چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں۔ انہوں نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل‘ امریکی حکومتی عہدیداروں اور عسکری حکام سے ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے پانچ اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے اقدامات اور بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی یکطرفہ بھارتی کوشش سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ آرمی چیف کی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن‘ وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل چارلس کیو براؤن‘ نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ اور نائب قومی سلامتی مشیر جو ناتھن فائنر سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ عالمی سیاست میں یہ سب لوگ بہت اہم ہیں‘ اس لحاظ سے ان ملاقاتوں کو بھی بہت اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان ملاقاتوں کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے صورت حال کا گہرا تجزیہ ضروری ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں دنیا کی مروجہ سیاست اور طاقت کے توازن کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا اقوامِ متحدہ سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ فلسطین یا کشمیر جیسے پیچیدہ مسائل کا کوئی حل نکال سکتا ہے؟ اس سوال کا درست جواب دینے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اندرونی میکانزم میں طاقت اور اختیار کس کے پاس ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اقوامِ متحدہ کو چلانے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے‘ وہ کون مہیا کر رہا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی مسئلہ کس طرح حل ہونا چاہیے یا حل ہونا بھی چاہیے یا نہیں‘ اس کا فیصلہ سکیورٹی کونسل کے ممبران کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے جن کی مرضی کے بغیر کوئی قرار داد پاس نہیں ہو سکتی۔ یعنی کسی مسئلے کا حل نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ یہ وہ طاقت و اختیار ہے جس سے عام آدمی بھی واقف ہے۔ آئے دن مختلف عالمی تنازعات پر بحث اور پھر ویٹو کا استعمال ہوتا رہتا ہے۔ اس کے تازہ ترین مظاہر یوکرین روس اور اسرئیل فلسطین تنازعات کی شکل میں کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان تنازاعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کتنا موثر ادارہ ہے۔ تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو ایسے درجنوں تنازعات اس عالمی فورم پر آ چکے ہیں۔ ان پر سینکڑوں قرار دادیں پاس ہوئیں جن پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اور بے شمار قرار دادوں کو ویٹو کیا گیا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو اس عالمی ادارے میں بڑی طاقتوں کی قوت اور اثر و رسوخ کا اظہار ہیں۔ لیکن اس طاقت اور اثر و رسوخ کی ایک دوسری پرت یا جہت بھی ہے جس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں۔ یہ طاقت اور اثر و رسوخ ویٹو کے علاوہ ہے جو ان ملکوں کو اس لیے حاصل ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کو چلانے کے لیے مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو دو طرح کی مالی امداد دی جاتی ہے۔ ایک وہ جس کی ادائیگی ہر ممبر ملک کے لیے لازم ہے۔ دوسری وہ امداد ہے جو امیر اور خوشحال ممالک رضا کارانہ طور پر دیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اس وسیع تر نظام کو چلانے کے لیے زیادہ تر اخراجات سکیورٹی کونسل کے ممبران اٹھاتے ہیں۔ اس وقت اقوام متحدہ کو وسا ئل مہیا کرنے میں پہلے نمبر پر امریکہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے 2021ء میں اقوامِ متحدہ کو 12.2ارب ڈالر دیے۔ اس امداد کا ایک حصہ لازمی امداد کی مد میں ہے اور باقی امداد رضاکارانہ طور پر دی گئی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا غیرملکی امداد کا بجٹ تقریباً پچاس ارب ڈالر ہے جس میں سے 12ارب کے قریب اقوامِ متحدہ کو دیا جاتا ہے۔ ماضی میں امریکہ اقوامِ متحدہ کے کل اخراجات کا 25فیصد ادا کرتا رہا ہے‘ تاہم اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی ہوئی ہے۔ اس وقت امریکہ تمام اخراجات کا تقریباً 22فیصد حصہ ادا کرتا ہے۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ کے ساتھ امریکی تعاون میں کچھ کمی آئی ہے۔ اس کے بر عکس چین ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے‘ جنہوں نے اقوام متحدہ کے لیے اپنی امداد بڑھا دی ہے۔ 2021ء میں چین نے قیامِ امن کے بجٹ کا 15فیصد ادا کیا جس سے یہ امریکہ کے بعد اقوامِ متحدہ کے ساتھ تعاون کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا۔ 2013ء کے بعد سے بیجنگ کی قیامِ امن کی کارروائیوں میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین دنیا میں امن کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کسی بھی مستقل رکن سے زیادہ فوجی اور دوسرے اہلکار فراہم کرتا رہا ہے۔ چین دسمبر 2022ء تک امن فوج کے عملے کا مجموعی طور پر دسواں سب سے بڑا تعاون کرنے والا ملک تھا۔ حالیہ برسوں میں ادارے کے غیرمستقل اراکین جیسے بنگلہ دیش‘ بھارت اور نیپال نے بھی امن فوجیوں کی تعداد میں تقریباً تین گنا اضافہ کیا ہے۔
دیکھا جائے تو اقوامِ متحدہ میں سب سے زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ امریکہ رکھتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے میکانزم سے باہر بھی خارجہ امور پر پچاس ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کرنے کی وجہ سے امریکی اثر و رسوخ باقی تمام ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عالمی ڈپلومیسی میں امریکہ کے فیصلہ کن کردار کی وجہ سے کسی بھی عالمی تنازع کے حل کے لیے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی سفارتی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے میں پاکستان نے عالمی سفارت کاری کے لیے سب سے زیادہ توجہ امریکہ پر دی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تو پاکستان بہت حد تک امریکہ پر ہی انحصار کرتا رہا ہے۔ اس پالیسی کا اظہار ان دستاویزات سے ہوتا ہے جو امریکہ نے ڈی کلاسیفائیڈ کی ہیں۔ لیکن یہ دستاویزات اس بات کی بھی گواہ ہیں کہ یہ پالیسی اپنا کر پاکستان ایک دائرے میں گھومتا رہا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ثالثی کرانے کی خواہش کا اظہار تقریباً ہر ایک امریکی صدر سے کیا لیکن ہر بار امریکی صدور کی طرف سے پاکستان کو یہی بتایا جاتا رہا کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے براہِ راست مذاکرات کریں۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے لیے بھی امریکہ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ بھٹو سورن سنگھ مذاکرات‘ جو دونوں ملکوں کی تاریخ کے طویل ترین مذاکرات تھے‘ اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ امریکہ کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری کے اس طویل ترین تجربے کے بعد اسی پالیسی کو بغیر کسی ترمیم کے جاری رکھنا اور نئے نتائج کی توقع کرنا حقیقت پسندی نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کا دوسرا طاقت ور ترین ملک چین بھی مسئلہ کشمیر پر کوئی مختلف موقف نہیں رکھتا۔ چین بھی اس مسئلے کا حل پاکستان اور بھارت کی باہمی گفت و شنید میں ہی دیکھتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں چین کئی بار بار اپنا پالیسی بیان بھی جاری کر چکا ہے اور اس کی تمام سرکاری دستاویزات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ چین پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہے۔ ان حالات میں عالمی سفارت کاری میں نظر آنے والے امکانات اپنی جگہ خوش کن سہی‘ لیکن مسئلے کے حل میں کسی قابلِ ذکر پیش رفت کے لیے زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved