زندگی کم و بیش ہر انسان کے لیے سراسر غیر جانب دار ہے۔ مشکلات ہیں تو سب کے لیے اور آسانیاں بھی ہیں تو سب کے لیے۔ کسی بھی کام کے لیے جتنا وقت منطقی طور پردرکار ہوا کرتا ہے اُتنا وقت تو مختص کرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، ہر کام اپنے مطلوب دورانیے کے ذریعے ہی ہو پاتا ہے۔ انسان مگر بے صبرا بھی واقع ہوا ہے اور ناشکرا بھی۔ وہ قدم قدم پر، بات بات پر حالات کی ناسازگاری کا شکوہ کرتا ہے اور رونا روتا رہتا ہے مگر محض رونا رونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ زندگی اس طور بسر کی جائے تو کسی بھی معاملے کا حقیقی لطف محسوس نہیں کیا جاسکتا۔
ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی خواہش اور کوشش محض سادہ لوحی نہیں بلکہ پرلے درجے کی نادانی ہے۔ آپ نے بھی ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو عجلت پسندی کے دائرے سے نکلنا پسند ہی نہیں کرتے۔ وہ ہر معاملے میں فوری نتائج پانے کے متمنی رہتے ہیں۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے‘ اُنہیں اِس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ کسی کو کیا محسوس ہوتا ہے۔ وہ صرف اس بات سے غرض رکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ملنا ہے وہ جلد بلکہ بہت ہی جلد مل جائے۔ ایسا محض اتفاق سے یعنی کبھی کبھار ہی ہوسکتا ہے۔ اگر کسی کو راتوں رات تھوڑی بہت کامیابی مل بھی جائے تو اِسے کُلیے کے طور پر قبول کرکے زندگی بسر نہیں کی جاسکتی۔ جو لوگ عجلت پسندی کے نرغے میں رہتے ہیں وہ ہمیشہ اپنے معاملات کو یوں بگاڑتے ہیں کہ پھر اصلاح میں ایک زمانہ لگ جاتا ہے۔ کسی بھی شعبے کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں۔ بس ایک طائرانہ نظر ڈالیے۔ کھیل ہو یا شوبز‘ سیاست ہو یا کاروبار‘ تعلیم ہو یا فنونِ لطیفہ‘ سرکاری نوکری ہو یا محض دکان داری‘ ہر شعبے میں حقیقی اور ہمہ گیر کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہو پاتی ہے جب متعلقہ افراد اپنے آپ کو پورے کا پورا کھپاتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور راتوں رات سب کچھ پانے کی تمنا نہیں کرتے۔
زمانے کے رنگ ڈھنگ بدل چکے ہیں مگر بنیادی تقاضے اب بھی وہی ہیں جو ابتدا سے رہے ہیں۔ آج بھی کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنا بچوں کا کھیل نہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ معاملات کچھ کے کچھ ہوچکے ہیں۔ ٹیکنالوجیز کی بھرمار کے باعث ہر شعبہ ہمہ گیر اور غیر معمولی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ متعدد شعبے دیکھتے ہی دیکھتے یوں ختم ہوئے کہ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ دوسری طرف چند ایسے شعبے معرضِ وجود میں آئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ جاتے ہوئے شعبوں سے نکل کر آتے ہوئے شعبوں میں قدم جمانے کی کوشش دل پشوری کا معاملہ نہیں۔ اِس کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح کھپانا پڑتا ہے۔ اگر بھرپور کامیابی یقینی بنانا ہے تو کبھی کسی کاروباری خاندان کے معاملات اور معمولات کا جائزہ لیجیے۔ ایسے خاندان کے بیشتر افراد دن رات صرف اور صرف کاروباری معاملات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ وہ اپنا بیشتر وقت کاروباری معاملات بحسن و خوبی نمٹانے پر صرف کرتے ہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ترجیحات کا تعین سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ عام آدمی اپنی ترجیحات کا عمدگی سے تعین نہیں کر پاتا، اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اُس کے مزاج پر بے نیازی اور لاپروائی کا راج بالعموم برقرار رہتا ہے۔ زندگی ہم سے بھرپور انہماک اور سنجیدگی‘ دونوں کی طالب رہتی ہے۔
وقت کا انتہائی بنیادی تقاضا ہے صبر، سکون اور ٹھہراؤ۔ جس میں صبر نہیں اُس کے لیے کامیابی بھی نہیں۔ ہم یہ حقیقت بالعموم نظر انداز کیے رہتے ہیں کہ جس کام کے لیے جتنا وقت درکار ہوتا ہے اُتنا وقت تو دینا ہی پڑتا ہے۔ پورے ماحول کو دیکھیے، اُس کا جائزہ لیجیے اور تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ صبر و سکون کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ زندگی کا یہ بنیادی تقاضا کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ عجلت پسندی کسی بھی معاملے میں کوئی مثالی طرزِ فکر و عمل نہیں۔ معاملات فطری شکل اختیار کرنے میں اُتنا وقت لیتے ہیں جتنا لیا جانا چاہیے۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے ذہن کو تیار کرنا پڑتا ہے، فیصلہ سازی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں فیصلہ سازی اور تحمل‘ دونوں بنیادی شرائط میں سے ہیں۔ ہمارے گرد ایسا بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے جو ہماری پسند کا نہیں ہوتا اور ہمارے لیے زیادہ کام کا بھی نہیں ہوتا، مگر ماحول میں رونما ہونے والی تمام پیچیدگیوں کو برداشت کرتے ہوئے ہی جینا پڑتا ہے۔ اگر کسی کو اس طور جینے کی عادت نہ ہو تو عادت ڈالنا پڑتی ہے۔ ہم قدم قدم پر یہ بنیادی نکتہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جو گزرے ہوئے تمام زمانوں سے الگ ہے۔ ایک صدی کے دوران اتنا کچھ بدلا ہے کہ جو کچھ اِس سے پہلے تھا وہ سب کا سب غائب ہوچکا ہے اور جو کچھ آج دکھائی دے رہا ہے اُس کا غالب حصہ گزرے ہوئے کسی زمانے میں تھا ہی نہیں۔ سب کچھ اس طور بدلا ہے کہ ذہن سوچتے سوچتے کبھی کبھی سُن سا ہو جاتا ہے۔
آج کی دنیا میں چونکہ کسی بھی شعبے میں کامیابی یقینی بنانا بچوں کا کھیل نہیں اس لیے جو کچھ بھی کرنا ہے بہت احتیاط سے کرنا ہے۔ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹے تو کبھی کبھی بنتی یا بنی ہوئی بات بھی یوں بگڑ جاتی ہے کہ پھر بہت کوشش کرنے پر بھی بننے کا نام نہیں لیتی اور جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ بالکل سمجھ میں نہیں آتا۔ آج کی دنیا ہم سے بہت سے اوصاف کو پروان چڑھانے کا تقاضا کرتی ہے جنہیں ہم بھولے ہوئے بلکہ نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ اخلاقی اقدار بدل چکی ہیں۔ آج کے انسان پر ذہنی دباؤ بہت زیادہ ہے۔ گزرے ہوئے ہر زمانے کا انسان بعض معاملات میں انتہائی پُرسکون رہ سکتا تھا۔ آج کے انسان کے برعکس اُسے بعض معاملات میں اچھی خاصی رعایت نصیب تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ دن رات صرف اور صرف مادّہ پرستی کا اسیر رہتا تھا۔ انتخاب کا مرحلہ بھی درپیش رہتا تھا مگر اِس طور نہیں کہ کچھ سمجھ ہی میں نہ آئے۔ وقت اگر کچھ لیتا تھا تو بہت کچھ دیتا بھی تھا بلکہ سکون سے جینے کی اچھی خاصی گنجائش رہنے دیتا تھا۔ آج کا انسان اِس اعتبار سے تھوڑا نہیں بلکہ اچھا خاصا مجبور اور بدنصیب ہے۔ وہ کتنی ہی کوشش کرلے، ذہنی الجھنیں دامن گیر رہتی ہیں۔ ذہن کا مکمل بے فکر رہنا، سکون و راحت کی حالت میں آنا اب ممکن نہیں رہا۔
فی زمانہ ہر وہ انسان بہت بڑا ہے جو اپنے دل و دماغ پر قابو پانے میں بہت حد تک کامیاب ہو۔ یہ وصف کسی بھی انسان کو ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ایک بناسکتا ہے مگر اِس وصف کو پروان چڑھانا کسی بھی پہلو سے کوئی آسان مرحلہ نہیں۔ اس منزل تک پہنچنے میں ایک عمر لگ جاتی ہے۔ اہلِ دانش ہمیشہ اِس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ انسان کو فطری رفتار سے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ جس رفتار سے چلنا ہے اُس سے تیز چلئے تو بھی مصیبت اور کم رفتار سے چلئے تو بھی مصیبت۔ ضرورت سے کم رفتار تو خیر پھر بھی چل جاتی ہے؛ تاہم عجلت پسندی یعنی تیزی تو انسان کو برباد کر ڈالتی ہے۔ ہمارے آس پاس ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جن کی مدد سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ زندگی متوازن رفتار ہی سے چلتے ہوئے ڈھنگ سے بسر کی جاسکتی ہے۔ جو لوگ عجلت پسندی کو بنیادی شعار بناتے ہیں وہ کبھی پنپ نہیں پاتے۔ اُن کی زندگی میں اُتار چڑھاؤ کی کیفیت کسی بھی موڑ پر دم توڑنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ اُتار چڑھاؤ اُن کے مزاج کو اعتدال سے اِتنا دور لے جاتا ہے کہ پھر اُنہیں پورا ماحول بے اعتدال دکھائی دینے لگتا ہے۔
مطالعہ اور مشاہدہ انسان کو معقول رفتار سے جینا سکھاتا ہے۔ بڑوں کی صحبت میں انسان سیکھتا ہے کہ ڈھنگ سے کیسے جیا جائے۔ راتوں رات سب کچھ پانے کی تمنا کسی بھی زاویے سے معقول طرزِ فکر و عمل کا مظہر نہیں۔ یہ تمنا انسان کو بالآخر لایعنی طرزِ فکر و عمل کے گڑھے میں گِراکر دم لیتی ہے۔ طے کیجیے کہ آپ زندگی کے بنیادی تقاضے کے طور پر تحمل اور تعقل پر مبنی طرزِ فکر و عمل اپنائیں گے اور اپنے معاملات کو عجلت پسندی کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننے دیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved