تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-12-2023

پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے

صلاحیتوں کا معاملہ تو بہتات کا ہے۔ جس طرف دیکھیے، جس میں تلاش کیجیے صلاحیتیں ہی صلاحیتیں دکھائی دیتی ہیں۔ کم و بیش ہر انسان کسی نہ کسی منفرد صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ قدرت کی فیاضی اور عدل کا مظہر ہے۔ خد انے کسی ایک انسان کو بھی بے صلاحیت خلق نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنا اس کی شانِ عدل کے خلاف ہے۔ انسان کو روئے ارض پر زندگی اِس لیے بخشی گئی کہ ڈھنگ سے جیے، دوسروں کے کام آئے اور اپنے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی کا معیار بھی بلند کرے۔ اِس کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان کو صلاحیتوں سے مزین کیا جائے۔ صلاحیت کے معاملے میں نئی نسل تھوڑی سی انفرادیت رکھتی ہے۔ وہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ جوش و خروش کی بھی حامل ہوتی ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اُس کی رگوں میں بہتا بلکہ دوڑتا ہوا گرم خون اُسے چھوٹی اور بڑی عمر والوں سے ہٹ کر اور کچھ زیادہ کرنے کی تحریک دیتا رہتا ہے۔
کسی بھی انسان میں پائی جانے والی صلاحیت صرف اُس وقت ظاہر ہوسکتی ہے جب وہ اُسے ظاہر کرنا چاہے۔ اور معاملہ صلاحیت کے محض طشت از بام ہونے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ کسی بھی صلاحیت کا وجود اصلاً اِس لیے ہوتا ہے کہ اُسے بروئے کار لایا جائے تاکہ متعلقین کا معیارِ زندگی کسی حد تک بلند ہو۔ صلاحیت اُسی وقت تسلیم کی جاتی ہے جب وہ بروئے کار لائی جاتی ہے، مطلوب نتائج پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی شعبے کے کسی ماہر سے رابطہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اُس سے کام لیا جائے، اُس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتا یا اُس سے کام نہیں لیا جاتا تو پھر اُس کا انتہائی باصلاحیت، تجربہ کار اور ماہر ہونا کسی کے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ عمومی تصور یہ ہے کہ جس میں صلاحیت پائی جاتی ہو اُس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ کسی بھی شعبے سے متعلق صلاحیتوں کا حامل ہونے کو سب کچھ تصور کرتے ہوئے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھا جائے‘ سراہا جائے۔ اس حقیقت پر غور کرنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے کہ محض باصلاحیت ہونے سے کام ہو جایا کرتے تو آج دنیا ہر طرح کے مسائل سے مکمل طور پر پاک ہوتی۔ کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے والے افراد کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں کو سجانے، سنوارنے اور بروئے کار لانے پر متوجہ ہونے کے بعد ہی کچھ پاسکے۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور سنوارنے کا معاملہ چونکہ ناگزیر ہے اِس لیے اِس کے بغیر انسان کچھ خاص نہیں کر پاتا۔
یہ نکتہ ہر گام ذہن نشین رہنا چاہیے کہ صلاحیت کا حامل ہونا اچھی بات ہے مگر صرف اتنا کافی نہیں۔ باصلاحیت افراد کی کمی نہیں اور ایسے باصلاحیت افراد کی تو بالکل کمی نہیں جو محض باصلاحیت ہونے کو کافی سمجھ بیٹھے اور پھر ہمہ گیر ناکامی اُن کا مقدر بنی۔ انسان کسی بھی عمر میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر بروئے کار لاسکتا ہے۔ عمل کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے عمر یا وقت کی کوئی قید نہیں۔ انسان جب بھی خود کو عمل کے لیے تیار پائے تب سے زندگی کا معیار بلند ہونے لگتا ہے۔ ہاں‘ چڑھتی ہوئی عمر میں یہ عمل زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں شخصی ارتقا کے ماہرین اِس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ کسی بھی انسان کو بہتر زندگی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور بروئے کار لانا ہی چاہیے اور اِس کے لیے بہترین وقت نوجوانی کا ہے۔ نوجوانی کے عالم میں انسان بھرپور جوش و خروش کا حامل ہوتا ہے اور وہ خود کو ثابت کرنے کے لیے بھی بے تاب رہتا ہے۔ یہی وقت اُس کی بھرپور رہنمائی کا بھی ہے۔ نئی نسل کو لڑکپن کی حدود سے آگے بڑھتے ہی سب کچھ سمجھ میں نہیں آنے لگتا۔ ہاں‘ رگوں میں دوڑتا گرم خون اُسے بہت کچھ کرنے کی تحریک ضرور دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ بھرپور تیاری کے بغیر عمل کی دنیا میں قدم رکھے تو خرابیوں کی طرف بڑھنے کا احتمال رہتا ہے۔ غیر معمولی جوش و خروش غیر معمولی ہوش کے بغیر منطقی حدود میں نہیں رکھا جاسکتا۔ ایسے میں لازم ہے کہ نئی نسل کو بتایا جائے کہ محض رجحان، میلان اور صلاحیت کی بنیاد پر وہ زیادہ دور تک نہیں جاسکتی۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، نکھارنا اور اُن میں موزونیت پیدا کرنا لازم ہے تاکہ عملی زندگی میں زیادہ الجھنوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تعلیم و تربیت کا مرحلہ نئی نسل کے لیے ناگزیر ہے مگر یہ بھی کافی نہیں۔ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے حوالے سے روایتی انداز کی تربیت بھی ناگزیر ہے۔ روایتی انداز سے مراد ہے یہ ہے کہ نئی نسل کو وقتاً فوقتاً یہ بتایا جائے کہ اُسے بہت سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرنی ہے، زندگی کے معاشی اور معاشرتی پہلو کے درمیان بھرپور توازن برقرار رکھنا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو کسی ایک طرف زندگی کا جھکاؤ خرابیوں کی راہ ہموار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ تربیت بنیادی شرط ہے۔ نئی نسل پہاڑ کاٹ کر نکالے گئے سنگِ مرمر کے مانند ہوتی ہے جو بالکل خام شکل میں ہوتا ہے۔ اس خام سنگِ مرمر کو جب چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر تراشا جاتا ہے، چمکایا جاتا ہے تب اُس کا حُسن نکھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اِسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے
صلاحیتوں کو نکھارنے اور ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی کوشش کرنے والی اقوام دنیا پر حکمرانی کی تیاری میں زیادہ الجھن محسوس نہیں کرتیں۔ ترقی یافتہ معاشروں سے صلاحیتوں کو نکھارنے اور اُن میں عملی زندگی کے تقاضوں سے موزونیت پیدا کرنے کا ہنر سیکھا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی قوم دوسروں سے ممتاز اُسی وقت ہوسکتی ہے جب اُسے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا بھرپور موقع فراہم یا جائے۔ ترقی یافتہ معاشروں کے مجموعی نظام کا جائزہ لیجیے تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہوگی کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کی صلاحیتیں پروان چڑھانے اور ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے کیونکہ اُنہی کو آگے چل کر ملک سنبھالنا اور چلانا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ معاشرے ایسا نظام تشکیل دیتے ہیں جو پتھر کو تراش کر اُس کا حُسن، توقیر اور قیمت بڑھاتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم دنیا سے مقابلہ کرنے کے قابل ہونے کے لیے اپنے ہر پتھر کی تقدیر سنوارنے کی کوشش کریں۔ ہماری نئی نسل انتہائی باصلاحیت اور پُرعزم ہے۔ پاکستانی نوجوانوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
بھارت سمیت خطے کے کئی ممالک نے نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے اُس میں بھرپور اعتماد پیدا کیا ہے جس کے نتیجے میں ایسی افرادی قوت معرضِ وجود میں آئی ہے جو پوری دنیا میں خدمات انجام دے کر اپنی اپنی قوم کے لیے بڑے پیمانے پر مالیاتی استحکام کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ بھارت نے نالج ورکرز کی ایک پوری فورس تیار کی ہے۔ ہمیں بھی اپنی نئی نسل کو بہتر مستقبل اور عالم گیر نوعیت کی مسابقت کے لیے تیار کرنے پر خاص توجہ دینا ہوگی۔ عالم گیر مسابقت کے حوالے سے پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں انتہائی ماہر اور چابک دست قسم کی افرادی قوت تیار کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ عاملہ غیر معمولی توجہ کا طالب ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے جامع منصوبہ سازی کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے مزید تساہل اور تغافل کی گنجائش نہیں۔ لازم ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ معاملات کو درست کرنے کی سعی کی جائے اور جو کچھ بھی دوسرے ترقی پذیر معاشرے کر رہے ہیں وہی ہم بھی کریں۔ یہ معاملہ آپشن کا نہیں بلکہ اب تو یہ سب کچھ ناگزیر ہو چکا ہے۔
ہمارے نوجوان اپنے طور پر کچھ نہ کچھ سیکھ کر بیرونِ ملک جاتے ہیں اور وہاں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر یہ ثابت کردیتے ہیں کہ اگر حکومت متوجہ ہو تو بیرونِ ملک کام کرنے والے باصلاحیت نوجوانوں کی فوج تیار کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے پوری توجہ کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار کی جاسکے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved