تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     19-12-2023

آم اور کیلے‘ امریکہ اور ہنڈراس

انور رٹول آم پر پاکستان اور بھارت کا تنازع خاصا پرانا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1980ء میں صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق نے اس وقت کی بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو آموں کی ایک خاص قسم بطور تحفہ پیش کی تھی۔ اندرا گاندھی کو یہ آم بہت پسند آئے۔ انہوں نے تفصیل پوچھی تو صدر ضیا نے انہیں بتایا کہ اس آم کو رٹول کہتے ہیں اور یہ نسل پاکستان میں خاصی مقبول ہے۔ بھارت میں جب یہ بات پہنچی تو اتر پردیش کے کچھ لوگ اندرا گاندھی سے ملنے دہلی پہنچے اور انہیں بتایا کہ رٹول آم کا جنم پاکستان میں نہیں بلکہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع میرٹھ کے گاؤں رٹول میں ہوا۔ (اس وقت رٹول گاؤں میرٹھ ضلع میں ہوا کرتا تھا، اب یہ ضلع باغپت کی کھیکرا تحصیل کا حصہ ہے)۔ میرٹھ کے ایک مسلم‘ فریدی خاندان نے دعویٰ کیا یہ آم ہمارے دادا نے تیار کیا تھا۔ انہوں نے اندرا گاندھی کو بھارتی انور رٹول کا تحفہ دیا جس پر اندرا گاندھی نے صحافیوں کو بلایا، ایک پریس کانفرنس کی اور اس کی تصاویر اخبارات میں شائع کرا دیں۔ پاکستانی مؤقف یہ ہے کہ بھارت کی وزیراعظم سمیت دنیا بھر میں انور رٹول متعارف کرانے والا پاکستان ہے‘ یہ آم بھارت سے ہجرت کر کے پنجاب میں آباد ہونے والے ایک کاشتکار انور الحق نے متعارف کرایا تھا اور چونکہ وہ میرٹھ سے ہجرت کر کے آئے تھے‘ اس لیے انہوں نے اس کا نام اپنے اور اپنے آبائی گائوں کے نام پر رکھا۔ یہ بات میرٹھ کا فریدی خاندان بھی تسلیم کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بھارتی انور رٹول اور پاکستانی انور رٹول کے ذائقے میں خاصا فرق ہے۔
برصغیر کے بڑے شہروں اور قصبوں میں کسی گائوں، محلے یا مسجد کے قریب کسی قوم اور برادری کی اکثریت ہوتی تو اس مسجد اور علا قے کا نام اس برادری کے نام سے مشہور ہو جاتا۔ اسی نام کو کارِ سرکار اور روزمرہ کی بول چال میں استعمال کیا جانے لگتا۔ دیہات میں اگر کسی جگہ آم کے درختوں کی بہتات ہوتی تو اسے آموں کا باغ یا آم باغ کہا جانے لگتا۔ انگریز برصغیر میں قریب سو برس تک حکومت کر نے کے بعد واپس گئے لیکن پورے برصغیر میں انگریزوں کے ناموں سے نجانے کتنی شاہراہیں سڑکیں‘ ہسپتال‘ سکول‘ کالج حتیٰ کہ شہر تک منسوب ہیں مگر ابھی تک انہیں اُنہی نا موں سے پکارا جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ شہروں کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور شاہراہوں کے نام بھی تبدیل کیے گئے مگر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود نئے نام ابھی معروف نہیں ہو سکے ہیں۔
آج لاہور میں جہاں جوہر ٹائون کی خوبصورت آبادی ہے وہاں کبھی جامن کا ایک درخت اور ایک کنواں ہوا کرتا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا کنویں کا نام ''جمو والا کھوہ‘‘ پڑ گیا۔ ابھی تک لوگ جوہر ٹائون کے اس علاقے کو جمو والا کھوہ کے نام ہی سے یاد کرتے ہیں۔سندھ کے مختلف اضلاع میں جہاں ہر طرف کیلوں کے باغات ہیں‘ ان جگہوں کو ''کیلوں کا باغ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قبل از آزادی اور آزادی کے بعد بھی کافی عرصے تک پودینے کے باغات کی کافی کہانیاں سننے میں آتی رہی ہیں لیکن ''پودینے کی ریاست‘‘ کا نام کبھی سننے میں نہیں آیا اور نہ ہی کیلوں کے باغات کی مناسبت سے کیلا شہر یا گائوں جیسا نام سننے میں آیا ۔ البتہ انگریزی زبان کی چونکہ بات ہی الگ ہے‘ اس لیے ''بنانا ریپبلک‘‘ کی اصطلاح نہ صرف خاصی عام ہے بلکہ مقبول بھی ہے۔ انگریزی زبان کی ایک خوبی کہہ لیجئے یا خامی‘ کہ اس میں بولے اور لکھے جانے والے سینکڑوں الفاظ ایسے ہیں جو عام فہم ہیں مگر ان کے ایک‘ دو نہیں بلکہ کئی دیگر مطالب بھی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ وسطی امریکہ میں بنانا ریپبلک کے نام سے واقعتاً کچھ ریاستیں موجود تھیں۔ اب دیکھنا یہ پڑے گا کہ ان ریاستوں کو اگر یہ نام دیا گیا تھا تو کیا یہ ان کی تشکیل کے وقت سے تھا یا بعد میں اس نام سے ان کو پکارا جانے لگا۔ اگر ایسا تھا تو اس کی وجوہات کیا تھیں۔ وسطی امریکہ کی تاریخ اس پہ کچھ روشنی ڈالتی ہے۔ موجودہ دور میں بنانا ریپبلک کی اصطلاح سیاسی طور پر ایسی غیر مستحکم ریاست‘ جس کی معیشت پر غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں کا غلبہ ہو‘ کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے۔ اگر کسی ریاست کی یہ پہچان بن جائے تو یہ ہرگز قابلِ ستائش بات نہیں سمجھی جاتی۔دیکھا جائے تو بنانا ریاست جیسی اصطلاح کو کسی اچھی بھلی ریاست سے منسوب کر دینا اس کے لیے سخت توہین آمیز بات ہے۔ دانشوروں کے ایک گروہ کا ماننا ہے کہ جو ریاست اپنے داخلی و خارجی معاملات میں بے دست و پا ہو جائے‘ اس کو بنانا ریپبلک کہا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں ایک سامراجی اور نو آبادیاتی طرزِ حکومت کا عکس اس طرح نظر آئے کہ آقا اور غلام واضح طور پر دکھائی دینے لگے‘ اسے بنانا ریپبلک یعنی بنانا ریاست کہا جائے گا۔ ضروری نہیں کہ جس ملک میں قانون کی پاسداری نہ ہو‘ جہاں آئین کو عملی طور پر معطل کر دیا جائے‘ اسے ہی بنانا ریپبلک کہا جائے بلکہ کیلوں کی بہتات کی وجہ سے بھی بنانا ریاستیں مشہور ہوئی ہیں۔ البتہ ان ریاستوں کی ایک خاص صفت یہ رہی ہے کہ سیاسی طور پر ان ریاستوں کو ایک خاص انداز سے غیر مستحکم اور غیر منظم رکھا جاتا ہے تاکہ سامراجی مفادات کی تکمیل ہوتی رہے۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں صنعتی ترقی کے سبب امریکہ میں قدرے خوشحالی آ گئی تھی۔ بہت سے ممالک سے لوگ امریکہ آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اب امریکہ کے لیے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو رہا تھا لہٰذا وسطی امریکی ممالک کی جانب دیکھنا شروع کیا گیا۔ ہنڈراس (Honduras) وہ پہلا ملک ہے جسے امریکہ نے بنانا سٹیٹ کا خطاب دیا۔ ہنڈراس ایک عرصے تک امریکہ کو کیلے فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ جنوری 1877ء میں امریکہ کی ''یونائیٹڈ فروٹ کمپنی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی اور 1899ء میں ہنڈراس سے کیلوں کی پہلی کھیپ بذریعہ بحری جہاز ریاست ہائے متحدہ امریکہ پہنچی۔ کیلوں کی کھپت کے حساب سے امریکہ میں ایک بڑی اور کثیر مارکیٹ موجود تھی، لہٰذا امریکی کمپنیوں نے ہنڈراس میں ریل ٹریک اور سڑک بچھانے کا کام شروع کر دیا تاکہ کیلوں کی فراہمی مستقل بنیادوں پر جاری رکھی جا سکے۔ اتنی سرمایہ کاری کی وجہ سے امریکہ کے لیے یہ بھی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ہنڈراس کے سیاسی حالات میں بگاڑ نہ آنے دے۔ ریاست ہنڈراس کے ذمہ داران کو پتا چلا تو انہوں نے باور کرایا کہ کسی قسم کی مداخلت امریکہ کے مفادات اور ہمارے ملک کے امن و امان کے لیے سازگار نہیں ہو گی مگر امریکہ نے وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی، جو آج تک اس کا وتیرہ رہا ہے؛ یعنی جائز و ناجائز مداخلت۔ نتیجتاً ہنڈراس کے معاملات ایک بنانا ریاست کا منظر پیش کرنے لگے۔ اسی دوران معروف امریکی مصنف او ہنری (O' Henery) کی جانب سے ''بنانا ریپبلک‘‘ کی اصطلاح متعارف کرائی گئی جو فوراً ہی مشہور ہو گئی۔
ہمارے ہاں ہر اُس ملک کو بنانا ریپبلک کہہ دیا جاتا ہے جس کی اپنی کوئی عالمی حیثیت نہ ہو حالانکہ یہ اصطلاح ایک پوری تاریخ کی حامل ہے۔ ویسے آج کی تاریخ میں ایکواڈور امریکہ کو سب سے زیادہ کیلے برآمد کرتا ہے لیکن اس کے بہتر سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے نہ اسے بنانا ریپبلک کہا جاتا ہے اور نہ سمجھا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا بھر میں بنانا ریپبلک حقارت کا استعارہ بن چکی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جس ریاست کا نام حقارت سے پکارا جائے‘ اس کے شہریوں کو بھی حقارت ہی سے دیکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب فوجی آمریت کو ہی دنیا میں غیر قانونی حکومت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہیبلکہ قانونی اور جمہوری آمریت بھی مہذب دنیا اور باشعور ذہنوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی اور ایسی ریاستیں جہاں قانون و آئین کو موم کی ناک سمجھا جائے وہ بنانا ریاست کے طو رپر مشہور ہو جاتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved