شِو کمار بٹالوی خوش شکل‘ خوش لباس‘ خوش آواز اور خوش گو شاعر تھا۔ اس کی شخصیت میں کوئی خاص بات تھی کہ جو اسے ایک بار ملتا ہمیشہ کے لیے اُس کے سحر میں مبتلا ہو جاتا۔ بیج ناتھ کے میلے میں ملنے والی لڑکی مینا کی بے وقت موت نے اس کی زندگی کو تہ و بالا کر دیا تھا۔ شِو کمار کی آخری پناہ گاہ شاعری تھی جو اس کے Catharsis کا بڑا ذریعہ تھی۔ اس کی شاعری نے اسے ایک نئی پہچان دی تھی۔ پھر اس کی زندگی میں ایک ایسا نیا موڑ آیا جب اس کی ملاقات ایک خوبصورت اور ذہین لڑکی انوسویا (Anusuya)سے ہوئی۔ انوسویا کا تعلق ہندوستان کے معروف علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ اس کے والد کا نام گوربخش سنگھ تھا۔ گوربخش سنگھ نے 1933ء میں پنجابی کا مشہور رسالہ ''پریت لڑی‘‘ شروع کیا جس نے کچھ ہی عرصے میں پنجابی ادب میں اپنا مقام بنا لیا۔ گوربخش سنگھ کے گھر میں شعرو ادب سے تعلق رکھنے والوں کا آنا جانا تھا۔ انوسویا اسی ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ گھر کے ماحول نے اسے اعتماد کی دولت دی تھی۔ اس کا خواب نئے منظروں کی تلاش تھی۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے رو س چلی گئی۔ وہیں اس کی دوستی اپنے ایک ہم جماعت سے ہو گئی اور وہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اس وقت انوسویا کی عمر بیس سال سے کم تھی۔ لیکن بدقسمتی سے اس شادی کا دورانیہ مختصر تھا۔ ایک دن اچانک انوسویا کے شوہرنے خود کشی کر لی۔ اس خود کشی کے پیچھے کیا وجوہات تھیں یہ معمہ آج تک حل نہ ہو سکا۔
انوسویا واپس ہندوستان آئی تو شِوکمار کی شاعری کی گونج ہر طرف تھی۔ اس کی اداسی کو شِو کمار کی شاعری میں پناہ ملی۔ پھر ایک دن اس کی ملاقات شِوکمار بٹالوی سے ہوئی۔ انوسویا کی بھابھی پونم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انوسویا نے شِوکمار کو اپنے گھر بلا لیا اور یوں اس دوستی کی بنیاد پڑی جو شِوکمار بٹالوی کی شاعری میں امر ہو گئی۔ کہتے ہیں گوربخش سنگھ کو شِو کمار بٹالوی اور اپنی بیٹی انوسویا کی محبت کا اندازہ ہوا تو اس نے انوسویا سے براہِ راست پوچھا کیا وہ شِو کمار سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ پونم کے کہنے کے مطابق انوسویا نے انکار میں جواب دیا۔ لیکن یہ روایت گوربخش سنگھ کی بہو پونم کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ اس کے برعکس ایک اور روایت کے مطابق جب گوربخش سنگھ کو انوسویا اور شِو کمارکے تعلقات کا پتا چلا تو اس نے فیصلہ کیا کہ انوسویا کو فوری طور پر ملک سے باہر بھیج دیا جائے۔ یوں انوسویا جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا چلی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی موبائل فون ایجاد نہیں ہوا اور ٹیلیفون کی سہولت بھی عام نہیں تھی۔ انوسویا منظر سے اچانک غائب ہو گئی تو شِوکمار کو یوں لگا کسی بھرے میلے میں انوسویا کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔اور وہ بھیڑ میں گُم ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں شِو کمار کی مشہور نظم ''اک کُڑی جدا نام محبت گُم ہے گُم ہے گُم ہے ـ‘‘ انوسویا کے بارے میں ہی لکھی گئی ہے۔ شِو کمار جب یہ نظم اپنی پاٹ دار آواز میں پڑھتا تو سننے والے اس کے ساتھ جذبات کی رو میں بہہ جاتے۔ یہ نظم اور اس کی اثر پذیری کئی برس گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ حال ہی میں ہندوستان میں بننے والی فلم ''اڑتا پنجاب‘‘میں بھی اس نظم کو استعمال کیا گیا۔ کہتے جب انوسویا کے گھر بیٹا پیدا ہواور اسکی خبر شِو کمار کہ ملی تو اس نے ''مائے نی میں اک شکرا یار بنایا‘‘ لکھی۔ یہ نظم بھی شِو کمار کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نظم کی آخری دو سطریں انوسویا کے ہندوستان چھوڑ جانے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
اک اڈاری ایسی ماری
او فیر وطنی نہ آیا
(اس نے ایسی اڑان بھری کہ پھر کبھی وطن واپس نہیں لوٹا)
انوسویا وینزویلا کی ایک یونیورسٹی میں انگریزی کی استاد تھی وہیں اس نے شادی کرلی تھی اور اس کا تعلق ہندوستان سے تقریباً ختم ہو گیا۔ کہتے ہیں ایک روز شِو کمار بٹالوی پنجابی کی معروف شاعرہ امرتا پریتم کے گھر بیٹھا تھا اور انوسویا کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی۔ شِو کمار نے اپنی جیب سے والٹ (Wallet) نکالا‘ اس میں انوسویا کی تصویر تھی جو انوسویا نے شِو کمار کو دی تھی اور تصویر کی پشت پر اس کیلئے محبت بھرے جملے لکھے تھے۔
کہتے ہیں شِوکمار کی زندگی اور شاعری پر سب سے اہم اثرات انوسیا کے ہیں۔ انوسیا وینزویلا کے قیام کے دوران صرف تین چار بار ہندوستان آئی۔ آخری بار جب وہ ہندوستان آئی تو شِو کمار کا انتقال ہو چکا تھا۔ انوسیا شِو کمار بٹالوی کے گھر گئی اور اس کی بیوی اروتا سے ملاقات کی اور اس کیساتھ بیٹھ کر دیر تک شِو کمار کو یاد کیا۔ 8ستمبر 2020ء کو انوسویا کا بھی انتقال ہو گیا۔انوسویا کی بھابھی پونم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انوسیا ہندوستان سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی آخری دن تک شِوکمار کو یاد کرتی رہی۔
شِوکمار کے دکھوں نے اس کی شاعری کو تاثیر کی قوت دی۔ وہ خوش قسمت ہے کہ اس کی شاعری کو پاکستان اور ہندوستان میں یکساں پذیرائی ملی۔ کیسے کیسے گیت تھے جو شِو کمار نے لکھے اور جولوگوں کے دلوں میں بس گئے۔ اس وقت چند گیت مجھے یاد آرہے ہیں: ''کی پچھدے او حال فقیراں دا‘‘ ،''مینوں تیرا شباب لے بیٹھا‘‘، ''ڈاچی والیا موڑ مہار‘‘ ،''مائے نی مائے میرے گیتاں دے نیناں وچ‘‘،''لنگ آجا پتن چناں دا یار‘‘، ''دیوا بلے ساری رات‘‘، ''اک میری اکھ کا شنی‘‘‘ ''توں جو سورج چوری کیتا میرا سی‘‘،''اے مرا گیت کیسے نہیں گانڑاں‘‘، ''اساں تے جوبن رتے مرنا‘‘،''بھٹی والیے پیڑاں دا پراگا بھن دے‘‘،''مائے نی میں اک شکرا یار بنایا‘‘ ، ''مینوں ہیرے ہیرے آکھے منڈا لمبڑاں دا‘‘،''مدھانیاں‘‘، ''میرے دلاں دیا محرماں گھر‘‘،''اج دن چڑھیا تیرے رنگ درگا‘‘۔
یہ شِوکمار کے صرف چند گیتوں کا ذکر ہے۔ شِوکمار نے کامیابی اور مقبولیت کا سفر نوجوانی میں طے کر لیا تھا۔ 25 سال کی عمر تک اس کی شہرت پنجاب کے ہر گھر تک پہنچ چکی تھی۔ شِو کمار کی شاعری کا دور 1960ء سے شروع ہو کر 1973ء میں اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کل 13 سال بنتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے مختصر عرصے میں شِوکمار بٹالوی نے پنجابی شاعری کو کس طرح مقدار اور معیار کے حوالے سے اتنا باثروت بنا دیا۔ اس مختصر عرصے میں شِوکمار کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں پیڑاں دا پراگا‘ آٹے دیاں چڑیاں‘ برہاتوں سلطان‘ میں ا تے میں‘ لاجونتی‘ مینوں و داع کرو اور منظوم ڈرامہ ''لونا‘‘ شامل ہیں۔ یہ وسیع شعری ذخیرہ شِوکمار کے تخلیقی وفور کی دلیل ہے۔ شِو کمار شہرت کی چکاچوند میں جی رہا تھا لیکن اس کے زندگی میں ایک خالی پن تھا۔ بھری دنیا میں کسی چیز کی کمی تھی۔ اس کی زندگی ایک ایسی کشتی کی مانند تھی جسے دریا کی لہریں اپنے ساتھ بہائے جا رہی ہوں۔ شِو کمار کی بے قرار زندگی کو ایک ایسے ساتھی کی ضرورت تھی جو اس کا جذباتی سہارا بن سکے۔جو اس کے دکھوں ں کو اپنا سکے۔ جس کے شانوں پر سر رکھ کر وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved