ہمارے ملک میں سال میں دو دفعہ طالب علموں کو پڑھائی سے چھٹیاں ملتی ہیں۔ ان تعطیلات میں طالب علم اپنا بہت سا وقت گنوا بیٹھتے ہیں اور تعطیلات کے بعد زندگی کے حقائق کو سمجھنے اور تعلیم کی گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی بجائے پہلے کے مقابلے میں تعلیمی حوالے سے کمزور ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی کارکردگی کو دیکھ کر بالعموم افسردگی کا اظہار کرتے ہیں اور کئی مرتبہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ طالب علم نے اپنے وقت کو گنوا دیا ہے لیکن تعطیلات میں نظام الاوقات کو مرتب کرنے کیلئے والدین بھی بالعموم خاطر خواہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ چھٹیوں کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ وقت کو ضائع کر دیا جائے بلکہ چھٹیوں میں انسان کو وقت سے بہت کچھ حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ جو لوگ فارغ اوقات سے کچھ حاصل کرتے ہیں وہ زندگی کی شاہراہ پرکامیابی سے آگے بڑھتے ہیں اور جو وقت کو ضائع کر بیٹھتے ہیں یقینا ان کے ہاتھ میں ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا۔ وقت‘ یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا درست استعمال کرنے والے لوگوں نے تاریخ انسانی پر گہرے نقوش ثبت کیے جبکہ وقت کو گنوانے والے لوگ حسرت و یاس کی تصویر بن کر لوگوں کیلئے عبرت کی ایک مثال بنے رہے۔ ہم اپنے گردوپیش میں اگر نظر دوڑائیں تو بہت سے کامیاب لوگ ہمیں ایسے نظر آئیں گے جنہوں نے وقت کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور کامیابی کی منازل طے کیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے گرد و پیش میں بہت سے ناکام لوگ ایسے بھی نظر آئیں گے جنہوں نے وقت کو گنوا دیا نتیجتاً وہ زمانے کی دوڑ میں اپنے ہم عصروں سے بہت پیچھے رہ گئے۔ وقت کو درست طریقے سے استعمال کرنا یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی رحمت ہے اور دیکھنے میں آیا کہ اس حوالے سے مثبت رہنمائی کرنے والے لوگ معاشرے میں کم پائے جاتے ہیں۔ جو لوگ وقت کو بہتر انداز سے گزارنے کے حوالے سے انسانوں کی اچھے انداز میں رہنمائی کرتے ہیں‘ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے‘ ان کی نصیحتوں کو توجہ سے سننا چاہیے اور ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ سردیوں کی مختصر تعطیلات میں بہت سے مفید کام کیے جا سکتے ہیں۔ ان کاموں کو انجام دے کر انسان مستقبل کی شاہراہ پر احسن طریقے سے گامزن ہو سکتا ہے۔ اگر ہم غور و خوض کریں تو سردیوں کی تعطیلات میں کیے جانے والے چند اہم کام درجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔
(1)عبادات میں تندہی: کئی مرتبہ تعلیمی مصروفیات کے دوران طلبہ تندہی کیساتھ عبادات کو انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں لیکن اگر طلبہ ان چھٹیوں میں عبادات پر بھرپور انداز سے توجہ دیں تو نہ صرف یہ کہ نمازِ پنجگانہ کے انتظام کی صورت نکلتی ہے بلکہ نوافل اور سنتوں کے اہتمام کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں۔ بہت سے طلبہ مادی اعتبار سے تعلیم میں منہمک رہنے کیساتھ ساتھ تہجد گزاری اور اشراق کی پابندی کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی قربت کے راستے پر بھی چل نکلتے ہیں نتیجتاً اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتیں ان کے شاملِ حال ہو جاتی ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ اللہ نے سورۃ الذاریات میں اس حقیقت کو واضح کردیا کہ انسانوں اور جنات کی تخلیق کا حقیقی مقصد اللہ کی بندگی اور اس کی عبادات کو بجا لانا ہے۔ چنانچہ ان چھٹیوں میں اس مقصدِ تخلیق کو سمجھنا اور اس کی انجام دہی کیلئے اپنے آپ کو مستعد کرنا یقینا بڑی فائدہ مند بات ہے۔ اگر انسان اس بات پر توجہ دے تو یہ مختصر چھٹیاں یقینا انسان کی زندگی میں انقلاب کا سبب بن سکتی ہیں۔
(2)قرآن فہمی: سردیوں کی مختصر چھٹیوں میں قرآن مجید کے طویل ابواب پر غور کرنا تو ممکن نہیں لیکن قرآن مجید کی کوئی ایسی سورت جس کی طوالت زیادہ نہ ہو‘ یقینا اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ سورۃ الاحزاب‘ سورۃ یوسف‘ سورۃ الحجرات اور سورۃ النور جیسی سورتوں پر ان چھٹیوں میں غور و خوض کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام سورتوں میں زندگی گزارنے کے بہت سے اہم آداب کے بارے میں بڑی تفصیلی انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ شرم و حیا اور کردار سازی جیسے اہم موضوعات کو ان سورتوں میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ اگر ہم ان سورتوں کے مضامین پر غور کرنے کی کوشش کریں اور ان پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہو جائیں تو ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے اور ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی روشنی میں اپنی سیرت و کردار کو مزین کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
(3)والدین کے کام آنا: انسان دورانِ سال اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے والدین کے چھوٹے موٹے کاموں میں ان کی معاونت کرنے سے قاصر رہتا ہے لیکن تعطیلات میں انسان کو ایسا وقت میسر آتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ بہت سے کاموں کو انجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ گھر کا سامان لانا اور اپنے والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانا‘ یقینا بہت بڑی خیر والی بات ہے۔ باشعور اور کامیاب والدین اپنے بچوں کو اچھی نصیحتیں کرتے اور ان کو اپنے کاموں میں شریک کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لقمان علیہ السلام کا ذکر کیا‘ جنہوں نے اپنے بیٹوں کو گراں قدر نصیحتیں کیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے کاموں میں شریک بھی کیا کرتے تھے اور نیکی کے کاموں میں مشارکت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے دعاگو بھی رہا کرتے تھے۔ سورۃ ابراہیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی اولاد کی کامیابی کیلئے کی جانے والی بہت سی دعاؤں کا ذکر کیا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کو اچھے کاموں میں شریک کرنے کیساتھ ساتھ ان کی کامیابی کیلئے دعا گو بھی رہنا چاہیے۔
(4)ہوم ورک مکمل کرنا: سردیوں کی تعطیلات میں کئی مرتبہ سکول کی طرف سے بچوں کو مطالعے اور لکھنے کیلئے کام دیے جاتے ہیں۔ اگر اس ہوم ورک کو اچھے طریقے سے مکمل کیا جائے تو طالب علموں کی ذہنی اور تعلیمی قابلیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے لیکن بالعموم دیکھنے میں آیا ہے کہ طالب علم چھٹیوں کے ابتدائی ایام ضائع کر بیٹھتے اور آخری دو تین دنوں میں کام نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس انداز میں کیے جانے والا کام یقینا انسان کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کا سبب نہیں ہوتا بلکہ طالب علم اس کام کو تیزی کیساتھ کرکے اپنی جان چھڑوا کر اپنے سر سے اُس بوجھ کو اتارنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جو اُن پر لاد دیا گیا ہوتا ہے۔
(5)بزرگ رشتے داروں سے ملاقات: انسان کے بزرگ رشتے دار اُس کی ترقی کیلئے ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں اور ان کی نیک تمنائیں یقینا زندگی کا بہت بڑا اثاثہ ہوتی ہیں۔ اپنے دادا‘ دادی‘ نانا‘ نانی اور بزرگ رشتے دارو ں سے ملنا یقینا ہر اعتبار سے قابلِ قدر عمل ہے‘ جس پر کئی مرتبہ تعلیمی مصروفیات کے دوران عمل پیرائی ممکن نہیں رہتی لیکن ان چھٹیوں میں اگر ایسے بزرگوں کی ملاقات کیلئے جائیں‘ ان کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کو حاصل کریں تو یقینا یہ عمل طلباء کیلئے خوش قسمتی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔
( 6)بیماروں اور مساکین کی خدمت: اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جہاں اپنی عبادت کیلئے بھیجا وہیں پر دردِ دل اور مجبور اور مستحق انسانوں کے کام آنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ جو طلبہ ان ایام کو صحیح طریقے سے گزارتے ہیں‘ وہ غریب اور مساکین لوگوں کے کام آتے اور بیماروں کی بیمار پرسی کرکے اپنے اندر انسانی ہمدردی کے ایک ایسے جوہر کو پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پوری زندگی روشن اور منور ہو جاتی ہے۔ ان چھٹیوں میں اگر ہم اپنے گرد و پیش پہ نگاہ ڈالیں تو ہمیں بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کی زندگی محرومیوں کا شکار ہے۔ ان محرومیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو دلاسہ دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی وجہ سے ہم دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں ان چھٹیوں کا استعمال کرتے ہوئے مجبور اور مفلوک الحال انسانیت کے کام آنے کیلئے مستعد اور ہوشیار رہنا چاہیے۔
(7)کتب بینی: ان چھٹیوں میں کسی ایک مفید کتاب کا مطالعہ جس کا تعلق سیرت یا تاریخ سے ہو‘ انتہائی مفید ہے۔ سیرت النبیﷺ کے درخشاں پہلوؤں سے اپنی زندگی کو منور کرنے کی کوشش کرنا یا حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے روشنی حاصل کرکے ان کے نقوشِ پا پہ چلنے کی کوشش کرنا‘ ہر اعتبار سے انسانیت کیلئے مفید ہے۔ ان باتوں پر عمل کرنے والے لوگ یقینا مستقبل کی شاہراہ پر بطریقِ احسن گامزن ہو جاتے اور مستقبل کی بھلائیوں کو سمیٹنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
چھٹیوں میں وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنے والے طالب علم جب سکول واپس پلٹتے ہیں تو ان کی طبیعت پر خوشگوار اثرات ہوتے ہیں اور وہ اپنے تعلیمی معاملات کو چاق و چوبند ہو کر انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس کے مدِ مقابل وہ لوگ جنہوں نے اپنے وقت کو ضائع کیا ہوتا ہے‘ نہ صرف یہ کہ وہ پچھتا رہے ہوتے ہیں بلکہ آئندہ آنے والے تعلیمی معاملات میں بھی اُن کی سرگرمی پہلے کے مقابلے میں ماند نظر آتی ہے۔ سردیوں کی چھٹیوں کو ضائع کرنا‘ یقینا ہر اعتبار سے ایک بہت بڑا نقصان ہے اور ان چھٹیوں سے استفادہ کرنا یقینا ہر اعتبار سے فائدہ مند بات ہے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے طالب علموں کو اپنے وقت کو احسن انداز سے گزارنے کی توفیق دے۔ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved