تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     12-10-2013

نظامِ انصاف

وزیر اعظم نے ایک جج سے متعلق چو نکا دینے والی بات کہی ہے۔ ہمارانظامِ عدل سچ یہی ہے کہ عام آ دمی کو انصاف دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ چند دن پہلے مو لانا عبدالعزیز کو تمام مقدمات سے بری قرار دے دیا گیا۔پھر مو لانا صوفی محمد کے بارے میں خبر آئی کہ عدالت کے روبرو وہ بھی بے گنا ہ ٹھہرے۔تازہ ترین اطلاع جنرل پرویز مشرف صاحب سے متعلق ہے۔ تمام مقدمات میں ضمانت ہوگئی ۔قریب تھاکہ رہا ہوجاتے کہ ایک نئے مقدمے نے پاؤں پکڑ لیے۔یہ مقدمہ سابقہ مقدمات سے بھی کمزور تر ہے۔لال مسجد کمیشن کی رپورٹ آچکی۔مشرف صاحب کو مجرم قرار دینا مشکل ہوگا۔اس لیے دکھائی یہی دیتاہے کہ ایک بار پھر ضمانت ہو جا ئے گی۔ مو لانا عبدالعزیز،مو لا نا صوفی محمد اور جنرل مشرف جن مقدمات میں ملزم تھے،اُن کی بنیاد ایسے واقعات پر ہے جو اعلانیہ ہوئے۔لال مسجد ایسا حادثہ تھا جس نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ ابہام اگرچہ آج تک باقی ہے کہ کتنی انسانی جانیں اس سانحے کی نذر ہوئیں۔ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب نے مجھے بتا یا کہ جماعت اسلامی نے مقتولین کے کوائف جمع کر ناشروع کیے۔کسی ایک بچی کے غائب ہونے کی شکایت ان تک نہیں پہنچی۔تاہم جنرل مشرف خود یہ کہہ چکے کہ نوے افراد کام آئے۔ میرے نزدیک ایک بے گناہ کی جان بھی اگر جاتی ہے تو یہ کم حا دثہ نہیں، نوے تو بہت ہوتے ہیں۔اتنا بڑا حا دثہ گزر گیا۔ اب معلوم ہوا کہ مو لانا عبدالعزیز ذمہ دار ہیں نہ جنرل مشرف۔اسی طرح ہزاروں پاکستانی مو لا نا صوفی محمد صاحب کے کہنے پر افغانستان گئے اور بہت سے لوٹ کر نہیں آئے۔اکبر بگتی بھی مارے گئے اور ظاہر ہے کہ کسی عدالتی فیصلے کے بغیر۔یہ سب واقعات خلا میںنہیں ہوئے۔زمین پر اس کے شواہد بکھرے ہوئے ہیں۔اس کے باوصف کوئی مجرم ثابت ہو ا نہ کسی کی داد رسی ہوئی۔آد می سوچتا تو ہے کہ انصاف کے بغیر سماج کیسے چلے گا؟ عدالتیں تو قانون کے ساتھ گواہوں اور شہادتوں کی پابند ہیں۔سوال یہ ہے گواہی کون دے گا؟ کراچی میں ایک نجی ٹی وی کے رپورٹرولی بابر کا قتل ہوا۔ سات گواہ پیش ہوئے اور سب مار ڈالے گئے۔پھر ان کا وکیل قتل ہو گیا۔مجرم کی شناخت کر لی گئی کہ شناخت پریڈ میں معاملہ ایک بار پھر مشتبہ ہوگیا۔ایک قاتل تک پہنچنے کے سفر میں آٹھ افراد اپنی جان گنوا چکے اور اب بھی امکان نہیں کہ وہ قانون کی گرفت میں آئے۔وزیر اعظم صاحب کا یہ بیان تو کسی دھماکے سے کم نہیں کہ مجرم اعتراف کر رہا تھا اور جج صاحب رہا کر نے پر مصرتھے۔ عدالتوں میں جو کچھ ہوتا ہے،یہ اس کی ایک جھلک ہے۔سپریم کورٹ آئے دن اس نظام کی کمزوریوں کا ذکرکرتی ہے لیکن اصلاح کی کوئی صورت سامنے نہیں آرہی۔ آخر کیوں؟ کسی سماج میں انصاف کا انحصار تین باتوں پرہے۔ سماج کی عمومی اخلاقی حالت‘ روایات‘قانون اور قوت ِ نافذہ۔سماج اخلاقی طور پر پست ہو تو عدالتوں سے بھی انصاف نہیں مل سکتا۔قانون کا احترام ایک سماجی قدر ہے۔جہاں یہ مستحکم ہو جائے وہاں لکھا ہو اقانون مو جود نہ ہو تو بھی انصاف ہو تا ہے۔ہمارے ہاں لکھے قانون کی روایت بہت بعد میں مستحکم ہوئی۔ابتدا میں تو فیصلہ قاضی کی صواب دید ا ور فہم ہی پر ہو تا تھا۔یہ تو عباسی حکمران ہارون الرشید کے تو جہ دلانے پر امام ابو یوسف نے ’کتاب الخراج‘ لکھی کہ ریاست کی غیر معمولی تو سیع کے بعد اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔اسی طرح کی ایک کوشش عثمانیوں نے کی یا ہندوستان میں اورنگزیب نے۔ایک غیرتحریری قانون کی غیر مو جو دگی میں بھی انصاف ہو تا تھا کیونکہ سماج کی اخلاقی بنیادیں مستحکم تھیں۔اسی طرح انگلستان میںآج بھی تحریری قانون مو جود نہیں لیکن انصاف مو جود ہے۔آئین ا ور قانون دورِ جدید میں ایک ریاست کے مستحکم نظام کی نا گزیر ضرورت ہے لیکن انصاف اس کا محتاج نہیں اور نہ اس پر منحصر ہے۔عدالتوں میں گواہی کی حیثیت بنیادی ہے۔جس سماج میں جھوٹی گواہی کو لوگ بطور پیشہ اختیار کر لیں،پولیس رشوت لیتی اور چھوٹے بڑے میں تمیز کرتی ہو۔ وہاں کیسے انصاف مل سکتاہے؟ اسلام کے صدرِ اول میں بھی قانون اس وقت مو ثر ہوا جب معاشرے کی اخلاقی تعمیر ہو گئی۔اللہ کے قانون میں تدریج کو اسی لیے پیش نظر رکھا گیا۔جب تک ہم اخلاقی تعمیر کو اپنی ترجیحات میں مقدم نہیں رکھتے، انصاف نہیں مل سکتا۔ قانون کے بارے میں بھی ہم نظری طور پر بہت سے ابہامات کا شکار ہیں۔ایک طرف سماج کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ گواہ نہیں ملتے۔ دوسری طرف ہم واقعاتی گواہی کو بھی قبول نہیں کرتے اور اس کی ذمہ داری شریعت پر ڈال دیتے ہیں۔ دراں حالیکہ اس کی ذمہ دار شریعت نہیں، ہمارا فہم ہے۔اس سے جو تضاد واقعہ ہوا، ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ حدود میں تو واقعاتی شہادت قبول نہیں لیکن تعزیر میں ہے۔گویا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ کے قانون کے تحت تو کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ا لبتہ ہم اپنی عقل سے اس کی تلافی کر دیں گے۔معلوم نہیں لوگوں نے اپنے استدلال کے اس پہلو پر کتنا غور کیا ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص پرزنا کا الزام ہے۔ تمام واقعاتی شہادتیں جرم کی تصدیق کر رہی ہیں لیکن عینی گواہ تین ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ شریعت کے تحت چار گواہوں کا نصاب پورا نہیں،اس لیے حد ساقط ہو جائے گی۔ لیکن دوسری گواہیوں سے جرم ثابت ہے،اس لیے عدالت تعزیراً سزا دے گی اور یہ شدید سے شدید تر ہو سکتی ہے۔ حد توسو کوڑے ہے، تعزیر اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایک سادہ سی بات پر لوگوں کی نظر نہیں گئی کہ جرم یا تو ثابت ہو تا ہے یا نہیں ہو تا۔اگر کسی پر زنا کا مقدمہ ثابت نہیں تو پھر سزا کس بات کی؟اگر جرم ثابت ہے تو پھر وہ سزا کیوں نہیں جو اللہ نے مقرر کی؟کیا یہ مضحکہ خیز مو قف نہیں کہ جرم اِس طرح تو ثابت نہیں لیکن اُس طرح ثابت ہے؟ اگر یہ موقف درست ہے کہ قرآن نے زنا کے جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا ہے توپھر اس شرط کے پورے کیے بغیر کوئی سزا تعزیراً بھی نہیں دی جا سکتی۔ کچھ ایسے ہی فہمِ قانون و شریعت کا مظاہرہ ہم نے مقتول کے ورثا کی طرف سے معافی کے باب میں بھی اختیار کر رکھا ہے۔پاکستان جیسے سماج میں باپ بیٹے کی رضامندی سے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کردیتا ہے۔ پھر باپ مدعی بن جا تا ہے اور آخر میں بیٹی کاولی بن کربیٹے کو معاف کر دیتا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے اور اس کا انتساب اللہ کی شریعت کی طرف کیا جا سکتا ہے؟ تیسرا مسئلہ قوت ِ نافذہ سے متعلق ہے۔یہ معلوم ہے کہ یہاں ایف آئی آر بھی درج نہیں ہو سکتی،الا یہ کہ حاکمِ وقت کا مقامی نمائندہ چاہے۔ماضی قریب میں عدلیہ کے فعال ہونے سے اس روش پر کسی حد تک کمی ہوئی لیکن پتہ یہی چلا کہ انصاف کی فراہمی کا بڑا تعلق پولیس سے ہے۔اگر پولیس نہ چاہے تو مجرم بچ نہیں سکتا۔ پولیس کی باگ اہلِ اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک ہم اسے آزاد نہیں کریں گے، انصاف نہیں مل سکے گا۔اس کا حل بھی ہمیں تلاش کر ناہے۔قوتِ نافذہ کی غیر فعالیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کا وجود ثابت نہیں ہے۔بد دیانتی اور اس پر مستزاد نااہلی۔گویامعا مہ دو آتشہ ہے۔اس کا علاج اچھی حکومت (good governance)ہی ہو سکتی ہے۔ ایک جمہوری معاشرے ہی میں اس کی ضمانت مل سکتی ہے کیونکہ اس سے احتساب کا ایک فطری نظام وجود میں آتا ہے۔ اگر ہم جمہوری رویے میں پختگی دکھائیں توآزاد میڈیا، فعال عدلیہ اورفعال اپوزیشن جماعتوں کی مو جودگی میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنی کسی تقریرمیں ذکر کیا کہ جب بطور جج انہوں نے ایک فیصلہ سنایا تو متاثرہ آ دمی چیخ اٹھا:میں تو سمجھا تھا یہاں انصاف ہوتا ہے۔ جسٹس کیانی نے جواباً کہا: نہیں، یہاں فیصلہ ہوتا ہے۔اُس نے کہا: میں تو سوچ کے آیا تھا یہ عدالت ہے۔ جسٹس کیانی نے کہا: نہیں، یہ کچہری ہے۔اگر ہم نے فیصلہ نہیں ، انصاف کر نا ہے اور کچہری کو عدالت میں بدلنا ہے تو پھر ایک طرف سماج کو تبدیل کر ناہوگا اور دوسری طرف حکومتی نظام کو موثر اور دیانت دار بنا نا ہوگا۔پہلا کام سماجی اصلاح اور تعمیر سے ہوگا اور دوسرا جمہوریت کے استحکام سے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved