانچ ماہ بعد وادیٔ لیپا کے معرکے میں ہو گیا تھا۔ گزشتہ ایک کالم میں اس کا سرسری ذکر ہوا‘ آج اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
دسمبر 1971ء کے سانحے کے صرف پانچ ماہ بعد ہی 4 مئی 1972ء کو آزاد کشمیر کی وادیٔ لیپا میں پاکستانی افواج کا بھارتی فوج کے ساتھ سامنا ہوا۔ اس معرکے میں بیرو والی ناڑ، چک پترا اور جموہا بلج پر قبضہ کرنے کے علاوہ بھارتی فوج کے 206 افسروں اور جوانوں کو قیدی بنایا گیا تھا۔ بھارت اولاً اس جھڑپ اور فوجیوں کی گرفتاری سے انکار کرتا رہا مگر 15 مئی کو آل انڈیا ریڈیو نے تسلیم کر لیا کہ بھارت کی 9 سکھ رجمنٹ اور 4 مہار رجمنٹ کی کشمیر میں لیپا پر بنے مورچوں پر پاکستانی فوج سے جھڑپ ہوئی اور جس میں میجر ڈی سوزا ہلاک ہو گئے اور بھارتی فوج کو یہ پوسٹیں خالی کر نا پڑیں۔
وادی لیپا کی بلندی سطح سمندر سے لگ بھگ پانچ ہزار فٹ ہے جبکہ پہاڑوں کی چوٹی کی بلندی 12 ہزار فٹ سے بھی زیادہ ہے۔ دسمبر 1971ء کی فائر بندی سے قبل پاکستان کے دستوں نے مقبوضہ کشمیر کے دو پہاروں گٹی پتھرا اور گرسی ڈنہ‘ جسے جموہا بلج بھی کہتے ہیں‘ پر قبضہ کر لیاتھا جس سے لیپا وادی میں تعینات بھارت کی ایک بریگیڈ کا دوسری بریگیڈز سے رابطہ کٹ گیا تھا۔ اس بریگیڈ کو جس راستے سے سپلائی جاتی تھی‘ وہ بھی پاکستان کے قبضے میں آ گیا تھا۔ بھارت کو اب اس بریگیڈ کو سپلائی پہنچانے کیلئے طویل اور دشوار گزار راستوں سے جانا پڑتا تھا جس میں چار‘ پانچ دن لگ جاتے تھے۔ اس بریگیڈ کے سگنل اور فون کے تار بھی پاکستانی فوج نے کاٹ دیے تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے نشے میں چُور بھارتی فوج نے دھمکی بھیجی کہ یہ پوسٹ فوراً خالی کر دو لیکن کرنل حق نواز شہید نے سختی سے انکار کر دیا۔تین اور چار مئی کی درمیانی رات بھارتی فوج نے اچانک لیپا وادی میں پاکستان کی اگلی پوسٹوں پر توپخانے سے گولہ باری شروع کر دی جبکہ گولہ باری کے سائے میں پاکستان کی حساس پوسٹ ''بیرو والی ناڑ‘‘ پر قبضے کے لیے میجر گنگولی کی قیادت میں حملہ بھی کر دیا گیا جسے پاک فوج کے کیپٹن جاوید انور نے ناکام بنایا۔اس دوران میجر گنگولی مارا گیا۔ اب پاکستانی فوج کے ڈویژن کمانڈر نے فیصلہ کیا کہ بھارت کو اس حملے کا جواب دینا لازمی ہو چکا ہے۔ رات ڈھائی بجے پاکستانی فوج کے دستے چک پترا پہاڑ پر قائم بھارتی پوسٹ کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے جو ساڑھے آٹھ ہزار فٹ بلند تھی جبکہ وادی کے دامن سے چوٹی تک کی بلندی قریب ساڑھے چار ہزار فٹ تھی۔
تصور کیجئے کہ چک پترا کی چوٹی پر بنکر نما پوسٹوں کو تباہ کرنا تھا اور یہ بنکروں والے مضبوط مورچے بلندی پر واقع تھے اور ان تک پہنچنے کیلئے پہاڑ کی چڑھائی بھی تقریباً عمودی تھی۔ ہتھیاروں اور ایمونیشن کا بوجھ لادے پاک فوج کے جوانوں نے ساڑھے چار ہزار فٹ عمودی چڑھائی کر کے اور پھر کوئی آواز پیدا کیے بغیر خاموشی سے دشمن پر حملہ کرنا تھا جو لگ بھگ ناممکن تھا مگر کفن پوش مجاہد اس معرکے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ آج بھی اس پہاڑ پر چڑھیں یا اتریں تو ذہن میں کوہ قاف اور جنوں‘ پریوں کا تصور آ جاتا ہے۔ اس کے نیچے بہتی ہوئی ندی ایک ٹیڑھی لکیر کی طرح نظر آتی ہے۔ پاک فوج کے جوان اپنے افسران کی قیادت میں اوپر چڑھتے رہے اور آخرکار وہ وقت آ گیا جب ان کا ٹارگٹ صرف 200 گز دور رہ گیا تھا لیکن رات کی اس تاریکی اور گہرے سناٹے میں ایک جوان کا ہتھیار کسی پتھر سے ٹکرا گیا جس کی آواز پہاڑوں میں گونجنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی دشمن چوکنا ہو گیا اور اس کی مشین گنوں نے آگ اگلنا شروع کر دی جس سے فرنٹ پر موجود کمپنی کمانڈر میجر صابر شہید ہو گئے۔
جوان چار ہزار فٹ کی عمودی چڑھائی اور آکسیجن کی کمی کے علاوہ ہتھیاروں اور ایمونیشن کے بوجھ سے خاصے نڈھال ہو چکے تھے، ایسے میں دشمن کے بنکروں سے گولہ باری کی موسلا دھار بارش سے لگتا تھا کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا لیکن دھرتی کے ان سپوتوں کے حوصلے برقرار رہے۔ اسی دوران صوبیدار غلام محی الدین مشین گن کا برسٹ لگنے سے جام شہا دت نوش کر گئے مگر جوان رکے نہیں۔ پلاٹون کمانڈر صوبیدار محمد صادق بھی شہید ہو گئے لیکن دوسری جانب سے میجر اشتیاق اور میجر (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) جمشید گلزار کی کمپنی نے دشمن کے اُن بنکروں پر ہلہ بول دیا جہاں بھارت کی 9 سکھ اور چار مہار رجمنٹ تعینات تھی۔ زبردست لڑائی کے بعد آخرکار 206 بھارتی فوجیوں اور افسران نے سفید جھنڈا لہرا کر پاک فوج کے سامنے ہتھیار پھینک دیے۔ اگلی صبح فیلڈ کمانڈر کی جانب سے قوم کو پیغام دیا گیا ''فوج نے سولہ دسمبر کے صرف چار ماہ بعد ہی ثابت کر دیا ہے کہ وہ پہلے بھی نہیں ہاری تھی‘ اب بھی نہیں ہارے گی‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved